ٹیس وولفنڈن (ڈیٹ جسٹس یوکے)
ٰیہ کیس اسٹڈی پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق کے ساتھ بات چیت کے ذریعے تحریر کی گئی ہے۔ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی 26 کسان تنظیموں کا ایک اتحاد ہے اور ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم La Via Campesina کا اتحادی رکن بھی ہے۔
2022ء میں پاکستان موسمیاتی بحرا ن کی وجہ سے تباہ کن سیلابوں کی زد میں آیا۔ 8ملین لوگ بے گھر ہوئے اور 33 ملین لوگ متاثر ہوئے۔ 18 ہزار سکولوں کو نقصان پہنچا اور 1460 صحت مراکز تباہ ہوئے۔ اس کے علاوہ دیگر ناقابل تلافی اور تخمینہ نقصانات شامل ہیں۔
فاروق طارق کے مطابق لوگ ابھی تک مکمل طور پر دوبارہ بحال نہیں ہو سکے، کیونکہ حکومتی امداد کی کمی ہے۔ بہت سے لوگ ڈرتے ہیں کہ اگلے مون سون کا موسم قریب آنے پر کیا ہوگا۔ ان کے الفاظ میں ”میں نے لوگوں کو اپنی محنت سے اپنا گھر بناتے دیکھا ہے۔ میں نے کمیونٹیز کی طرف سے انتہائی لچک دیکھی ہے، وہ اپنی زندگی کو از سر نو تعمیرکرنا چاہتے ہیں، لیکن ریاست مدد کیلئے موجود نہیں ہے۔ لوگ تاحال گھروں سے باہر خیموں میں ہیں اور بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ لوگ واقعی خوفزدہ ہیں کہ کیا ہوگا۔“
موسمیاتی کانفرنس COP27 میں پاکستان نے تباہ کن سیلابوں کے بارے میں بہت زیادہ بات کی تھی۔ ملک کو ایک طاقتور مثال کے طور پر استعمال کیا گیا تھا کیوں کہ دولت مند حکومتوں کو موسمیاتی بحران کے نتیجے میں جنوبی ممالک کو ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کیلئے فنڈز فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم فاروق طارق کے مطابق ”یہ سب باتیں تھیں، اس سے کوئی عملی چیز نہیں نکلی۔“
حکومت پاکستان نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ کم از کم 40 ارب ڈالر لگایا ہے۔ تاہم سیلاب کے بعد دولت مند حکومتوں نے پاکستان کی بحالی اور تعمیر نو میں مدد کیلئے صرف 10 ارب ڈالر کا وعدہ کیا۔ اس رقم میں سے تقریباً تمام قرضوں کی مد میں فراہم کی جائیگی۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان سیلاب کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے کیلئے مزید قرضے ادا کرے گا اور خسارے پورا کرنے کیلئے مزید قرض لے کر یہ ادائیگیاں کرنے پر مجبور ہوگا۔
پاکستان موسمیاتی ایمرجنسی کا ذمہ دار نہیں ہے،جو سیلاب کا باعث بن رہی ہے۔برطانیہ کے 5 ٹن اور امریکہ کے 15 ٹن کے مقابلے پاکستان 0.9 ٹن فی شخص CO2 خارج کرتا ہے۔ 2010ء میں بھی پاکستان سیلاب کی زد میں آیا تھا، جس سے 43 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا تھا۔ عالمی برادری کی جانب سے گرانٹ کی کمی کی وجہ سے پاکستان سیلاب کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے 20 سے 40 ارب ڈالر کے درمیان قرض لینے پر مجبور ہوا۔
اس کی وجہ سے سالانہ سود کی ادائیگی 1.6 سے 3.1 ارب ڈالر کے درمیان ہوئی۔ یوں قرض دہندگان نے موسمیاتی ایمرجنسی سے بھی فائدہ اٹھایا۔
پاکستان پہلے ہی قرضوں کے بحران کا شکار ہے۔ سیلاب سے پہلے ہی پاکستان کا مجموعی بیرونی قرضہ 136 ارب ڈالر تھا۔ 2022ء میں حکومتی ریونیو کا 40 فیصد (18 ارب ڈالر) بیرونی قرضوں کے سود اور ادائیگیوں کے لیے مختص کیے جانے کی توقع تھی۔
درحقیقت پاکستان کو 1970ء کی دہائی سے غیر مستحکم قرضوں کا سامنا ہے، جب حکومت عالمی منڈی میں تیل کی بلند قیمتوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے قرض لینے پر مجبور ہوئی تھی۔
پاکستان اصولی طور پر 2000ء کی دہائی کی قرض ریلیف اسکیم میں شامل ہونے کے لیے کافی مقروض اور غریب تھا، لیکن صوابدیدی وجوہات کی بناء پر اسے خارج کر دیا گیا تھا،کیونکہ ایک بڑے ملک کے طور پر اس کے امیر قرض دہندگان نے قرض کی منسوخی کو بہت مہنگا سمجھا۔ IMF سے متعدد بیل آؤٹ لینے پر مجبور کیا گیا، جس میں یقیناً سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگراموں کو نافذ کرنابھی شامل تھا، جبکہ قرض دہندگان کو ادائیگیاں جاری ہیں۔
فارق طارق کے مطابق ”قرضوں کے بحران کی وجہ سے پاکستان میں قیمتیں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ قیمتوں میں اتنا اضافہ آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ آپ پہلے 20 سے 40 روپے فی کلو پیاز اور لہسن خرید سکتے تھے، اب یہ 100 روپے سے اوپر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ حکومت اپنی آمدنی بڑھانا چاہتی ہے۔۔۔۔تاکہ وہ قرض واپس کر سکے۔ غربت بڑھ رہی ہے، عدم مساوات بڑھ رہی ہے، قیمتیں بڑھ رہی ہیں لیکن اجرت نہیں بڑھ رہی۔ اس کے برعکس لوگ مسلسل اپنی آمدنی کھو رہے ہیں۔ اس وقت بہت سے لوگ مکمل غربت میں ہیں۔“
فاروق طارق اور اتحادی حکومت سے قرض کی ادائیگی بند کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ”ہمارے پاس نہیں ہے اور ہمارے پاس کوئی واجب الادا قرض بھی نہیں ہے۔“
تاہم حکومت نہیں سن رہی ہے۔ فاروق طارق کے مطابق ”انہوں نے 2010ء میں بھی قرض ادا کیا۔۔ جب بہت بارشیں اور سیلاب آیا۔ اب گزشتہ سال موسمیاتی بحران کی وجہ سے دوبارہ آنے والے سیلاب کے بعد بھی حکومت قرض واپس کر رہی ہے، جب بہت سے لوگوں کی زندگی سیلاب نے اجیرن بنا دی ہے۔“
پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کی جانب سے 2019ء میں طے پانے والے 6.5 ارب ڈالر کے قرض کی اگلی قسط جاری کرنے کا انتظار کر رہا ہے، جو کئی مہینوں سے تاخیر کا شکار ہے۔
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان نے ابھی تک اپنی تمام شرائط پوری نہیں کی ہیں اور جب تک وہ نہیں کرتا، قرض کا اگلا حصہ جاری نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان میں بہت سے سول سوسائٹی گروپوں نے آئی ایم ایف کی شرائط پر تنقید کی ہے۔ اس تنقید میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ وہ کس طرح شمسی توانائی اور ونڈ انرجی پر ٹیکس لگا کر پاکستان کی صاف توانائی کی طرف منتقلی کو نقصان پہنچا رہاہے۔ آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ قرض کا اگلا حصہ اس وقت تک جاری نہیں کرے گا، جب تک کہ پاکستان دوسرے ذرائع سے اضافی فنڈز حاصل کرنے کے قابل نہیں ہو جاتا۔ اس طرح پاکستان کی حکومت متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور چین جیسے ممالک سے مزید قرض لینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
قرضوں کے بحران اور موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو مزید قرضوں پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
قرض اورموسمیات کے دونوں بحرانوں کو ایک ہی وقت میں حل کرنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان کی سول سوسائٹی امیر ممالک سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ اپنا موسمیاتی قرض ادا کریں اور موسمیاتی بحران کے اخراجات کو پورا کرنے کے اپنے وعدے پورے کریں۔ تاہم جیسا کہ فاروق طارق نشاندہی کرتے ہیں کہ ”اگر رقم موسمیاتی تباہی سے نمٹنے کے لیے آتی ہے، تو یہ صرف قرض کی ادائیگی پر خرچ کی جائے گی۔“
یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان سے بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنا قرض ادا کرنا بند کر دے اور مزید قرض لینا بند کر دے۔ ”ہمیں کسی نئے قرضے کی ضرورت نہیں ہے، بس ادائیگی کرنا بند کر دیں۔ پاکستان کو ادائیگی نہیں کرنی چاہیے۔“