لاہور (جدوجہد رپورٹ) اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ’گلوبل لینڈ آؤٹ لک‘ رپورٹ کے مطابق پاکستان ان 23 ملکوں میں شامل ہے جنہیں گزشتہ دو سال کے دوران خشک سالی کی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے۔
’ڈان‘ کے مطابق یو این سی سی ڈی کی جانب سے اقوام متحدہ کے صحرا بندی اور خشک سالی کے دن سے قبل جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ صدی کے دوران خشک سالی سے سب سے زیادہ انسان ایشیامیں متاثر ہوئے۔
رپورٹ میں جن 23 ملکوں کی فہرست دی گئی ہے ان میں افغانستان، انگولہ، برازیل، برکینا فاسو، چلی، ایتھوپیا، ایران، عراق، قازقستان، کینیا، لیسوتھو، مالی، موریطانیہ، مڈغاسکر، ملاوی، موزمبیق، نائجر، صومالیہ، جنوبی سوڈان، شام، پاکستان، امریکہ اور زیمبیا شامل ہیں۔
رپورٹ میں 2050ء تک نتائج اور خطرات کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2050ء تک اضافہ 40 لاکھ مربع کلومیٹر (پاکستان اور بھارت کے مجموعی رقبہ کے برابر) علاقے کو بحالی کے اقدامات کی شدید ضرورت ہو گی۔ حیاتیاتی تنوع، پانی کے ضابطے، مٹی اور کاربن کے ذخیرے کے تحفظ اور ماحولیاتی نظام کے اہم افعال کی فراہمی کیلئے اہم ہے۔
کرۂ ارض کی 40 فیصد تک زمین تنزلی کا شکار ہے، جو براہ راست آدھی انسانیت کو متاثر کرتی ہے، جس سے 44 ٹریلین ڈالر مالیت کی عالمی جی ڈی پی کے تقریباً نصف کو خطرہ ہے۔ اگر صورتحال معمول کے مطابق 2050ء تک جاری رہتی ہے تو جنوبی امریکہ کے رقبہ جتنے علاقے کو تنزلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
رپورٹ کے مطابق 2030ء تک ایک ارب ہیکٹرز علاقے کی بحالی کیلئے اقوام متحدہ کیلئے اس دہائی میں 1.6 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ جو آج کے سالانہ 700 ڈالر بلین فوسل فیول اور زرعی سبسڈی کا ایک حصہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق غریب دیہی برادریاں، چھوٹے کاشتکار، خواتین، نوجوان، مقامی لوگ اور دیگر خطرے میں پڑنے والے گروہ صحرائی، زمینی انحطاط اور خشک سالی سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ان ترقی پذیر ممالک میں تحفظ اور بحالی کے لیے فنڈز فراہم کرنے کے لیے فوری طور پر مالی امداد کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر زمین کے انحطاط کے موجودہ رجحانات جاری رہے تو خوراک کی فراہمی میں رکاوٹیں، جبری نقل مکانی، حیاتیاتی تنوع میں تیزی سے کمی اور نسلوں کی معدومیت میں اضافہ ہو گا، جس کے ساتھ کووڈ19 جیسی زونوٹک بیماریوں، انسانی صحت میں کمی اور زمینی وسائل کے تنازعات کا خطرہ بڑھ جائے گا۔