نقطہ نظر

شیام: اے سٹار فارگاٹن

اشتیاق احمد

نام کتاب: ”شیام: اے سٹار فارگاٹن“

مصنف: بمل چڈھا

پبلشر: بلیو پنسل، نئی دہلی 2024ء

زیرِ تبصرہ کتاب اداکار شیام (پیدائش: 20 فروری 1920، سیالکوٹ۔ وفات: 25 اپریل 1951،بمبئی) کی سوانح حیات ہے۔شیام ’شبستان‘ (1951) فلم کی شوٹنگ کے دوران ایک حادثے کا شکار ہو کر وفات پا گئے تھے۔ ایک منظر کی عکس بندی کے دوران،گھڑ سواری کرتے ہوئے، رکاب ٹوٹ گئی،ان کا توازن بگڑا۔گھوڑے سے گرنے سے سر پر جان لیوا چوٹ آئی جس سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔ 31 سال کی عمر میں ہی دنیا سے چل بسے۔

شیام روشن خیال اور وسیع النظر انسان تھے۔ انگریزی اور اردو ادب کا وسیع مطالعہ تھا۔سعادت حسن منٹو ان کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ اشاعت سے پہلے منٹو اپنی کہانیاں شیام کو پڑھاتے۔دیگر قریبی دوستوں میں اداکار اوم پرکاش بھی شامل تھے۔اوم پرکاش سے لاہور میں دوستی ہوئی۔ اوم پرکاش نے ہی پہلی دفعہ فلم میں کام لینے میں مدد دی۔فلم پنجابی زبان میں تھی،نام تھا ’گوانڈھی‘ (پڑوسی،1942) جو لاہور میں بنی۔

گو شیام بڑوں کے ساتھ احترا م سے پیش آتے اور ایسی دیگر روایات کی پابندی کرتے مگر نئی سوچ کے حامل تھے اور سیکولرذہنیت رکھتے تھے۔ مذہبی تنگ نظری چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی اور دیگر ادیب اور دانشور اکثر شیام کے ہاں آتے اور شیام کا دروازہ بھی ان سب کے لئے ہمیشہ کھلا رہتا۔ موسیقار سی رام چندر،پروڈیوسر ڈائریکٹر رمیش سہگل،اورکہنہ مشق اداکار موتی لال سے بھی دوستی تھی۔

اس لئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ انہوں نے ممتاز قریشی،المعروف تاجی سے شادی کی جن کا تعلق ملتان سے تھا۔ ان کے ہاں دو بچوں کی پیدائش ہوئی۔ بیٹی کا نام ساحرہ رکھاجو بعد میں ساحرہ کاظمی کے نام سے پاکستان ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ اور ہدایت کارہ بن کر ابھریں۔ بیٹے کا نام شیکھر (بعد ازاں شاکر)رکھا۔ بیٹے کی پیدائش شیام کی وفات کے دو ماہ بعد ہوئی۔

شیام کی کہانی کا بیشتر حصہ ان کے بھتیجے بمل چڈھا (پیدائش: 21 فروری 1966،راولپنڈی۔وفات:3 فروری 2022،نئی دلی)نے لکھا ہے۔بمل چڈھا شیام کے چھوٹے بھائی ہر بنس جی کے بیٹے تھے۔بمل چڈھا کئی سال سے اس کتاب پر تحقیق کر رہے تھے۔ان کی خواہش تھی کہ یہ کتاب شیام کی 100 ویں سالگرہ پر،2020میں شائع ہو۔ کام پھیلتا گیا،کتاب مقررہ وقت پر مکمل نہ ہو سکی۔ کتاب کی اشاعت سے پہلے بمل چڈھا بیماری کا شکار ہو کر اس دنیا سے چل بسے۔ان کی وفات کے بعد، بمل چڈھا کے بیٹے اکشے نے اپنی والدہ وینا اور بہن مونیکا کے ساتھ مل کر یہ کام تکمیل تک پہنچایا۔اس فلم کی تدوین فلم اور موسیقی کے معروف مصنف مانک پریم چند نے جانفشانی اور انتہائی مہارت سے کی ہے۔

کسی نہ ختم ہونے والی کسی سرنگ میں ایک گونج کی طرح،میرے ذہن میں شیام کی ہلکی سی پہلی یاد محفوظ ہے۔ ہمیں لاہور میں پتہ چلا کہ دور دراز کے شہر بمبئی میں سب سے زیادہ خوبرو بھارتی اداکار شیام کا انتقال ہو گیا ہے۔تکلیف دہ واقعات، مجھے اچھی طرح اندازہ ہے، چھوٹے بچوں کے دماغ پر بھی انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔
ٹ
مپل روڈ،مزنگ میں واقع ہمارے گھر میں شیام کی وفات پر یوں سوگ منایا گیا گویا کوئی گھر کا فرد وفات پا گیا ہو۔تقسیم کو ابھی چار ہی سال گزرے تھے۔ابھی لوگوں میں یہ سوچ گھر نہیں بنا سکی تھی کہ ہندوستان پاکستان اب دو جدا جدا، حریف ملک بن چکے ہیں۔بعد ازاں، مجھے اندازہ ہوا کہ جب شیام کی وفات ہوئی تو میری عمر محض چار سال تھی۔

23 جون 2012 میں،ڈیلی ٹائمز (لاہور)کے ادارتی صفحات پر میرا ایک مضمون بعنوان ”ایکٹر شیام ہو ڈائڈ ینگ“(Actor Shyam Who Died Young) شائع ہوا جس کی وجہ سے میں بھی بمل چڈھا کے پراجیکٹ کا حصہ بن گیا۔ یہ مضمون خوب پڑھا گیا۔ مجھے ایسے بے شمار قارئین کی ای میلز موصول ہوئیں جنہیں شیام پسند تھے یا جو شیام کو جانتے تھے۔ بمل چڈھا نے میرا مضمون دلی میں پڑھا اور مجھ سے رابطہ کیا۔انہوں نے مجھ سے ساحرہ اور شاکر سے رابطے کے لئے مد د مانگی۔دونوں نے کوئی جواب نہ دیا۔میں نے کہیں سے شاکر کا ای میل اکاونٹ حاصل کیا۔ وہ برطانیہ میں بطور ماہر نفسیات کام کر رہے تھے۔ میں نے انہیں ای میل کی اور بمل چڈھا سے رابطے کے لئے کہا۔مجھے ای میل کا جواب نہیں ملا۔

شیام اور بربنس کے چھوٹے بھائی،چن نے بھی لندن میں شاکر سے متعدد مرتبہ ملاقات کی مگر شاکر نے کبھی اپنے ہندو رشتہ داروں سے رابطہ نہیں کیا جو چاہتے تھے کہ شاکر اور ساحرہ ہندوستان میں اپنے والد کی جائداد تو اپنے نام کروا لیں۔

2013 میں دلی گیا تو ہربنس جی،بمل چڈھا اور پورے خاندان سے ملاقات ہوئی۔رات ان کے ہاں ٹہرا۔3 نومبر 2013 کو میں نے اس ملاقات بارے کالم بھی لکھا جو ڈیلی ٹائمز میں ”این ایوننگ ود ایکٹر شیامز فیملی“(An Evening With Actor Shyam’s Family) کے عنوان سے شائع ہوا۔ یہ تفصیلات زیر تبصرہ کتاب میں بھی شامل ہیں۔

اگر اداکار شیام کے بچے اپنے ہندو والد اور ہندو رشتہ داروں سے کوئی تعلق طاہر نہیں کرنا چاہتے تو اس کی واحد وجہ مذہب ہی ہو سکتا ہے۔یہاں تک کہ جب بمل چڈھاکی وفات کی خبر ساحرہ اور شاکر کو پہنچائی گئی تو انہوں نے تعزیت تک نہیں کی۔جناح کے پاکستان میں کسی کے آبا و اجداد کا ہندو ہونا سیاسی و سماجی نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔یہاں تو انگریزی کا محاورہ ”خون پانی سے گاڑھا ہوتا ہے“ بھی غلط ثابت ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

اِن دُونوں کے اس روئیے کے باوجود کتاب میں تاجی اور ان کے بچوں کا ذکر پیار محبت اور ہمدردی سے کیا گیا ہے۔شیام کو اپنے بچوں سے بہت محبت تھی۔ ساحرہ کو بانہوں میں اٹھائے ہوئے،شیام کی کتنی ہی تصاویر کتاب میں شامل ہیں۔

کتاب میں جگہ جگہ شیام اور منٹو کی دوستی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ یہ سازشی سا تاثر کہ منٹونے بمبئی اس لئے چھوڑا کہ شیام بھی تقسیم کے وقت پھیلی مذہبی منافرت کا شکار ہو گئے تھے جس نے منٹو کو دلبرداشتہ کر دیا،اس کتاب میں نا قابل تردید ثبوتوں کی مدد سے غلط ثابت کیا گیا ہے۔

اس دعویٰ کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ منٹو کی صاحبزادی،نزہت، نے اس کتاب کی تیاری میں پورا پورا تعاون کیا اور ایسے ثبوت مہیا کئے جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں کے درمیان آخری دم تک دوستی تھی۔نزہت کا کتاب میں شامل مضمون”ود لوٹو شیام:این اینتھم آف سالیڈیرٹی“(With Love to Shyam: An Anthem to Solidarity)اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔منٹو نے شیام کی وفات پر جذبات سے بھر پور نوحہ لکھا۔کرشن چندر نے بھی شیام کی وفات پر خون کے آنسو رلا دینے والا مضمون لکھا۔ شیام کے جنازے میں ہزاروں دوستوں اور چاہنے والوں نے شرکت کی۔

بمل کے علاوہ،ہربنس جی (جو اس دنیا میں نہیں رہے)،وجے،اکشے،مونیکا اور بعض دیگر افراد نے اس کتاب میں مضامین لکھے ہیں جس میں یا تو شیام بارے اپنی یادیں تحریر کی ہیں یا شیام بارے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بمبئی کی فلمی دنیا میں شیام کے مختصر مگر شاندار کیرئیر (1942 تا 1951)،جس میں وہ ایک ایسے اداکار بن کر ابھرے جن کی سب سے زیادہ مانگ تھی، اس فلمی دنیا کی چکا چوند اور اس چمکدار دنیا میں شیام کی جدوجہد کا تاجی سے تعلقات پر کیا اثر پڑا۔۔۔یہ سب حالات اس کتاب میں انتہائی ایمانداری سے پیش کئے گئے ہیں۔شیام کا اپنی ساتھی اداکارواں سے اگر کوئی تعلق بھی رہا تو اس کے باوجود انہیں اپنے خاندان سے بے حد محبت تھی۔یہ خصوصیت دنیا بھر کے مردوں میں پائی جاتی ہے۔چمکیلے کاغذ پر بلیک اینڈ وائٹ تصاویر دیکھ کر انسان اداس اور ناسٹیلجیا کا شکار ہو جاتا ہے۔

اس سال جنوری میں اکشے نے مجھے اس کتاب کی تقریب ِرونمائی میں شرکت کی دعوت دی جو 20 فروری 2024 کو طے پائی تھی۔میری سالگرہ بھی 24 فروری کو ہوتی ہے۔ اس مختصر وقت میں ویزا ملنا نا ممکن سا لگ رہا تھا۔ویزا اگر مل بھی جاتا تو انہی دنوں مجھے تامل ناڈو میں ایک کانفرنس میں شرکت کرنا تھی۔قسمت دیکھئے کہ ویزا مل گیا۔ کانفرنس منسوخ ہو گئی۔میں اور میری اہلیہ ملیحہ نے زبردست طریقے سے منعقد کی گئی تقریب رونمائی میں شرکت کی جس میں دو سو کے لگ بھگ لوگ شریک تھے۔میری سالگرہ کے سلسلے میں چاکلیٹ کیک کاٹا گیا (اکشے کو معلوم تھا کہ مجھے چاکلیٹ کیک پسند ہے)۔ایسی واقعات بارے سوچ کر انسان دنیا بارے سوچتا رہ جاتا ہے کہ یہ کیسے چل رہی ہے۔

شیام کی مشہور فلموں میں گوانڈھی (1942)،من کی جیت (1944)، مجبور (1948)،بازار (1949)،چاندنی رات (1949)،دل لگی (1949)،پتنگا (1949)، رات کی رانی (1949)،مینا بازار (1950)،سمادھی (1950)سنگیتا (1950)،اورشبستان (1951) شامل ہیں۔

میں نے آج تک ایسی کتاب نہیں پڑھی جس میں کسی شخصیت کے اس قدر متنوع پہلو بیان کئے گئے ہوں اور تقسیم کی شکل میں ان کا پس منظر بھی بیان کیا گیا ہو کہ کس طرح تقسیم نے عام مگر سلجھے ہوئے لوگوں کو گھر سے بے گھر کیا،زندگیوں کو المئے میں بدل دیا،اور انہیں نئے سرے سے زندگیاں شروع کرنی پڑیں۔ شیام کی یہ سوانح عمری ایک شاہکار کتاب ہے۔

Ishtiaq Ahmed
+ posts

اشتیاق احمد پروفیسر امریطس آف پولیٹیکل سائنس، سٹاک ہولم یونیورسٹی ہیں۔وہ نیشنل یونیورسٹی سنگا پور کے انسٹی ٹیوٹ آف ساوتھ ایشیا میں آنریری سینئیر فیلو بھی ہیں۔