فاروق طارق
پاکستان کی صورتحال انتہائی غیر مستحکم اورکشیدہ ہے، سیاسی اور معاشی بحران ایک دوسرے کو مزید شدید کرتے جارہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی حالیہ گرفتاری نے ان کے حامیوں کی جانب سے پرتشدد ردعمل کو جنم دیا ہے، جس کے نتیجے میں فوجی تنصیبات اور شہری عمارتوں پر حملے ہوئے ہیں۔ جس فوج نے پہلے خان کی حمایت کی تھی اب تشدد پر تحمل کا مظاہرہ کیاہے، لیکن ساتھ ہی حملوں میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا۔
عمران خان 2018ء کے عام انتخابات میں برسراقتدار آئے تھے۔ ان انتخابات پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے خان کے حق میں دھاندلی کا الزام لگایا گیا تھا۔ خان اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا رشتہ 2020ء کے بعد کئی عوامل کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔ خان کی شخصیت زیادہ خودغرض اور انا پرست تھی، جس کی وجہ سے اعلیٰ عہدیداروں کی تقرری پر فوجی جرنیلوں کے ساتھ تضادات ہوئے۔ مزید یہ کہ معیشت ترقی نہیں کر رہی تھی، جس کی وجہ سے دونوں طرف معاشی دباؤ بڑھ رہا تھا۔ دوسری جانب عمران خان نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے انکار کر دیا، فوجی کمانڈر انچیف نے ان تعلقات کو ایک اہم حکمت عملی کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ خان نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بارے میں ہمدردانہ نظریہ بھی رکھا اور فوج کی وفاداری کو تقسیم کرنے کے لیے آئی ایس آئی کے سربراہ سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کی۔ خان نے بحالی کی آڑ میں 5000 پاکستانی طالبان کو افغانستان سے واپسی کی راہ ہموار کی، جبکہ اس اقدام کی فوجی جرنیلوں نے مخالفت کی۔ وہ افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے حق میں تھے، جس کی وجہ سے کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہ طالبان کے اصل چہرے سے تھوڑا بہتر ورژن بننا چاہتے ہیں۔
معیشت، پاک بھارت تعلقات اور افغانستان میں طالبان کی حکومت جیسے اہم مسائل پر فوج کے ساتھ عمران خان کے اختلافات نے ان کے زوال میں اہم کردار ادا کیا۔ گرفتاری کا مقابلہ کرنے کیلئے ان کی مہم جوئیانہ حکمت عملی بیک فائر کر گئی ہے، جس کے نتیجے میں ان کے پارٹی کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں اور پارٹی بھاگ رہی ہے۔ دوبارہ وزیر اعظم بننے کی کوشش میں خان نے پاکستانی وفاق کے دو اہم صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنی ہی صوبائی حکومتیں تحلیل کر دیں، لیکن موجودہ حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے انتخابات میں تاخیر کرکے ان کی اس چال کو بھی ناکام بنادیا۔
اب تک کی پیشرفت:
9 مئی کو، جس دن عمران خان کو گرفتار کیا گیا، پرتشدد احتجاج کے دوران10 افراد مارے گئے اور موٹر ویز سمیت ملک کا بیشتر حصہ بند رہا۔ موجودہ حکومت کا الزام ہے کہ یہ منصوبہ بند پرتشدد ردعمل عمران خان کی اپنے رہنماؤں اور کیڈر زکو دی گئی ہدایات کا نتیجہ تھا۔ جیسا کہ حکومت بتا رہی ہے، منصوبہ یہ تھا کہ حکومت کو اس حد تک غیر مستحکم کیا جائے جہاں فوج حکومت پر قبضہ کرتی ہے اور مارشل لاء کا اعلان کرتی ہے۔
10 مئی کو فوج نے ایک پریس بیان جاری کیا، جس میں 9 مئی کو پاکستان کی تاریخ کا یوم سیاہ قرار دیا گیا، ان کی عمارتوں کو جلانے کے خلاف سخت ردعمل کا اعلان کیا گیا اور خبردار کیا گیا کہ وہ آئندہ کسی بھی حملے کو برداشت نہیں کریں گے۔ پرتشدد کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی گئی ہے۔
پاکستان بھر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ہول سیل گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں، جن میں پارٹی کے بیشتر اہم رہنما گرفتار ہیں۔ قتل اور اقدام قتل کے مقدمات انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت درج کیے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی اب اپنے لیڈر کی گرفتاری کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی مہم جوئی کی حکمت عملی کی قیمت چکا رہی ہے، اور پوری پارٹی بھاگ رہی ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے حامیوں کے چھوٹے گروپ جب بھی ممکن ہو گاڑیاں جلاتے رہتے ہیں، لیکن اس گرفتاری پر عوام کا ردعمل غائب ہے۔
آگے کیا نظر آرہا ہے؟
بڑھتے ہوئے تشدد اور سویلین معاملات میں فوج کی مداخلت سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں جمہوری قوتوں کا مستقبل اچھا نہیں ہے۔ امن و امان برقرار رکھنے کے بہانے سے سویلین معاملات پر فوج کا کنٹرول بڑھ جائے گا۔ اختلاف رائے کو دبانے کا سلسلہ جاری رہے گا، آزادی اظہار کو جرم قرار دیا جائے گا اور ملک کے محنت کش طبقے کو مزید غربت کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ عمران خان اور پاکستان کی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں کوئی بنیادی تضاد نہیں ہے۔ خان صرف اقتدار کی کرسی پر واپس لانے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو دبانے یا مجبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے خان نے اپنی پچھلی حکومت میں فوج کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ ان کی حکومت نے مسلح افواج پر کسی بھی قسم کی تنقید کو جرم قرار دیتے ہوئے ایک بدنام زمانہ قانون پاس کیا، جسے اب ان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم کے طور پر اپنے دور میں انہوں نے پاکستان کے انسداد بدعنوانی کے نگران ادارے ’قومی احتساب بیورو‘کو اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا۔ آج وہی نیب ان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔
معیشت کے زوال کے ساتھ ساتھ کورونا اور موسمیاتی آفات نے پاکستان میں شدید غربت اور عدم مساوات کو جنم دیا ہے۔ نیو لبرل پالیسیوں کے نفاذ اور شہری زندگی میں فوج کے غلبے سے جمہوری سپیس کے مزید سکڑنے اور ملک میں غربت اور عدم مساوات میں اضافے کا امکان ہے۔ ملک میں اقتدار کی کشمکش اور سیاسی بحرانوں کا خمیازہ عام لوگوں کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان محلاتی سازشوں نے ملک کے معاشی حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ جمہوری قوتوں کو مضبوط کرنے کے لیے نظام کی مکمل تبدیلی کی ضرورت ہوگی، جس میں عوام کے حق میں پالیسیاں بھی شامل ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ اپنی طرز زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے 27 ارب روپے کی سبسڈی استعمال کرتی ہے۔ کوئی بھی سیاسی قوت جو اس طرح کی مجموعی عدم مساوات کو چیلنج نہیں کرتی ہے، وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اپنے لوگوں کی معاشی غربت کو مزید بڑھاتی رہے گی۔