خبریں/تبصرے

ڈاکٹر قیصر عباس کی یاد میں آن لائن ریفرنس، شرکا کا زبردست خراج عقیدت

لاہور(جدوجہد رپورٹ)روزنامہ جدوجہد کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر قیصر عباس کی علمی، ادبی، صحافتی اور اکیڈیمک خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اتوار کے روز آن لائن ریفرنس کا انعقاد کیاگیا۔

ریفرنس میں ان کی اہلیہ، بیٹوں، بھائی اور بہن سمیت فیملی کے دیگر افراد نے دنیا کے مختلف ملکوں سے خصوصی شرکت کی۔ ریفرنس کے دوران سرور منیر راؤ(سینئر صحافی، مصنف اور کالم نگار)، رتوجا دیش مکھ(سکالر، مشی گن یونیورسٹی، امریکہ)، ڈاکٹر فیض اللہ جان(صدر شعبہ ابلاغیات پشاور یونیورسٹی)، عدنان فاروق(ایڈیٹر ویو پوائنٹ، پیرس)، فوزیہ رفیق(سکالر، کینیڈا)، عصمت اللہ نیازی (سینئر صحافی)، ڈاکٹر صالحہ قیصر(اہلیہ ڈاکٹر قیصر عباس)، ڈاکٹر قیصر کے بیٹوں شہرزاد رضوی اور شہزاد رضوی سمیت ان کے دیگر رفقاء، بھائی، بہن اور دیگر نے ڈاکٹر قیصر عباس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی۔ مدیر جدوجہد فاروق سلہریا نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دیئے اور ڈاکٹر قیصر عباس کے علمی، ادبی، صحافتی اور اکیڈیمک سفر پر روشنی ڈالی۔

سرور منیر راؤنے گفتگو کرتے ہوئے قیصر عباس کے ساتھ یونیورسٹی میں گزرے ایام سے متعلق بات کیَ انکا کہنا تھا کہ ان کی شخصیت کے بہت سارے پہلو تھے۔ ایک ہی وقت میں وہ شاعر، ادیب، صحافی، انسانی حقوق کے علمبردار، بہترین دوست، لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے والی شخصیت تھے۔ انکی شاعری میں ایک پیغام ہوتا تھا۔ بائیں بازو کے نظریات کے حامل تھے، لیکن دائیں بازو کے دوستوں کے ساتھ بھی انہوں نے ہمیشہ تعلق نبھایا۔ سب لوگ ان کے خیالات سے مستفید ہوتے اور وہ ہمیشہ جدوجہد کے قائل رہتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے روزنامہ جدوجہد کے ساتھ ہی آخری وقت تک اپنا تعلق قائم رکھا۔

رتوجا دیش مکھ نے کہا کہ وہ دانشورانہ طور پر بہت سخی تھے۔ میرا ان کے ساتھ تعلق پیشہ ور ای میل کے ذریعے ہی قائم رہا، لیکن انہوں نے بہت اپنائیت کے ساتھ بہت کچھ سکھایا۔ وہ ہمیشہ نئے سکالرز کی عزت کرتے تھے اور ان کی ہر ممکن رہنمائی کرتے تھے۔ میرے لئے اعزاز ہے کہ انہوں نے میری کتاب میں تعاون کیا اور کنٹری بیوٹ کیا۔ وہ اپنے کام اور اپنی دانشورانہ سخاوت کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

فیض اللہ جان نے گفتگو کرتے ہوئے ان کے ترقی پسند خیالات اور نظریات کے حوالے سے بات کی۔ انکا کہنا تھا کہ وہ اپنی سوچ و فکر میں ترقی پسند انسان تھے۔ اپنی کتاب کی اشاعت کے حوالے سے جب مجھے ایک باب لکھنے کیلئے کہا تو مجھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ موجودہ حالات میں جدوجہد کو جاری رکھنا بہت اہمیت کا حامل ہے اور ڈاکٹر قیصر عباس کا جدوجہد کی ٹیم کا حصہ ہونا ان کی پاکستان جیسے معاشرے میں ترقی پسند خیالات کی ترویج کیلئے کاوشوں کا ثبوت ہے۔ ان کی وفات سے صرف ایک شخص کا جانا نہیں ہے، بلکہ ایک بہت بڑی آواز کم ہو گئی ہے۔وہ جسمانی طور پر تو موجود نہیں ہیں، لیکن اپنے افکار، جدوجہد،کردار اور کام کی وجہ سے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

عدنان فاروق نے گفتگو کرتے ہوئے ویو پوائنٹ کے ذریعے ڈاکٹر قیصر عباس سے قائم ہونے والے تعلق پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ہمارے لئے لکھنا ہمارے لئے بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔ ان جیسے لوگوں کی وجہ سے ہمیں بہت بڑی ریڈر شپ ملی، ہماری ویب سائٹ کے مواد کی کوالٹی میں بہت بڑا اضافہ ہوا۔ وہ بہت جلد ہماری ٹیم کا حصہ اور ایک طرح سے سرپرست بن گئے تھے۔ ہمیشہ ویوپوائنٹ کو جاری رکھنے کیلئے مالی مدد بھی بڑھ چڑھ کر کرتے رہے۔ انکا کہنا تھا کہ ڈاکٹر لال خان کے بعد ڈاکٹر قیصر عباس کی موت ان کیلئے دوسرا بڑا جھٹکا ہے۔ تاہم ان کا کام اور افکار ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

فوزیہ رفیق نے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر قیصر عباس کے ساتھ یونیورسٹی میں گزرے وقت کو یاد کیا۔ انکا کہنا تھا کہ وہ بہت ہی نفیس شخصیت کے مالک تھے۔ کبھی غصے سے بات نہیں کرتے تھے۔ ان کے حوالے سے مشہور تھا کہ وہ لڑائی بھی تہذیب یافتہ طریقے سے کرتے تھے۔ انکا کہنا تھا کہ بہت سالوں بعد ان سے کچھ سال پہلے دوبارہ انٹرنیٹ کے ذریعے رابطہ ہوا۔ ہم دونوں کی خواہش تھی کہ اکٹھے کوئی کام کریں لیکن ہم کچھ خاص نہیں کر سکے۔ البتہ ان کی نئی آنے والی کتاب کی ایڈیٹنگ میں نے کی۔ وہ اپنی زندگی میں ہی یہ کتاب شائع کرنا چاہتے تھے، لیکن وقت نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔

عصمت اللہ نیازی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر قیصر عباس بہت مہربان اور نرم گو شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے ساتھ کوئی براہ راست ملاقات نہیں رہی، تاہم پی ٹی وی کے سابق ساتھیوں کے ایک گروپ میں ان کے ساتھ تعارف ہوا۔ وہ اکثر گروپ میں اپنی شاعری شیئر کیاکرتے تھے اور کبھی کبھار ان کے ساتھ بات چیت بھی ہو جایا کرتی تھی۔ اس مختصر تعلق کے دوران انہیں بہت زیادہ خوبیوں کی حامل شخصیت پایا ہے۔

صالحہ قیصرنے اپنی گفتگو میں کہا کہ ڈاکٹرقیصر عباس ان کے شوہر سے زیادہ دوست تھے۔ ہم دونوں کلاس فیلو تھے، اکٹھے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کیا۔ وہ بہت سپورٹ کرنے والے شوہر تھے۔ ہم دونوں نے ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھایا ہے۔ انہوں نے ہر موقع پر میرا بہت ساتھ دیا ہے۔ پی ایچ ڈی ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ میرے جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی۔ میں اس وقت پی ایچ ڈی چھوڑنا چاہتی تھی لیکن ڈاکٹر قیصر نے ایسا نہیں کرنا دیا۔ انہوں نے ہر ممکن مدد کی تاکہ میں بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ اپنی پی ایچ ڈی بھی مکمل کر سکوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر قیصر جو کچھ لکھتے اور کہتے تھے، اسی پر عمل کیا کرتے تھے۔ یہ میرے لئے بہت فخر کی بات ہے کہ جیسا وہ سوچتے اور لکھتے تھے، وہی انہوں نے اپنی زندگی میں کر کے دکھایا۔ جدوجہد کو وہ ’کن شپ‘ قرار دیا کرتے تھے۔ آخری وقت میں وہ کتاب مکمل کرنا چاہتے تھے، لیکن وہ اس کی اشاعت نہیں کر سکے۔ میں جدوجہد کے ساتھیوں کی شکر گزارہوں کہ آپ اس کتاب کو شائع کرینگے۔

ریفرنس میں ڈاکٹر قیصر عباس کے بیٹوں شہرزاد رضوی، شہریار رضوی نے بھی گفتگو کی اور والد کی یاد میں ریفرنس کے انعقاد پر میزبانوں کا شکریہ ادا کیا اور مقررین کا بھی شکریہ ادا کیا۔

ریفرنس کے دوران ڈاکٹر قیصر عباس کے چھوٹے بھائی منظر عباس، ہمشیرہ، بہنوئی خورشید نجمی اور ان کی امریکہ میں پڑوسی زکیہ نے بھی گفتگو کی اور ڈاکٹر قیصر عباس کے ساتھ گزرے اپنے ایام پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر قیصر کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

آخر میں مدیر جدوجہد فاروق سلہریا نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور ڈاکٹر قیصر کی جدوجہد اور ان کے سفر کو جاری و ساری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر قیصر عباس کی آخری تصنیف کی جلد اشاعت کو یقینی بنانے کے عزم کا بھی اظہار کیا اور ان کی جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کیا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts