پاکستان

تعلیم کی نج کاری اور نظام تعلیم

بابر پطرس


سکڑتی ہوئی معیشت، اور تاریخی طور پر متروک ہو چکے نظام میں، حکم ران طبقہ کے پاس، آئی۔ایم۔ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرض لینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔ اس قرض سے "حاصل” ہونے والی رقم میں، فیکڑیوں، کارخانوں، کھیتوں، کھلیانوں اور تن خواہ دار محنت کشوں کا کوئی حصہ نہیں، تاہم اس کے سود کی ادائیگی، انھی کے خون پسینے سے حاصل شدہ ٹیکس سے کی جاتی ہے۔ دوسری طرف ان کی محنت کرنے کی قوت، منافع کی شکل میں، سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرتی ہے، لیکن بدلے میں،ان کو سوائے بھوک اور افلاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

ہر سال پیش کیا جانے والا بجٹ دلیل ہوتا ہے کہ بورژوا ریاستوں کے پاس، محنت کشوں کو دینے کے لیے مہنگائی، بے روزگاری اور لاعلاجی ہی ہے۔

ان بجٹوں میں، آئی۔ایم۔ایف کی بنائی ہوئی، غیر انسانی پالیسیوں کا نفاذ،، مرکزی ایجنڈا ہوتا ہے۔ محنت کشوں کو محض جاگتی آنکھوں کے، پر فریب خواب تقسیم کیے جاتے ہیں۔

ورلڈ بنک سے ایشائی ترقیاتی بنک سمت ہر مالیاتی ادارے اور بورژوا معیشت دانوں کے پاس معاشی بحرانات سے نکلنے کا واحد نسخہ کٹوتیاں اور نج کاری ہے۔

خوش حالی اور بہتر کارکردگی کے سبز خواب دکھا کر، نج کاری کے لیے راہ ہم وار کیا جاتا ہے۔لیکن حقیقت میں، ان "آزمودہ نسخوں” کے نتائج، بھوک، غربت اور بے روزگاری کی صورت، سامنے آتے ہیں۔ سویت یونین کے انہدام کے بعد بورژوا ریاستیں،اس قدر وحشی ہو گئی ہیں کہ وہ ہر اس سہولت کو بھی چھین رہی ہیں، جس کی ضمانت، خود ریاستی آئین دیتے ہیں۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25A اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ پانچ⁵ سے سولہ¹⁶ سال کی مفت تعلیم، پاکستان کے ہر بچے کا حق ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ یہاں تعلیم حاصل کرنا، کسی عیاشی سے ہرگز کم نہیں ہے۔

جب سماج میں بھوک کا اندھا راج ہو، اور محنت کشوں کے پاس کھانے کو دو وقت کی روٹی نہ ہو، علاج معالجہ کی سکت نہ ہو، بجلی کے بل جمع کرانے کے پیسے نہ ہوں، ڈگریاں ہاتھوں میں لیے نوجوانوں کے پاس روزگار نہ ہو،تو نجی اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کی بھاری فیس کون دے سکے گا۔ اس طرح تعلیم کاروبار کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ یہاں ڈگریوں کی سیل لگی ہوئی ہے۔

طبقاتی سماج میں، ہر شے طبقاتی ہوتی ہے، اس لیے تعلیم بھی طبقات سے منسلک کاروبار ہے۔ نجی تعلیمی اداروں میں”بڑے” اور "چھوٹے” کی تقسیم کا باقاعدہ ایک زینہ ہے۔ کچھ گلی محلوں کے، دو ایک کمروں پر مشتمل "اسکول” ہیں۔ کچھ ان سے اوپر والے، "کوٹھی” اسکول ہیں۔ اس کے بعد شاپنگ پلازوں میں آباد "یونی ورسٹیوں” کا نمبر آتا ہے۔ جو سوائے سڑکوں پر ٹریفک جام کرنے کے ، کسی کام نہیں آتیں۔ کچھ کیمبرج طرز تعلیم کے "معقول تعلیمی اداروں” بھی ہیں۔ ان کے پاس کمرہ جماعتوں کے ساتھ ساتھ، گراونڈ، لائبریری، ڈسپنسری، کمپوٹر لیبز؛ اور اسٹاف وغیرہ دستیاب ہوتا ہے۔ لیکن یہاں” سرمایہ کاری” کافی مہنگی پڑتی ہے۔

ان اداروں میں تفریق کے بے شک، ان گنت زینے ہوں، اعلی اور ادنا کی تقسیم موجود ہو؛ تاہم ان تمام "بڑے، چھوٹے” داروں میں عملے اور طالب علموں کا استحصال، ایک قدر مشترک ہے ۔ کم افرادی قوت کے ساتھ، کم تن خواہ میں، زیادہ سے زیادہ کام لینے والا "سمارٹ” اور کام یاب منتظم کہلاتا ہے۔

اس کے ساتھ یہاں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے، وہ محض لکھنا پڑھنا، اور مختلف زاویوں سے منہ بگارنا سیکھاتا ہے۔ اس انداز تدریس اور نظام تعلیم سے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بہتر ہونے کی بجائے، مزید تنزل کا شکار ہو کر، اپنی ذات کے دائرے میں سمٹ جاتی ہے؛ یا فرد کو حد سے زیادہ "Practical”اور ” Careerist "بنا کر، سماج کی اجتماعی ترقی کی سوچ سے بے گانہ کر دیتی ہے۔یہ سوائے بے جا گھمنڈ کے کچھ نہیں سیکھا پاتی۔

مرتب دیا گیا نصاب، مخصوص قومی سوچ اور تنگ نظری کو جنم دینا کا سبب بنتا ہے، ایسی ذہن سازی کرنا، جس میں”اپنی” ہرشے مقدم اور افضل دکھائی دیتی ہے؛ قومی ریاست کے، اپنے وجود کی بقا کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

قومی ریاست کی اپنی حدود و قیود ہوتی ہیں، جس کی جکڑ بندیوں سے رہائی حاصل کرنے کا مطلب، اس کے اپنے، وجود کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ لہذا انھی حدوں کے اندر قومی جذبات کو ابھار کر، نوجوان نسل کی ذہنی تربیت کی جاتی ہے، جو دراصل مراعات یافتگان کی کی نجی ملکیت کا دفاع ہے۔ یہ واردات اس غیر محسوس طریقے سے ڈالی جاتی ہے کہ روایتی شعور، اس کا ادراک نہیں کر پاتا۔

2014 میں پاکستان پلاتنگ کمیشن نے "پاکستان وژن 2025” کا پلان مرتب کیا تھا۔ اس کے 25 اہداف میں، دو تعلیم سے متعلق تھے:

الف۔ پرائمری تعلیم کے اندراج کو بڑھاتے ہوئے، شرح خواندگی کو 90 فی صد تک لے جانا۔
ب۔ ہائی اسکول کے اندراج کو 7 فی صد سے 12 فی صد تک بڑھانا۔

دس سال کے اس عرصہ میں، یہ اہداف تو کیا حاصل ہونے تھے، الٹا عوام کے خون پسینے سے سینچے گئے، مٹھی بھر سرکاری اسکولوں اور کالجوں کو آئی۔ایم۔ایف کی ہدایات پر، اونے پونے داموں، مال داروں کے ہاتھوں بچ کر، عوام کو، تعلم حاصل کرنے کے حق سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ جواز کے طور پر، ان کی کارکردگی کو زہر بحث لایا جاتا ہے۔ لیکن مناسب روشنی سے محروم، تاریک، ٹوٹی کھڑکیوں، سردیوں میں برف خانے اور گرمیوں میں، تنور کی شکل اختیار کر جانے والے کمرہ جماعتوں پر بحث نہیں ہو گی۔

اس پر کبھی بحث نہیں ہو گی کہ طالب علم پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ یا بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ یا ٹرانس پورٹ کے مسائل ہیں۔ سب سے بڑھ کر کہ نصاب اور طریقہ تدریس متروک ہو چکے ہیں۔

نج کاری کا یہ کہ کر بھی دفاع کیا جاتا ہے کہ ریاست کا کام، کاروبار کرنا نہیں ہوتا۔ درست کہتے ہیں۔ تعلیم اور صحت کوئی کاروبار نہیں ہیں، بل کہ یہ ہر شہری کا بنیاد حق ہے۔انیس تہتر کے دستور پاکستان کے آرٹیکل 25A، 37،38،اور 40 کے مطابق، بلا تفریق رنگ، نسل،مذہب اور زبان مفت تعلیم مہیا کرنے کی ریاست کی ذمہ دار ہے۔ لیکن ریاست نج کاری کر کے، اس ذمہ داری سے دست بردار ہو رہی ہے۔

حکمرانوں کی نج کاری کی اس واردات سے،معیار زندگی میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ نہ اس سے خوش حالی آنے والی نہیں ہے۔ بل کہ قوت خرید کم ہو کر منڈی کے مزید سکڑاو کی وجہ بنے گی۔ اس سے سماج میں بے چینی جنم لے کر، بڑے ایوانوں کے انہدام کی طرف چلی جائے گی۔

آئی۔ایم۔ایف کے ایماں پر کی جانے والی نج کاری کے، پہلے فیز میں تیرہ¹³ ہزار اسکولوں کو مختلف این۔جی۔اوز کے حوالے کیا جائے گا۔ جس سے اساتذہ جبری ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور ہوں گے۔ یوں ان تعلیمی اداروں سے، عملے کی مستقل اسامیاں ختم کر دی جائیں گی۔

نجی شعبے کے حوالے کی جانے کے بعد، بھاری فیسوں کا بوجھ، محنت کشوں پر لاد دیا جائے گا۔ یوں تعلیم حاصل کرنا، مراعات یافتہ طبقے تک سمٹ کر رہ جائے گا۔

اگلے فیز میں،اسکولوں کی مہنگی سرکاری زمینوں کی نیلامیاں کر کے، اپنوں کو نوازا جائے گا۔ یوں تعلیم مکمل طور سے نجی شعبے کے ہاتھوں کاروبار کی حیثیت اختیار کر جائے گی، جہاں غریب آدمی کے لیے تعلیم کا حصول ناممکن ہو گا۔

دستیاب تعلیمی شعبہ کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ صرف پنجاب میں ٹیکسٹ بورڈ ابھی تک پرائمری سے ہائی اسکولوں تک کے بچوں کو کتابیں مہیا کرنے میں ناکام ہے۔ بیس ملین کتب کی ضرورت ہے؛ جب کہ بورڈ 7.5 ملین کتاب چھاپ سکا ہے۔ اسکولوں کو ہدایات کی گئی ہیں کہ اگلے گریڈوں میں ترقی پانے والے اور اسکول چھوڑ کر جانے والے بچوں سے کتابیں منگوا کر، اسکولوں میں تقسیم کی کریں۔

اس کے علاوہ حکم رانوں کی عوامی مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے سنجیدگی کا اندازہ، درج ذیل اعداد وشمار سے ہو جاتا ہے کہ پانچ⁵ سے سولہ¹⁶ سال کی عمر کے 22.8 ملین بچوں نے کبھی اسکول کا منھہ ہی نہیں دیکھا۔ پانچ⁵ سے نو⁹ سال کی عمر کے پانچ⁵ ملین بچوں نے کبھی اسکول کے دروازے کی دہلیز پار نہیں کی۔ اسی طرح پرائمری کے بعد، اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 11.4ملین ہے۔

ابتدائی سطح کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے 10.7ملین لڑکے اور 8.6 ملین لڑکیوں کا اندراج ہوتا ہے، لیکن پرائمری تک پہنچتے پہنچتے، یہ نمبر لڑکوں میں 3.6 ملین اور لڑکیوں کی 2.8 میلن کی سطح تک گر جاتی ہے۔ اسکولوں سے باہر یہ محکوم بچے، جبری مشقت کا شکار ہیں۔

اس وقت پاکستان میں 182,600پرائمری اسکول، 46,800 مڈل اسکول، 34,800 ہائی اسکول، 7,648 انٹر کالج، 300 ڈگری کالج، 200 یونی ورسٹیاں؛ اور 3,729 ٹیکنیکل ادارے کام کر رہے ہیں۔ جب کہ آبادی کے تناسب سے انھیں دو گنا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ہجم کے حامل اداروں کا جی۔ڈی۔پی میں حصہ دیکھیں! تعلیم اور صحت کے بجٹ کو ہی پیمانہ بنا لیجے، تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ حکومتوں کی ترجیحات کیا ہیں۔گزشتہ بجٹ میں، تعلم کے لیے1.7 فی صد یعنی 97.098 ارب روپے رکھا گیا؛ جب کہ صحت کےلیے جی۔ڈی۔پی کا 1.4 فی صد رکھا گیا۔

آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال کے دفاعی بجٹ کا تخمینہ 2152 ارب روپے لگایا ہے جو کو پاکستان کے رواں مالی برس کے دفاعی بجٹ کے لیے مختص رقم سے 313 ارب روپے زیادہ ہے۔ ان اعدادو شمار سے، واضح ہو جاتا ہے کہ حکم رانوں کی ترجیع گولا بارود ہے۔ تعلم اور صحت جیسے بنیادی مسائل ان کی توجہ کا مرکز نہیں ہیں۔۔۔اور ہوں بھی، تو یہ نظام تاریخی متروکیت کی اس سطح پر پہنچ چکا ہے کہ یہ آبادی کی وسیع پرتوں کے معیار زندگی کو بہتر کرنے کے قابل نہیں رہا۔

ہر سال محنت کی منڈی میں داخل ہونے والے چالیس لاکھ افراد کو، روزگار کہاں سے دیا جائے گا، جب کہ منافع کی ہوس، پہلے سے موجود روزگار چھیننے کی در پر ہے۔

سرکاری اسپتالوں میں جدید مشینری، ادوایات، بستروں کی تعداد اور عملے کی کمی پورا کرنے کی بجائے، صحت کارڈ کے ذریعے، پرائیوٹ اسپتالوں کو نوازا جاتا ہے۔ نئے اسپتال بنانے کی بجائے، خیراتی اسپتالوں کے افتتاح ہو رہے ہیں، جہاں علاج معالجے کی لیے، محنت کشوں کو اپنے غربت کے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے، کبھی علاقہ کے نمبردار، اور کبھی یونین کونسل کے سیکریڑی کے سامنے اپنے خالی دامن پھیلانے پڑتے ہیں۔ تعلیمی شعبہ کی صورت احوال بھی کوئی مختلف ہرگز نہیں ہے۔ سرکاری اسکولوں، کالجوں کی حالات اس سے قابل رحم ہے۔ ان کی دیواروں پر لگی کانٹے دار تاریں، دروازوں کے اوپر بنے مورچے، اور ان میں بیٹھے ہوئے، بندوق بردار "محافظ” جیل خانوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ تعلیمی نظام اور طریقہ تدریسی اور طالب علموں کی ذہنی بالیدگی کو جانچنے کا انداز متروک ہو چکا ہے۔ تدریس کا یہ نظام، طالب علموں کے دماغ کو تنقیدی بنانے میں ناکام ہو گیا ہے۔ اس کے برعکس محض نقالوں کی فوج جنم دے رہا ہے۔ یہ ایک ایسا لاوہ ہے، جو ایک دن پھٹ کر پورے نظام کو بہا لے جائے گا۔ کیوں کہ اس معاشی نظام کے پاس نوجوانوں کو دینے کے لیے، سوائے مایوسی اور تاریک مستقبل کے، کچھ بھی نہیں ہے۔

اسکولوں اور کالجوں سے فارغ ہونے والے طالب علم، سڑکوں پر دھوم مچاتے ہیں۔ ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں، کاپیوں اور رجسٹروں کے صفحات کو پھاڑ کر ہوا میں اچھالتے ہیں۔

طالب علموں کا یہ طرز عمل، کوئی فیشن نہیں ہے، نہ یہ غیر ارادی عمل ہے۔ بل کہ یہ ردعمل ہے۔ یہ ان کے غصے اور نفرت کا اظہار ہے، کہ کمرہ جماعت، ایک قید خانے کے سوا کچھ نہیں رہا، اور اس میں پڑھایا جانا والا نصاب اور انداز اور ان کی صلاحیت کا پرکھنے کا طریقے ، ماضی بعید کی داستان بن گئے ہیں۔ یہ ردعمل اس بات کا اعلان ہے کہ منافع کے حصول کی بنیاد پر کھڑا یہ نظام اور اس کی دیوالیہ معیشت، ان کے محفوظ مستقبل کی ضمانت نہیں دے سکتے۔

مایوسی کے اس ماحول میں، طالب علموں کے اندر کوئی تعمیری سوچ نشو و نما نہیں پا سکتی۔ اس عالم میں تخریب کا راستہ ہی بچتا ہے۔ منشیات کے ذریعے سے، اپنے حال سے فرار ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ کھٹن حالات کے سامنے سر جھکا کر کسی، رسی سے جھول جانے کے علاوہ، دوسرا حل نظر نہیں آتا۔ جرائم کی دنیا ہی خواہشوں کی تکمیل کا ذریعہ ہوتی ہے، اور شناخت کے بحران سے دوچار فرد کو، اس کے "ہونے” کا احساس دلاتی ہے۔ طالب علموں کے پاس چور اور "ایمان دار” سیاست دانوں کی بھونڈی سیاست کے آلہ کار بننے کے سوائے اور راہ نہیں بچتی۔

تعلیم کے معانی ہرگز یہ نہیں ہوتے، کہ جو پڑھا، سنا یا دیکھا ہے، اس کو دوران امتحان، جوں کا توں اگل دیا جائے۔ جو طریقہ تعلیم، انسان کے شعور کو جلا نہ دے؛ اور دماغ کو سوال اٹھا کر، ان کے درست جواب تلاش کرنے پر نہ اکسائے، وہ بے کار سرگرمی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسے تعلیم یافتہ افراد سے وہ "ان پڑھ” مکینک ہزار گنا بہتر ہے، جو گاڑی کو دیکھ کر اس کے نقص کا فوری ادراک کر لیتا ہے؛ اور جانتا ہے کہ اس کا کیا حل ہے۔

دوسری جانب نجی اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں سمیت ان کے نصاب اور طریقہ تعلیم پر روشنی ڈالنا بھی ناگزیر ہے۔ ” عالمی معیار” کا نصاب پڑھانے والے اداروں، اور ان میں "تعلیم” حاصل کرنے والوں کی ظاہری شکل و صورت کو، سرکاری اداروں کے محکموں کے ساتھ موازنہ کیجے۔ ایک طرف، صاف ستھرے یونی فارموں میں، چمکتے بوٹوں کے ساتھ، لمبی گاڑیوں سے اترتے ہوئے، بچے نظر آئیں گے۔ جب کہ دوسری طرف، چہروں پر مایوسی لیے، تاریک گھروندوں سے، تعلیمی اداروں کی طرف رینگتے ہوئے کیڑے مکوڑے ہیں، جو جھلساتی ہوئی گرمی کی حدت اور یخ بستہ ہواؤں کی شدت برداشت کرتے ہوئے بسوں کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں۔

کسی اور سیارے سے آئے ہوئے، "بڑے بڑے” نجی اداروں میں پڑھنے والے، مزدور کی محنت پر ڈاکا ڈالنے والے ماں باپ کی اولادوں کے پاس صحت مند، متوازن غذا کے ساتھ ساتھ ہر جدید سہولت موجود ہے، جو ان کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما کے لیے ناگزیر ہے۔ لہذا ان کا مقابلہ ان بھوک زدوں کے ساتھ کیوں کر ممکن ہے، جو گھر سے لیا نوالہ، شام گھر میں آکر ہی توڑتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا اور ذہانت کا موازنہ بنیادی طور سے، غیر منطقی ہے۔ لیکن یہ دو انتہاوں کی طبقاتی تفریق کسی حادثاتی عمل، یا کسی "مقدر” کا نتیجا ہرگز نہیں ہے۔ میر نے کیا خوب کہا تھا:

امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انہیں کی دولت سے

یہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے، جو نجی ملکیت کے وجود سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک سرمائے کی حاکمیت موجود ہے۔ جب تک یہ نظام قائم و دائم ہے، بچوں کے ہاتھ میں اسکول بیگ کی جگہ گاڑیوں کے اوزار اور کندھے پر کپڑا موجود رہے گا، اور سڑکوں کے کنارے، غبارے بیچتے ہوئے بچے، اس نظام کا منھہ چڑاتے رہیں گے۔

Babar Patrus
+ posts

بابر پطرس گزشتہ ایک دہائی سے شعبہ تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اردو ادب ان کا خاص مضمون ہے۔ بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر، اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ سیاسی فکر میں کارل مارکس سے متاثر ہیں۔