لاہور (جدوجہد رپورٹ) پٹرولیم ڈویژن میں روسی سستی ایل این جی، خام تیل اور پی او ایل مصنوعات کی پیشکش کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے، جیسا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے بارہا دعویٰ کیا ہے۔
یہ بات جوائنٹ سیکرٹری ڈویلپمنٹ اور پٹرولیم ڈویژن کے ترجمان سید زکریا علی شاہ نے اس رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
’دی نیوز‘ کے مطابق پٹرولیم ڈویژن کے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کی جانب سے ایل این جی کی درآمد پر بات چیت کے دوران خام تیل، پی او ایل مصنوعات اور ایل این جی کی تجارت بھی ایجنڈے میں نہیں تھی، تاہم ایل این جی اور ایندھن 30 فیصد رعایتی شرح پر فراہم کرنے کی کسی روسی پیشکش کا اجلاس کے منٹس میں کوئی ذکر نہیں تھا۔
ترجمان نے کہا کہ حکومت نے 30 مارچ کو وزارت خارجہ کے ذریعے روس کو خطوط لکھے تھے جن میں فروری 2022ء کے پاکستانی وفد کے دورے کے حوالے سے پاکستان کی خام تیل، پی او ایل مصنوعات اور ایل این جی کی درآمد پر طویل مدتی معاہدے کرنے کی خواہش ذکر کیا گیا تھا۔
پٹرولیم ڈویژن نے وزارت خارجہ کو ایک خط بھی لکھا تھا جس میں پوچھا گیا تھا کہ کیا روس نے ایل این جی اور ایندھن کی مصنوعات پر کوئی رعایتی ٹیرف پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ اپریل 2022ء کے پہلے ہفتے میں دو یاددہانیاں بھی بھیجی تھیں، لیکن وزارت نے کہا کہ اسے اس سلسلے میں بات چیت کیلئے روس سے کوئی خط موصول نہیں ہوا۔
سابق وزیر توانائی حماد اظہر نے 30 مارچ 2022ء کو ایک خط کے ذریعے اپنے روسی ہم منصب کی توجہ ایک بین الحکومتی معاہدے کی طرف مبذول کرائی تھی، جو دونوں دوست ممالک کے درمیان ایل این جی کے شعبے میں تعاون پر 2017ء سے نافذ تھا۔ روسی وزیر کو بتایا گیا کہ پاکستان دونوں نامزد اداروں کے درمیان مذاکرات کو تیزی سے آگے بڑھاتے ہوئے اپنے تعلقات کو بڑھانے کا خواہاں ہے تاکہ ایل این جی کی فراہمی کے طویل مدتی معاہدے پر جلد اتفاق کیا جائے۔
اس وقت توانائی کے وزیر نے ماہانہ ایل این جی کے دو سے تین روسی کارگو کی فراہمی کی تجویز پیش کی تھی، ہر کارگو 140000 مکعب میٹر ایل این جی پر مشتمل تھا۔ اس خط میں روس کی جانب سے رعایتی شرح پر ایندھن اور ایل این جی کی درآمد کے طویل مدتی معاہدے پر بات چیت کے علاوہ کسی پیشکش کا ذکر نہیں تھا۔
وزارت توانائی کے حکام کا یہ بھی خیال تھا کہ جہاں تک بھارت کی جانب سے ایندھن کی درآمد کا تعلق ہے، وہ کئی دہائیوں سے روس سے خام تیل درآمد کر رہا تھا اور یوکرین کے خلاف جنگ کی وجہ سے یورپی یونین، امریکی پابندیوں کے باجود روس سے یہ درآمد کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی خارجہ پالیسی اس کے مضبوط معاشی طاقت اور بڑی معیشتوں کیلئے دلکش مارکیٹ کی وجہ سے انتہائی آزاد ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت نے ایران پر امریکہ سے پابندیوں کے خلاف خصوصی چھوٹ کا بھی انتظام کیا ہے اور طویل عرصے سے امریکی اور اقوام متحدہ کی پابندی کے باوجود ایران سے خام تیل اور پی او ایل مصنوعات درآمد کر رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت چین کے خلاف خطے میں امریکہ کا اسٹریٹیجک پارٹنر ہے۔
بھارت ہمیشہ امریکہ کے سامنے اپنی دلیل پیش کرتا ہے کہ اگر وہ ایران سے ایندھن درآمد نہیں کرتا تو اس کی معیشت کو نقصان پہنچے گا اور وہ کبھی بھی چین کے برابر نہیں ہوگا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، روس پر یورپی یونین اور امریکی پابندیوں کے باوجود بھی کام تیل، پی او ایل کی مصنوعات اور ایل این جی رعایتی نرخوں پر درآمد کرنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ ملک کی اقتصادی قوت بہت کمزور ہے اور ملک ہمیشہ آئی ایم ایف پروگرام پر انحصار کرتا ہے۔ حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان بھی ایران پر امریکی اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کی وجہ سے آئی پی گیس لائن منصوبہ مکمل کرنے میں ناکام رہا ہے۔