خواجہ زبیر
نہ جانے اس ملک میں کون سا ادارہ بچا ہے جسے تباہ کرنے میں حکمران طبقے نے کوئی کسر چھوڑی ہے۔ ایک ہی کہانی ہے جو نہ جانے کتنے اداروں میں دہرائی جا چکی ہے۔ ریلوے کا بجٹ کاٹ کے، اس کے اصل ذریعہ آمدن کارگو سے نیشنل لاجسٹکس سیل (NLC) کو نوازا گیا۔ اور پھر کالے دھن سے مالامال پرائیویٹ ٹرانسپورٹر بھی ریلوے کی لاش کو بھنبھوڑنے آ گئے۔ یہی کچھ ہم نے واپڈا میں دیکھا۔ جرنل ضیا نے اچھے بھلے چلتے ادارے کی سربراہی فوجی اہلکار کو دے دی جسے واپڈا کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ محکمے میں کرپشن کا دور دورہ ہوا اور جب ملک بجلی کے بحران کا شکار ہو گیا تو آئی پی پیز کے گِدھوں کو دعوت دے دی گئی۔ پی ٹی سی ایل چلتا ہوا منافع بخش ادارہ تھا جسے کوڑیوں کے دام اتصلات کے حوالے کر دیا گیا۔ بعد میں وہ کوڑیاں بھی نصیب نہ ہوئیں۔ نہ صرف پی ٹی سی ایل کے ہزاروں محنت کشوں کا روزگار چھین لیا گیا بلکہ سروس بھی شدید متاثر ہوئی۔ پی آئی اے میں بھی یہی کہانی دہرائی گئی۔ دنیا کی بہترین ہوا باز کمپنی کو تباہ کر دیا گیا۔ جبکہ پرائیویٹ ایئرلائنز پھلتی پھولتی رہیں۔ اب اس کی بھی نجکاری کی تیاری ہے۔ یہ کہانی درجنوں بار دہرائی جا چکی ہے۔ جہاں لاکھوں محنت کشوں کا معاشی قتل ہوا وہاں اس ملک کے غریب عوام کو دستیاب ضروریات بھی ان کی دسترس سے دور ہوتی چلی گئیں۔
ہمارے بہت سے ادارے ایسے تھے جن سے نہ صرف ہزاروں محنت کشوں کا روزگار منسلک تھا بلکہ وہ ایک اکیڈمی کی حیثیت رکھتے تھے۔ پی آئی اے اس کی ایک مثال ہے جس کا نہ صرف اپنا قابل تحسین انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ اور تربیت گاہ تھے بلکہ اس نے کئی ممالک کو شہری ہوا بازی کے ادارے کھڑے کرنے میں معاونت کی۔ مگر یہاں ہم فقید المثال پی ٹی وی کی بات کرنے جا رہے ہیں جس نے شاید سب سے زیادہ صعوبتیں برداشت کیں مگر سلام ہے اس سے وابستہ محنت کشوں کو جو نہایت نا مسائد حالات میں بھی اپنا مشن جاری رکھے رہے۔
اکتوبر 1963ء میں اس وقت کے ڈکٹیٹر ایوب خان نے ایک بیان میں کہا کہ ”ٹیلیویڑن سہولت نہیں بلکہ ضرورت ہے۔“ یعنی اس ایجاد کا مقصد عوام میں تعلیمی سرگرمیوں اور معلومات کا فروغ تھا۔ پی ٹی وی نے یونیسکو اور حکومت جاپان کی مدد سے نومبر 1964ء میں لاہور سے اپنی نشریات کا آغاز کیا۔ بعد میں کراچی، کوئٹہ، پشاور اور اسلام آباد سینٹر بھی قیام میں لائے گئے۔ 1975ء میں ٹیلیفون اور ٹیلیگراف محکمہ نے مائیکرو ویو لنک سے ٹی وی سینٹروں اور بوسٹروں کو آپس میں جوڑ دیا۔ 1992ء پی ٹی وی کی تاریخ کا ایک اور سنگ میل ثابت ہوا جب اس نے سیٹیلائٹ لنک قائم کر لیا۔ ایک غریب ملک کے محدود وسائل میں پی ٹی وی کے محنت کشوں نے وہ کر دکھایا کہ جس کا حصول تقریباً ناممکن لگتا تھا۔
ٹی وی ناظرین محض اداکار اور نیوز کاسٹر ہی دیکھ پاتے ہیں مگر ہر پروگرام کے پیچھے پیش کار، ہدایت کار، لکھاری، کیمرہ مین، لائٹ مین، ساؤنڈ ٹیکنیشن، میک اپ آرٹسٹ، سیٹ ڈیزائنر، کاسٹیوم ڈیزائنر، بوم آپریٹر، ڈولی آپریٹر، الیکٹریشن، ریکارڈنگ ٹیکنیشن اور پھر اس سب کے بعد ویڈیو ایڈیٹر اور ساؤنڈ ایڈیٹر اور پھر نشریاتی عملے جیسے درجنوں افراد کا ایک دستہ موجود ہوتا ہے جو مل کر ایک خیال کو ناظرین کی سکرین تک پہنچاتے ہیں۔ ٹیلی وژن ایک جیتے جاگتے جسم کی طرح ہوتا ہے جس میں مختلف اعضا، اعصاب اور پٹھے مل کر کام کرتے ہیں۔
ہر دور میں حکمران طبقے نے پی ٹی وی کو ایک پروپیگنڈہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ جب جب ملک میں نام نہاد جمہوریت پر وار ہوا‘ ایک دستہ پی ٹی وی کی بندش کے لئے بھی روانہ کیا جاتا رہا۔ پی ٹی وی سے وابستہ بہت سے لکھاری، اداکار، نیوز ریڈر، پیش کار اور دیگر عملہ گاہے بگاہے حکمران طبقے کے عتاب کا نشانہ بنتے رہے۔ مگر ان محنت کشوں کا خمیر جس مٹی سے اٹھایا گیا اس میں گھٹنے ٹیک دینا شامل ہی نہیں ہے۔
نودولتیوں پر مشتمل موجودہ حکمران جماعت اقتدار میں آنے سے بہت پہلے 2014ء میں ہی پی ٹی وی پر حملے کی مرتکب ہو چکی ہے۔ جس میں نہ صرف املاک کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ پی ٹی وی ملازمین کو بھی زدوکوب کیا گیا۔ مگر مسند اقتدار ملنے پر تو باقاعدہ اس ادارے کو تباہ کرنے کی سازش رچائی جا رہی ہے۔ برطرف کیے گئے ایم ڈی پی ٹی وی ارشد خان کی غیر قانونی تعیناتی پر نہ صرف پی ٹی وی کا عملہ شدید برہم تھا بلکہ اس غم و غصے کی باز گشت خود حکمران ٹولے کے اندر بھی سنی گئی جب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور نعیم الحق اور اس وقت کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بیچ پی ٹی وی کے ایم ڈی ارشد خان کو لے کے خوب کھینچا تانی ہوئی جس کا انجام وزیر موصوف کے قلمدان کی تبدیلی کی صورت نکلا۔ دیگر محکموں کی طرح پی ٹی وی کو بھی مال بنانے اور اپنوں کو نوازنے کا ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے۔
رمضان کی آمد پی ٹی وی کے لیے خاص طور پر اہم ہوتی ہے۔ اس کے لئے نہ صرف خاص پروگرام اور ٹرانسمیشن ترتیب دی جاتی ہیں بلکہ کاروباری کمپنیاں خوب اشتہارات بھی دیتی ہیں۔ معاشی، سیاسی اور سماجی انحطاط کا عکس اداروں میں بھی جھلکتا ہے۔ اسلم اظہر، منو بھائی، ضیا محی الدین، سجاد ظہیر اور پرویز ہود بھائی کے پی ٹی وی پر وہ وقت آگیا ہے کہ اب عامر لیاقت جیسے لوگ رمضان ٹرانسمیشن کریں گے جس پر خود پی ٹی وی کا سٹاف سر پکڑے بیٹھا ہے۔ تمام تر سہولیات میسر ہونے اور نہایت اعلیٰ تربیت یافتہ سٹاف ہونے کے باوجود رمضان ٹرانسمیشن کے لئے راڈو بلڈرز کے مالک آصف راڈو کی مختلف کمپنیوں حسن مارکیٹنگ، اے ڈبلیو ایڈورٹائزنگ، ریکسل میڈیا اور آن پوائنٹ کمیونیکیشن کو خطیر فنڈز سے نوازا گیا۔ محض رمضان ٹرانسمیشن کے لیے ’SMD‘ کی مد میں نو لاکھ جاری کیے گئے۔ سیٹ کے لیے پینتیس لاکھ اڑا دیے گئے۔ تیرہ لاکھ کی لائیٹنگ اور چودہ لاکھ کی ساؤنڈ، آٹھ لاکھ کے تین اے سی، اور بائیس لاکھ کا جنریٹر وغیرہ۔ دیگر اخراجات الگ ہیں۔ مقداری اور معیاری پیمانے پر اس سے کہیں بہتر نشریات اس خطیر رقم کے عشرے عشیر میں کی جا سکتی تھیں۔ یہ نشریات پی ٹی وی نیوز، پی ٹی وی بولان اور ایک اور چینل پر دکھائی جائیں گی۔ برطرف کیے گئے ایم ڈی پی ٹی وی ارشد خان اسی طرح کی رمضان نشریات کے ایک معاہدے سے انٹرفلو کے ایڈورٹائزنگ ٹائیکون طاہر اے خان کو بھی نواز گئے جو چار سرکاری اور ایک پرائیوٹ چینل پر نشر کی جائیں گی۔
پی ٹی وی میں اقربا پروری، بدعنوانی اور کرپشن کا سلسلہ گزشتہ کئی حکومتوں سے جاری ہے۔ 2014ء کی آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق محض ایک سال میں اقربا پروری، مالی بے ضابطگیوں اور کرپشن کی وجہ سے پی ٹی وی کو 773 ملین روپے کا مالیاتی خسارہ ہوا۔ چار بڑے افسران کی اسلام آباد کلب کی ممبرشپ کے لئے 60 لاکھ کی ادائیگی ادارے کی جیب سے کی گئی۔ وفاقی سیکرٹری کی رضامندی سے سابقہ ایم ڈی یوسف بیگ مرزا کو ان کی آمدنی سے ایک کروڑ روپے اضافی ادا کیے گئے۔ پی ٹی وی کی میرٹ پالیسی کو نظر انداز کرتے ہوئے دھڑا دھڑ اینکروں کی بھرتیاں کی گئیں جس سے 131 ملین روپے کا نقصان ہوا۔ امریکہ اور یورپ میں پی ٹی وی کے مارکیٹنگ رائیٹس جس معاہدے کے تحت فروخت کیے گئے اس سے 82 ملین کا نقصان ہوا۔ صحافیوں کے تربیتی سیمینار پر تیس لاکھ اڑا دیے گئے۔ سینئر افسران کو بیس گاڑیاں دینے سے سالانہ ڈیڑھ کروڑ کا اضافی بوجھ پڑا۔ تئیس پروڈیوسر پچھلے تین سال سے کچھ کیے بغیر معاوضہ لے رہے ہیں۔ دو گھنٹے کے مارننگ شو کے لئے جگن کاظم کو یومیہ 53180 روپے دیے جاتے رہے۔ کل ملا کے اس وقت تک دو کروڑ جگن کاظم لے جا چکی ہیں۔ ایک سال میں صرف تین پروگرام پرائیوٹ سیکٹر سے خریدنے پر پی ٹی وی کو ڈیڑھ کروڑ کا نقصان ہوا۔ پی ٹی وی ایم ڈی محمد مالک کو تنخواہ کی مد میں 16 لاکھ ماہانہ ادا کرتا رہا۔ یہ سارے اعداد وشمار محض ایک سال کے خسارے کی کچھ جھلکیاں ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح محنت کشوں کے ٹیکس کو اڑایا جا رہا ہے اور ادارے کو برباد کیا جا رہا ہے۔
اِس حکومت میں یہ سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔ ارشد خان سابقہ ایم ڈی نے تیسری بار اپنی تعیناتی پر یقین دلایا کہ وہ پی ٹی وی کو بی بی سی بنا دیں گے۔ بحیثیت ایم ڈی اس سے قبل ارشد خان نے بغیر ضروری تربیت کے کچھ ملازمین کو اعلیٰ عہدوں پر تقرریاں بانٹ دیں جسے فیڈرل سروسز ٹرائبیونل نے غیر قانونی اور کالعدم قرار دے دیا۔ پہلے تو ٹرائبیونل کے اِس فیصلے پر عملدرآمد روک کر اس کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ لیکن پھر تیسری بار جب ارشد خان ایم ڈی تعینات ہوئے تو انہی منظور نظر افراد کو مختلف پی ٹی وی مراکز پر کنٹرولر اور مینیجر تعینات کر دیا گیا جن کے پاس پروڈکشن کی تعلیم ہے‘ نہ اہلیت نہ تجربہ۔
یوں انتہائی اہم اعلیٰ عہدوں پر بنا تربیت، متعلقہ تعلیم اور تجربے کے غیر قانونی تقرریوں سے ادارے اور ملازمین کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ جب اپنے شعبے میں اعلیٰ مہارت اور تعلیم رکھنے والے ملازمین دیکھتے ہیں کہ کیسے ان پر نا اہل افسران مسلط کیے جا رہے ہیں اور جو کام پی ٹی وی کے اندر رہ کے بخوبی کیے جا سکتے ہیں انہیں بھاری معاوضے کے عوض پرائیویٹ کمپنیوں کو سونپا جاتا ہے تو ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔
پی ٹی وی کے ایم ڈی کا چارج اس وقت لیفٹیننٹ کرنل حسن عماد محمدی کے ناتواں کندھوں پر ہے۔ کرنل صاحب ڈیپوٹیشن پر پی ٹی وی میں آئے تھے اور بس پھر یہیں کے ہو رہے۔ جو یہاں آتا ہے وہ یہیں کا ہو رہتا ہے۔ ارشد خان کی مثال لے لیں۔ تین دفعہ ایم ڈی لگے۔ عطا الحق قاسمی صاحب پی ٹی وی سے پندرہ لاکھ ماہانہ لیتے تھے۔ ہٹایا گیا لیکن اتنے کم معاوضے پر بھی جانے کو تیار نہیں تھے! یوسف بیگ مرزا کو تو پی ٹی وی اتنا بھایا کہ نواز، مشرف اور گیلانی دور میں تین دفعہ ایم ڈی لگے اور تین دفعہ نکالے بھی گئے۔ پی ٹی وی سے نکلنے کے بعد بھی وہ کوئی دوسرا ٹی وی چینل کھول لیتے تھے۔
پرائیویٹ ٹی وی چینل کھولنا بھی ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ چینل کھولو۔ تھوڑا چلا کے بیچ دو۔ موصوف اس سے قبل دنیا نیوز اور 92 نیوز کھول چکے ہیں۔ اب حال ہی میں پبلک ٹی وی کھولا ہے۔ لیکن نظر اب بھی چوتھی بار پی ٹی وی کی ایم ڈی کی کرسی پر تھی۔ وہ تو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے میڈیا افیئرز لگا دیے گئے ورنہ کون مائی کا لال انہیں چوتھی بار ایم ڈی لگنے سے روک سکتا تھا۔ یہ خبر بھی اخبارات کی زینت بنی کہ جب نیب یوسف بیگ مرزا کے خلاف 22 کروڑ کی کرپشن کی تحقیقات کر رہی تھی تو سیکرٹری اطلاعات و نشریات نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی کو بچانے کے لیے غلط دستاویزات جمع کروا دیں۔
دوسری طرف بجٹ کا رونا رو کے مدت سے مشینوں اور آلات کی مرمت بند ہے۔ یہ وہی طریقہ کار ہے جو پی آئی اے کو تباہ کرنے میں استعمال کیا گیا۔ جو وسائل دستیاب ہیں انہیں استعمال میں نہیں لایا جا رہا۔ جو کام کرنا چاہ رہا ہے اسے فارغ بٹھا کے رکھا ہے۔ اور جسے کام آتا نہیں ہے اسے ذمہ داریاں سونپ دی گئیں ہیں۔ جہاں سے آمدنی متوقع ہو وہ موقع باہر کے لوگوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ جہاں افرادی قوت دستیاب ہے وہاں کا کام باہر بھیج رہے ہیں اور جہاں افرادی قوت درکار ہے وہاں آٹھ دس سال سے بھرتیاں ہی نہیں کی جا رہیں۔
ایسے میں پی ٹی وی کے اعلیٰ تربیت یافتہ محنت کشوں کے پاس کیا راستہ رہ جاتا ہے؟ کیا وہ پی ٹی وی کو خیر باد کہہ کے پرائیویٹ چینل میں چلے جائیں جہاں کام کرنے کے حالات یہاں سے بھی زیادہ خراب ہیں؟ یونین سے رجوع کریں؟ لیکن ہر یونین انقلابی نہیں ہوتی۔ محنت کش محض یونین پر تکیہ نہیں کر سکتے۔ یونین اسی وقت موثر ہوتی ہے جب اس کی قیادت طبقاتی شعور سے مسلح ہو۔ اس صنعت میں اور اس صنعت کے باہر موجود دیگر یونینوں اور اپنے جیسے دیگر شعبوں میں کام کرنے والے محنت کشوں سے جڑت ہو۔
ایک یونین کی تنہا ہڑتال کو اکثر تشدد ہی سے کچل دیا جاتا ہے۔ بہت بار مشاہدے میں آیا ہے کہ بااثر طبقہ یونین قیادت کو مالی و دیگر مراعات دے کر اپنے ساتھ ملا لیتا ہے۔ یوں یونین عملًا غیر فعال اور غیر موثر ہو جاتی ہے۔
تو پھر کیا حکام بالا سے اپیل کی جائے؟ مگر کس سے؟ سیکرٹری اطلاعات و نشریات سے؟ جس نے ایم ڈی کو بچانے کے لیے غلط دستاویزات جمع کروا دیں۔ عدلیہ سے؟ وہی عدلیہ جو برطرف کیے گئے نا اہل افسران کو بحال کر دیتی ہے؟ وزیر اعظم سے جس نے تین بار پی ٹی وی کو لوٹنے والے کو اپنا معاون خصوصی لگا لیا؟ پی ٹی وی کے محنت کشوں کو اپنا دشمن پہچاننا ہو گا۔ ان کا دشمن چند بدعنوان افسران نہیں ہیں۔ ان کا دشمن ایک پورا طبقہ ہے جس میں ہر سیاسی جماعت، ہر فرقے، ہر زبان اور خود پی ٹی وی کے محنت کشوں میں سے کچھ مفاد پرست لوگ شامل ہیں۔
یہ وقت جلد بازی اور کمزوری سے احتجاج کا نہیں ہے بلکہ خود کو منظم کرنے اور طبقاتی شعور سے لیس ہونے کا ہے۔ پی ٹی وی جیسے حالات سے ہر شعبہ گزر رہا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز، نرسز، ہیلتھ ورکرز، اساتذہ، ریلوے، سٹیل مل، پی آئی اے ہر جگہ یہی صورت حال ہے۔ پورے سماج میں بے چینی پائی جاتی ہے جو کسی بھی وقت بڑے احتجاج کا روپ دھار سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت ہر شعبے کے محنت کش ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اکٹھے اپنے مشترکہ دشمن کا مقابلہ کریں۔