خبریں/تبصرے

علی وزیر کی بغاوت کے چوتھے مقدمہ میں بھی ضمانت منظور

لاہور (جدوجہد رپورٹ) رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت سے بغاوت کے چوتھے مقدمہ میں بھی ضمانت منظور ہو گئی ہے۔ منگل کے روز انسداد دہشت گردی عدالت نے ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت بعد ازا گرفتاری منظور کر لی ہے۔

’ڈان‘ کے مطابق جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی کو فوری طور پر ضمانت کی رقم کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے رہا نہیں کیا جا سکا۔ وکیل قادر خان کے مطابق کراچی میں علی وزیر کے خلاف درج 4 مقدمات میں مجموعی طور پر زرضمانت 19 لاکھ روپے مقرر ہے۔

علی وزیر کو 31 دسمبر 2020ء کو پشاور سے گرفتار کر کے کراچی کی سنٹرل جیل میں منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ ابھی تک قید ہیں۔

منگل کے روز سنٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمہ کی سماعت کرنے والے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے فیصلہ سنایا، جو پیر کو فریقین کے دلائل سننے کے بعد محفوظ کر لیا گیا تھا۔

عدالت نے 2018ء میں کراچی کے بوٹ بیسن تھانے میں مبینہ طور پر تقریر کرنے اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے، انہیں بدنام کرنے اور بغاوت کے الزم میں درج مقدمہ میں علی وزیر کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری 1 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کی۔

علی وزیر کو کراچی کے سہراب گوٹھ اور شاہ لطیف تھانوں میں درج بغاوت کے تین دیگر مقدمات میں بھی بعد از گرفتاری ضمانت مل چکی ہے۔ لہٰذا کل ضمانت کی رقم 19 لاکھ روپے بنتی ہے۔

وکیل قادر خان کا کہنا ہے کہ ضمانت کی رقم کا بندوبست کرنے میں دو یا تین دن لگ سکتے ہیں۔ اس وقت تک علی وزیر کو جیل میں ہی رہنا پڑے گا۔

نومبر 2021ء میں سپریم کورٹ نے سہراب گوٹھ تھانے کی حدود میں ریلی میں اشتعال انگیز تقاریر کرنے پر پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین، علی وزیر اور دیگر رہنماؤں کیخلاف درج کئے گئے ایک مقدمہ میں علی وزیر کی درخواست ضمانت منظور کی تھی۔

بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے رواں سال مئی میں سہراب گوٹھ تھانے میں درج اسی نوعیت کے دوسرے مقدمہ میں علی زیر کی درخواست ضمانت منظور کر لی تھی۔

تاہم کراچی پولیس نے اس کے بعد ریاستی اداروں کے خلاف مبینہ نفرت انگیز تقریر پر پی ٹی ایم رہنماؤں کے خلاف شاہ لطیف ٹاؤن پولیس اسٹیشن میں درج کئے گئے تیسرے مقدمہ میں علی وزیر کی گرفتاری ظاہر کر دی تھی۔

جولائی میں تیسرے مقدمہ میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے علی وزیر کی ضمانت منظور ہونے کے بعد پولیس نے مئی 2018ء میں بوٹ بیسن تھانے میں درج مقدمہ میں ان کے خلاف چالان پیش کیا۔

دیگر تین مقدمات منظور پشتین اور دیگر رہنماؤں کے خلاف درج کئے گئے ہیں، جن میں محسن داوڑ، نور اللہ ترین، احسن اللہ، جاوید رحیم، محمد شیر خان، ابراہم، محمد طاہر عرف قاضی طاہر، شیر ایوب، بصیر اللہ، محمد سرور اور محمد اللہ شامل ہیں۔

یہ مقدمات دفعہ 124-A (بغاوت، 125 (پاکستان کے ساتھ اتحاد میں کسی بھی طاقت کے خلاف جنگ چھیڑنا)، 147 (فساد کی سزا)، 149 (غیر قانونی اجتماع)، 153 (فساد پیدا کرنے کے ارادے سے اشتعال انگیزی کرنا)، 153-A (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 500 (ہتک عزت)، 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان)، 506 (مجرمانہ دھمکی) اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کی دفعہ 7 (دہشت گردی کی کارروائیوں کی سزا) کے تحت درج کئے گئے ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts