حارث قدیر
پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر پروڈکشن آرڈر ختم ہونے کے بعد جمعہ کے روز کراچی جیل منتقل ہو گئے ہیں، جہاں ان کی درخواست ضمانت پر آئندہ ماہ 11 مئی کو سماعت ہو گی۔
اسی طرح بھارت کی دہلی ہائی کورٹ میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے سابق صدر عمر خالد کی درخواست ضمانت پر بھی سماعت جاری ہے۔ گذشتہ روز جب علی وزیر کو واپس جیل بھیجا جا رہا تھا، عین اس وقت عمر خالد کا مقدمہ بھی سنا جا رہا تھا۔
علی وزیر کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر، غداری، اشتعال انگیزی پھیلانے اور اداروں کو بدنام کرنے اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت صرف کراچی میں ہی 3 مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ عمر خالد اور انکے دیگر ساتھیوں کے خلاف بھی انسداد دہشت گردی اور غیر قانوی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون یو اے پی اے کے تحت مقدمات درج ہیں۔
علی وزیر کو دسمبر 2020ء میں پشاور سے گرفتار کر کے کراچی منتقل کیا گیا تھا اور وہ تاحال کراچی جیل میں ہیں۔ ایک مقدمے میں سپریم کورٹ سے ضمانت منظور ہونے کے بعد دیگر دو مقدمات میں انہیں گرفتار رکھا گیا ہے۔
عمر خالد کو ستمبر 2020ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تاحال ان کی درخواست ضمانت 3 مرتبہ مسترد کی جا چکی ہے۔ اب ہائی کورٹ میں ان کی درخواست سماعت پر سماعت 27 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے پولیس کو جواب داخل کرنے کیلئے تین دن کی مہلت دی گئی ہے۔
’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق جمعہ کے روز دہلی ہائی کورٹ نے عمر خالد کی تقاریر کو ناگوار، اشتعال انگیز اور ناقابل قبول قرار دیا۔ اس سے قبل 24 مارچ کو ایک ٹرائل کورٹ نے عمر خالد کی ضمانت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات ”ابتدائی طور پر سچ“ ہیں۔
عمر خالد کو دیگر افراد کے ہمراہ فروری 2020ء کے فسادات کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم ان کا اصل جرم یہ ہے کہ انہوں نے شہریت کے متنازعہ قوانین سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کی قیادت کو منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
علی وزیر اور عمر خالد کے مابین ایک اور قدر مشترک یہ ہے کہ یہ انکی پہلی گرفتاری نہیں ہے۔ یہ دونوں عوامی حقوق کی بازیابی کی جدوجہد اور طلبہ حقوق کی جدوجہد کے دوران ماضی میں بھی گرفتاریوں اور غداری کے الزامات کا سامنا کر چکے ہیں۔
علی وزیر اور عمر خالد کے ساتھ ہونے والے سلوک کے مشترک کردار سمیت دیگر کئی واقعات اس بات کی دلالت کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے حکمران اپنے جائز آئینی حقوق کا مطالبہ کرنے پر عوامی آوازوں کو دبانے کیلئے ایک جیسی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔
منظم ریاستی طاقت کے ساتھ ایسی آوازوں کو دبانے کیلئے ان کے خلاف نفرت پھیلانے، انہیں غدار قرار دینے اور ہجوم کو ان پر حملہ آور ہونے کیلئے اکسانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ پر امن سیاسی جدوجہد کے راستے میں ایسی رکاوٹیں اور پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ ریاستی تشدد کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے تاکہ پر امن سیاسی جدوجہد کو تشدد میں تبدیل کر کے جبر کو مزید تیز کیا جائے۔
تمام تر ریاستی حربوں کے باوجود اگر پر امن سیاسی جدوجہد کا راستہ نہ روکا جا سکے تو پھر غیر ملکی ایجنٹ ہونے کے الزامات کے علاوہ دہشت گردی اور غداری کے الزامات میں مقدمات قائم کئے جاتے ہیں اور عدالتی ٹرائل کے نام پر انہیں تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
عمر خالد کی ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ اور علی وزیر کی ڈیڑھ سال سے ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کے نام پر ہونے والا ہیر پھیر برصغیر پاک و ہند میں نظام انصاف کے مقید اور ریاست کے مطیع ہونے کی ایک واضح دلیل ہے۔ آئینی حقوق مانگے جانے پر گرفتاریاں اور قید بند سے آئین اور پارلیمان کی بالادستی اور جمہوری اقدار کی اصلیت بھی واضح ہو رہی ہے۔
درحقیقت جہاں ریاست حکمران طبقات کے مفادات کے تحفظ کیلئے مامور ایک جبر کا ایک اوزار ہوتی ہے، وہیں سرمایہ دارانہ نظام میں آئین، قانون اور نظام انصاف بھی حکمران طبقات کے مفادات کے تحفظ کیلئے ہی بنائے اور استعمال کئے جاتے ہیں۔ گو کہ آئین اور قانون کی نظر میں تمام شہریوں کو برابر قرار دیا جاتا ہے۔ ہر شہری کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے، اظہار رائے کی آزادی، تحریر و تقریر کی آزادی، انجمن سازی کی آزادی، فری اینڈ فیئر ٹرائل کا حق، روزگار کی ضمانت سمیت دیگر بے شمار حقوق تو آئین و قوانین میں درج کئے جاتے ہیں۔ تاہم ان حقوق سے فیضیاب صرف اور صرف سرمایہ دار حکمران طبقہ ہی ہو سکتا ہے۔ جب بھی محنت کش طبقے کے نمائندے ان حقوق کی مانگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت ہلاکتوں سے طویل قید و بند کی صعوبتیں ان کی منتظر ہوتی ہیں۔
ترقی کے ادوار میں کسی حد تک جمہوری، سیاسی اور شہری حقوق پر کسی حد تک عمل کیا بھی جاتا ہے۔ تاہم بحرانی ادوار میں فسطائی رجحانات زیادہ حاوی ہو جاتے ہیں اور ہر طرح کے حقوق کو چھین کر ہر طرح کی مخالف آواز کو دبانے کی پالیسی کو اپنایا جاتا ہے۔
علی وزیر، عمر خالد سمیت مقدمات میں الجھا کر جیلوں میں بند کئے جانے والے محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے نمائندوں، جبری طور پر گمشدہ کئے گئے اور ماورائے عدالت ہلاک کئے گئے ہزاروں سیاسی کارکنوں اور نوجوانوں کو حقیقی معنوں میں انصاف دلانے کیلئے طبقاتی تفریق اور جبر پر مبنی اس نظام کے خلاف جدوجہد ناگزیر ہو چکی ہے۔
محنت کش طبقہ ہی اپنے طبقہ ہونے کے احساس سے سرفراز ہوتے ہوئے نہ صرف اس نظام کو اکھاڑ پھینک سکتا ہے، بلکہ ایک حقیقی، آزاد، منصفانہ اور انسانی معاشرے کے بنیادیں تعمیر کر سکتا ہے۔