لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے طالبان کے اقتدار پر قبضے کے وقت انکے حق میں دیئے گئے بیان سے بھی دستبرداری اختیار کر لی ہے۔
’نیویارکر‘ کو دیئے گئے اپنے ایک انگریزی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ان کے یہ بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا تھا۔
جب صحافی نے عمران خان نے پوچھا کہ ’جب طالبان نے 2021ء میں کابل پر قبضہ کیا تو آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ’غلامی کی زنجیریں توڑ رہے تھے۔‘
عمران خان نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ’’آپ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ میرا بیان جان بوجھ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا۔“
انکا کہنا تھا کہ ”ان کی تقریر اردو میں تھی، جب اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا تو یہ ایک ایسے وقت میں بہت تلخ لگ رہا تھا، جب امریکہ میں لوگ بہت حساس تھے۔ میں صرف اتنا کہہ رہا تھا کہ ہم نے پاکستان میں اپنے نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلی کی ہے۔ ہمیں یہ نوآبادیاتی نظام ورثے میں ملا ہے، جہاں پاکستان میں چھوٹے طبقے کو ایک چھوٹے سے طبقے کو انگریزی میڈیم میں پڑھایا جائے گا اور باقی کو اردو میں پڑھایا جائے گا۔ لہٰذا ہم نے تعلیمی نظام کی ترکیب کی۔ میں نے کہا تھا کہ’دیکھو ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔‘ میں صرف لوگوں کو بتا رہا تھا کہ افغانستان نے خود کو آزاد کر لیا ہے، لیکن یہ اتنا برا نہیں ہے، یہ ذہنی غلامی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے، جس کا ہم شکار ہیں۔‘وہ ایک سطر پوری دنیا میں وائرل ہو گئی اور سیاق و سباق بالکل مختلف تھا۔
یاد رہے کہ ماضی میں بھی عمران خان انگریزی میں دیئے گئے انٹرویوز میں مختلف سماجی پہلوؤں اور ثقافتی، مذہبی اور صنفی معاملات پر الگ موقف اپناتے رہے ہیں اور اردو میں الگ موقف اپناتے رہے ہیں۔ اکثر اوقات انہوں نے اردو میں کی گئی تقاریر سے متعلق سوالات پر انگریزی میں اپنے اردو کے موقف سے دستبرداری اختیار کی ہے۔
طالبان کے معاملے میں وہ ہمیشہ اردو میں طالبان کی حمایت میں موقف اپناتے آئے ہیں، جبکہ انگریزی زبان میں دیئے گئے انٹرویوز میں طالبان کی طرف انکا جھکاؤ تھوڑا کم نظر آتا رہا ہے۔