عدنان عامر
27 اپریل کو ’ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘(ایس سی ایم پی) میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ایک فزیبلٹی اسٹڈی نے چین پاکستان ریلوے کو 58 ارب ڈالر کی لاگت سے ”قابل قدر“ قرار دیا ہے۔ اس خبر کو پاکستان، بھارت اور امریکہ کے مختلف میڈیا پلیٹ فارمز نے اٹھایا، موجودہ پاکستانی حکومت کے حامیوں نے اسے ایک بڑی کامیابی اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی بحالی قرار دیا۔
تاہم مزید تجزیے اور تفتیش پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ چین نے اس منصوبے پر آگے بڑھنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے اور نہ ہی کوئی نئی فزیبلٹی اسٹڈی مکمل ہوئی ہے۔ ایس سی ایم پی کی کہانی بالکل بھی فزیبلٹی اسٹڈی پر مبنی نہیں تھی، بلکہ ایک جریدے کے مضمون پر مبنی تھی، جس کا عنوان ”ریلوے کے گو گلوبل پروجیکٹس کے سرمایہ کاری اور فنانسنگ آپریشن موڈ پر تحقیق“ تھا، جو چینی جرنل آف ریلوے ٹرانسپورٹ اینڈ اکانومی میں شائع ہوا تھا۔ راقم کے پاس چینی زبان میں مضمون کی ایک کاپی موجود ہے۔
یہ مضمون ’چائنا ریلوے فرسٹ سروے اینڈ ڈیزائن انسٹی ٹیوٹ گروپ‘کے عملے کے دو ارکان کی طرف سے تیار کیا گیا ہے، جو کہ ایک حکومتی ملکیتی قومی سروے اور ڈیزائن کمپنی ہے۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ چین پاکستان ریلوے فی الحال پری فزیبلٹی اسٹڈی کے مرحلے میں ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ ریلوے لائن چین کے سنکیانگ میں واقع کاشغر کو پاکستان کی بندرگاہ گوادر (بلوچستان) سے جوڑے گی۔ اس کی کل لمبائی تقریباً 3000 کلومیٹر ہے اور اس کیلئے 400 ارب یوآن (58 ارب ڈالر) کی کل سرمایہ کاری درکار ہے۔
تاہم، مضمون کا فوکس چینی حکومت کی طرف سے جاری کردہ فزیبلٹی اسٹڈی کی بجائے، مجوزہ منصوبے کے فنانسنگ موڈ پر تھا۔ چین پاکستان ریلوے پراجیکٹ کا خیال سب سے پہلے 2008 میں پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف نے چینی قیادت کو پیش کیا تھا۔ اس کا تذکرہ سہ ماہی چینی جریدے ساؤتھ ایشین اسٹڈیز میں 2012ء میں شائع ہونے والے ایک اور مضمون میں بھی کیا گیا ہے۔ مشرف کی اصل تجویز کاشغر سے راولپنڈی تک ریلوے لائن تعمیر کرنا تھی، جہاں سے یہ پاکستان کے موجودہ ریلوے نیٹ ورک میں شامل ہو جاتی اور گوادر بندرگاہ کے ذریعے مغربی چین سے بحیرہ عرب تک رسائی فراہم کرتی۔
تاہم چین پاکستان کے دشوار گزار سرحدی علاقے اور اس میں بھاری اخراجات کی وجہ سے یہ خیال پیشگی امکانات کے مرحلے سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ یوں چینی حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی اشارہ نہیں دیا گیا ہے کہ ان کے پاس فزیبلٹی اسٹڈی کے لیے اس پر غور کرنے کا کوئی منصوبہ ہے۔
مجوزہ ریلوے منصوبے کے ناقابل عمل ہونے کی تین اہم وجوہات ہیں۔
سب سے پہلے ریلوے کو قراقرم کے علاقے کے سخت خطوں، سطح مرتفع، برف سے ڈھکے پہاڑوں اور دریاؤں کو عبور کرناہو گا، جس کے کچھ حصوں کی اونچائی 4700 میٹر ہے۔ شاہراہ قراقرم برف باری کے باعث موسم سرما میں چار ماہ تک بند رہتی ہے۔ برف سے ڈھکے پہاڑوں کو نظرانداز کرنے کا واحد طریقہ پہاڑوں کے نیچے سرنگ بنانا ہے، جو بہت مہنگا پڑے گا اور تکنیکی طور پر ممکن نہیں ہے۔
دوسرا، 58 ارب ڈالر کی مجوزہ لاگت عملی طور پر بہت زیادہ ہے۔ خاص طور پر اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ سی پیک کی کل تخمینہ قیمت 50 ارب ڈالر ہے، جس میں سے اب تک صرف 25.4 ارب ڈالر خرچ ہو سکے ہیں۔ سی پیک انٹرپرائز بھی ابھی تک مالی مسائل کے بغیر نہیں ہے اور چینی کمپنیوں کو خاص طور پر بجلی کے منصوبوں کے لیے ادائیگیاں حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ان حالات میں چین صرف ایک ریلوے پراجیکٹ پر 58 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کیوں کرے گا؟
تیسرا، سی پیک کا موجودہ ریل منصوبہ ایک بے رنگ مثال قائم کرتا ہے۔ مین لائن 1 (ML-1) منصوبہ سی پیک کا سب سے بڑا منصوبہ ہے، جس کا مقصد پاکستان میں کراچی سے پشاور تک ریلوے کے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنا ہے۔ ریل منصوبے کی مالیت 10 ارب ڈالر ہے، جو چین پاکستان ریلوے سے بہت کم ہے، حالانکہ ابھی بھی کافی ہے۔ ابھی تک ’ML-1‘ پاکستان میں مالیاتی شرائط اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے سی پیک کے آغاز کے 8 سال بعد بھی مکمل نہیں ہو سکا ہے۔
اختتامی بات یہ کہ چین ریلوے منصوبے کی تعمیر پر 58 ارب ڈالر خرچ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنا رہا ہے اور اس مجوزہ منصوبے کے لیے کوئی فزیبلٹی اسٹڈی مکمل یا منظور نہیں کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ ایس سی ایم پی کامضمون بھی اس کے نتائج بارے آگاہ کرتا ہے۔ یہ مضمون نوٹ کرتے ہوئے ختم ہوتا ہے کہ سڈی کے مصنفین نے کہاکہ ”ان کی سفارش مذاکرات کو آگے بڑھانے میں مدد دے سکتی ہے۔“ یہ اعتراف ہے کہ پروجیکٹ فی الحال زیر غور نہیں ہے۔
اس سب کہ باوجود دیگر میڈیا آؤٹ لیٹس نے بیانیہ اٹھایا اور جریدے کے اصل مضمون کی کہانی کو دوبارہ دیکھے بغیر غلط رپورٹنگ نے اس منصوبے کے بارے میں غلط دعوؤں اور تاثرات کو جنم دیا۔
بشکریہ: ’دی ڈپلومیٹ‘، ترجمہ: حارث قدیر