لاہور (جدوجہد رپورٹ) رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی درخواست ضمانت پر سماعت ایک مرتبہ پھر 12 ستمبر تک موخر کر دی گئی ہے۔ گزشتہ سماعت پر انسداد دہشت گردی عدالت نے حکومتی وکلا کو آخری مہلت دیتے ہوئے 2 ستمبر کو سماعت بہر صورت مکمل کرنے کے ریمارکس دیتے ہوئے 2 ستمبر تک سماعت ملتوی کی تھی۔ تاہم 2 ستمبر کو ہونے والی سماعت میں ایک مرتبہ پھر حکومتی پراسیکیوٹر کو تبدیل کر دیا گیا، جس کے بعد سماعت ایک مرتبہ پھر 12 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
علی وزیر کے خلاف کراچی میں درج اس چوتھے مقدمہ میں علی وزیر کی درخواست ضمانت پر یہ مجموعی طور پر گیارہویں سماعت تھی اور اب 12 ستمبر کو بارہویں سماعت ہو گی۔ اس دوران مختلف تاخیری حربے استعمال کئے گئے ہیں۔ یوں علی وزیر کو کراچی جیل میں ایک سال 9 ماہ کا عرصہ مکمل ہو چکا ہے اور وہ ابھی تک رہائی کے منتظر ہیں۔
علی وزیر کے خلاف کراچی میں مختلف اوقات میں 4 مختلف تھانوں میں 4 مقدمات قائم کئے گئے ہیں، جنہیں مرحلہ وار اوپن کر کے علی وزیر کو جیل میں زیادہ سے زیادہ وقت تک مقید رکھے جانے کی منصوبہ بندی پر کمال مہارت سے عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال نظام انصاف پر کئی سوالات کو بھی جنم دے رہی ہے۔
علی وزیر کو پشاور سے گرفتار کر کے کراچی منتقل کیا گیا تھا، جہاں ان کے خلاف دفاعی اداروں اور شخصیات کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے اور بغاوت اور غداری کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ مذکورہ مقدمہ میں انسداد دہشت گردی عدالت اور عدالت العالیہ سندھ سے درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے علی وزیر کی درخواست ضمانت منظور کی تو انہیں ایک دوسرے مقدمہ میں زیر حراست رکھ کر انسداد دہشت گردی عدالت پیش کر دیا گیا۔ دوسرے مقدمہ سے ان کی درخواست ضمانت عدالت العالیہ سندھ سے منظور ہوئی تو انہیں ایک کراچی میں ہی درج تیسرے مقدمہ میں انسداد دہشت گرد عدالت پیش کر دیا گیا اور ان کی رہائی ممکن نہ ہو پائی۔ تیسرے مقدمہ میں انسداد دہشت گردی عدالت نے ان کی درخواست ضمانت منظور کی تو یہ چوتھا مقدمہ ان کے خلاف اوپن کر دیا گیا۔
علی وزیر کراچی میں ہی درج اپنے خلاف چوتھے مقدمہ میں 12 ستمبر کو بارہویں پیشی پر عدالت پیش کئے جائیں گے، تاہم ان کی درخواست ضمانت کی منظوری کے امکانات ابھی بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
دوسری طرف ذرائع کا کہنا ہے کہ علی وزیر کو اگر کراچی میں درج اس چوتھے مقدمہ میں ضمانت مل جاتی ہے تو انہیں کراچی سے بنوں منتقل کیا جائے گا، جہاں ان کے خلاف اسی نوعیت کا ایک اور مقدمہ درج ہے۔ یوں علی وزیر کی رہائی موجودہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونے سے قبل ہونے سے روکنے کیلئے تمام تر حربے اپنائے جا رہے ہیں۔
علی وزیر سابق فاٹا کے علاقہ جنوبی وزیرستان کے حلقہ این اے 50 سے آزاد حیثیت سے منتخب رکن قومی اسمبلی ہیں۔ وہ انقلابی سوشلسٹ نظریات کے داعی ہیں اور گزشتہ چند سال سے پشتون علاقوں میں دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں اور دیگر مسائل کے حل کے حوالے سے بننے والی پشتون تحفظ تحریک کے قائدین میں شمار ہوتے ہیں۔ تاہم اس خطے کی واحد سیاسی آواز ہیں، جنہیں گزشتہ 21 ماہ سے مسلسل حراست میں رکھا گیا ہے اور انہیں اپنے حلقہ کی قومی اسمبلی میں نمائندگی کے حق سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔