پاکستان

بلوچستان یونیورسٹی کا ویڈیو سکینڈل

محمد اکبر نوتزئی

گزشتہ سال 16 اکتوبر2020 کو عدالت روڈ پر ایک دو منزلہ عمارت کی پہلی منزل پر واقع کانفرنس روم یونیورسٹی آف بلوچستان (یو او بی) کے پروفیسرز اور لیکچررز سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یہ صورتحال یونیورسٹی میں جنسی طورپر ہراساں کرنے کے سکینڈل کے عوامی سطح پر اس خبر کے ساتھ ظاہر ہونے کے بعد کی تھی کہ ادارے میں طالبات کی ‘قابل اعتراض’ ویڈیوز انہیں بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی تھیں۔

بلوچستان ہائی کورٹ کی جانب سے واقعہ کی محکمانہ تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جولائی میں سنڈیکیٹ کے 88ویں اجلاس کے دوران یونیورسٹی انتظامیہ نے دو ملزمان سابق چیف سکیورٹی آفیسر محمد نعیم اور سکیورٹی گارڈ سیف بلوچ کو برطرف کرنے اور سابق رجسٹرار طارق جوگیزئی اور ٹرانسپورٹ آفیسر شریف شاہوانی کی تنخواہوں میں دو سال کے اضافے کو روکنے کا فیصلہ کیا۔

‘ڈان ’کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ویڈیو اسکینڈل صرف ‘ٹپ آف دی آئس برگ’ ہے۔ طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ متعدد انٹرویوز کیمپس میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے کلچر کی نشاندہی کرتے ہیں، جس میں فحش تبصرے اور پیچھا کرنے سے لے کر حملہ کرنے کی کوشش تک شامل ہے۔ واضح طور پر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیمپس میں چند ہفتوں میں کلاسوں کے دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے، بلوچستان حکومت طالبات کے تحفظ کے لیے ماحول کو مزید سازگار بنانے کے لیے اقدامات کر سکتی ہے۔

16 اکتوبر کی پریس کانفرنس میں بلوچستان یونیورسٹی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے ممبران نے ویڈیو اسکینڈل سے خود کو دور کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فیکلٹی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک پروفیسر نے وہاں موجودصحافیوں کو یقین دلایا کہ یونیورسٹی ان کے گھر کی طرح ہے اور طلبہ اپنے بچوں کی طرح۔

جب جویریہ* نے پریس کانفرنس کی خبر پڑھی تو وہ غصے سے بھڑک اٹھیں۔ انہوں نے شدید غصے میں کہا کہ ‘بچے میری جوتی! کیا بچوں کو ان کے والدین جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں؟’

یونیورسٹی پروفیسرز میں سے ایک جویریہ کے والد کے دوست ہیں، اس لیے ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب سے زیادہ چونکا دینے والا تھا۔ جو کچھ ہوا اس کے بارے میں بولنے کی ہمت پیدا کرنے میں انہیں کئی منٹ لگے۔وہ کہتی ہیں کہ‘ایک دن میں اس پروفیسر کے ساتھ اپنے ڈیپارٹمنٹ سے نیچے آ رہی تھی۔اچانک جب آس پاس کوئی نہیں تھا، اس نے اپنا بازو میرے کندھے کے گرد رکھا اور زبردستی مجھے چومنے کی کوشش کی۔’

وہ اسے دور دھکیلنے میں کامیاب ہو گئیں، لیکن جو کچھ ہوا اس سے پریشان ہو کر وہ اس کے سامنے رونے لگیں۔ پروفیسر کوئی حرکت یا بات چیت کئے بغیر وہاں سے ایسے چلا گیا، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

اپنی بہن پر اعتماد کرنے کے علاوہ جویریہ نے اس واقعہ کا ذکر کسی اور سے نہیں کیا اور اس حقیقت کے باوجود کہ ان کے داخلے کی رسید ابھی تک اس کے پاس تھی، وہ ٹیچر سے دور ہی رہیں۔

ویڈیو اسکینڈل کے بعد اساتذہ، طلبہ اور سیاسی کارکن سڑکوں پر نکل آئے۔ تاہم یونیورسٹی کی طالبات کے انٹرویوز سے پتہ چلتا ہے کہ انسداد ہراسگی مہم میں پیش پیش کچھ فیکلٹی ممبران سمیت کچھ مرد مظاہرین نے خود ہی طالبات کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا ہے۔

ایک دن جب وہ امتحان میں بیٹھی تھیں تو ان کا ایک پروفیسر ان کے پاس آیا۔ وہ بے حیائی سے ان کی ران کو چھوتے ہوئے ان سے پوچھنے لگا کہ ‘میرے سوالیہ پرچے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟’ پھر دھیمی آواز میں انہیں خبردار کیا کہ ان کے امتحانی نمبراس کے ہاتھوں میں ہیں۔ اس کے بعد اس نے جویریہ کے چہرے کے خدوخال کی ‘تعریف’ کی اور مزید کہا کہ وہ ایسی خوبصورتی کو کبھی نہیں بھول سکتا۔

کئی طالب علموں کا کہنا ہے کہ دفتری عملہ بھی طالبات کو ہراساں کرنے میں برابر کا قصوروار ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ نوجوان خواتین پران کا کردار خراب ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ محکمہ کے ایک کلرک نے جویریہ کو بتایا کہ اگر وہ اس کا خیال رکھیں گی تو وہ ان کیلئے سوالیہ پرچے لیک کر سکتا ہے۔ ایک دن اپنے دفتر میں اس نے جویریہ کا ہاتھ زور سے پکڑ لیا اور اصرار کیا کہ وہ اس سے سم کارڈ لے لیں۔جویریہ نے بتایا کہ ‘پھر اس نے کمرے کو لاک کرنے کی کوشش کی۔’ تاہم خوش قسمتی سے وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئیں۔ انکا کہنا تھا کہ ‘ایک اور کلرک نے مجھے یونیورسٹی میں اپنے منگیتر کے ساتھ دیکھنے کے بعد بد کردار لڑکی کہا۔’
جویریہ کے خدوخال شیعہ ہزارہ سے ملتے جلتے ہیں، حالانکہ وہ اس نسلی گروہ سے نہیں ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہزارہ لڑکیاں خاص طور پر یونیورسٹی میں ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں، کیونکہ وہ بہت زیادہ ستائی گئی اقلیت کی رکن ہیں۔ پیچیدہ معاملات میں انہیں ہزارہ مردوں کا ‘تحفظ’ بھی حاصل نہیں ہو سکتا، جن میں سے صرف چند ایک ہی سریاب روڈ پر واقع یونیورسٹی جانے کا خطرہ مول لیتے ہیں، کیونکہ یہ جگہ فرقہ وارانہ قتل و غارت کیلئے مشہور رہی ہے۔

ایک طالبہ یاسمین بلوچ* پروفیسر کے دفتر میں کئی دوسری نوجوان خواتین کے ساتھ بیٹھ کر اپنی پڑھائی کے بارے میں بات کرنے کے ایک واقعے کو یاد کرتی ہیں۔وہ جملے کستا رہا کہ کس طرح اتنی خوبصورتی میں گھرے رہنے کی وجہ سے وہ اس کی زندگی کا خوشگوار لمحہ بن گیا تھا۔ یاسمین کہتی ہیں کہ اس (پروفیسر) نے ایک ہزارہ طالبہ کو مخاطب کر کے کہا کہ‘آپ انار کی طرح سرخ نظر آتی ہیں، اس لیے میں آپ کے لیے انار کا رس منگواتا ہوں۔’ ان کے مطابق پروفیسر ایک ہزارہ لڑکی کی گود میں بھی بیٹھ گیا۔‘اس نے ایسا کیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ اس سے بچ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے اسے ہمارے سامنے بوسہ بھی دیا۔’

ایک اور ہزارہ طالبہ ‘ڈان ’کو یونیورسٹی کے ایک سینئر پروفیسر کے بارے میں بتاتی ہیں کہ جو روزانہ کی بنیاد پر انہیں اپنی تصویریں واٹس ایپ کرتا رہتا تھا۔ پھر اس نے قابل اعتراض ویڈیوز اور تصاویر بھیجنا شروع کر دیں۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا نمبر مستقل طور پر بند کردیا۔

اس کے بعد پروفیسر خان* ہے جو اپنی میز کی دراز میں پرفیوم کی ایک بوتل رکھتا ہے، اور اسے ان طالبات کو پیش کرتا ہے جو پڑھائی کے سلسلے میں اس سے ملنے پر جاتی ہیں۔بیچلر کی طالبات معصومہ* اور رابعہ* کے مطابق، وہ طالبات کو اپنے قریب بیٹھنے پر اصرار کرتا ہے۔ ان میں سے ایک کا کہنا ہے کہ‘وہ پرفیوم چھڑک کر آنے والی لڑکیوں کو پسند کرتا ہے۔پھر وہ ہمیں سر سے پاؤں تک ہوس بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔’

خود ایک پروفیسر کی بھانجی معصومہ* نرم مگر صاف آواز میں بتاتی ہیں کہ پروفیسر خان نے انہیں کس طرح ہراساں کیا۔ وہ لڑکیوں کے ہاسٹل جاتے ہوئے ان کا پیچھا کرتا، اور ان کاموبائل فون نمبر مانگتا۔انکا کہنا تھا کہ‘اس سے جان چھڑانے کیلئے ایک دن میں نے اسے بتایا کہ میرے چچا یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔اس کے بعد اس نے ہراساں کرنا ختم کر دیا۔’

اس کے بعد پروفیسر خان ان کی سہیلی رابعہ

اس کے بعد پروفیسر خان اپنی سہیلی رابعہ کا پیچھا کرنے لگا جو پردہ کرتی ہیں۔ایک دن اس نے اس سے پوچھا کہ‘تم مجھے اپنا چہرہ کیوں نہیں دکھاتی؟میں سمجھتا ہوں کہ تم ایک محتاط رہنے والی لڑکی ہو اور مجھ سے دوستی نہیں کر سکتی،لیکن تم مجھے دوسری لڑکی کا نمبر کیوں نہیں دیتی؟’

معصومہ نے پوچھا کہ ‘آپ اپنے ٹیچر سے دوستی کیسے رکھ سکتے ہیں؟ ‘ تاہم یہ سلسلہ وہیں نہیں رکا اور وہ اس سے بھی آگے کے مطالبے کرتے ہیں۔’

کچھ طالبات نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ڈویژن میں جنسی ہراسانی کی شکایات درج کرائی ہیں۔ ڈویژن کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو لکھے گئے خطوط میں سے ایک میں یونیورسٹی آف بلوچستان کے دو عہدیداروں کے نام ہیں ،جن پر طالبہ نے الزام لگایا ہے کہ وہ اس کی رضامندی کے بغیر لی گئی اس کی ‘نامناسب تصاویر’کی بنیاد پراسے بلیک میل کر رہے ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ذہنی اذیت اسے خودکشی کے خیالات لانے پر مجبور کر رہی ہے۔

دسمبر 2016 میں یونیورسٹی میں ایم فل کی ایک طالبہ نیلم مومل نے اپنی تین ساتھیوں کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کی ،جس میں انہوں نے اپنے ایم فل پروگرام کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر لیاقت ثانی پر ناپسندیدہ حرکات کا الزام لگایا۔ ‘ڈان ’کے ساتھ بات چیت میں نیلم نے الزام لگایا کہ اس نے جان بوجھ کر انہیں کم نمبر دیے ہیں ،کیونکہ انہوں نے اسے کوئی ‘مدد’ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

ڈاکٹر ثانی اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے نیلم کو امتحان کے دوران دھوکہ دہی کرتے ہوئے پکڑا تھا، جس کی وجہ سے وہ ان سے ناراض تھی۔

نیلم نے اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اقبال کو ایک تحریری شکایت جمع کرائی تھی، اور اس حقیقت کے باوجود کہ ورک پلیس پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف پروٹیکشن ایکٹ 2010 ء کے مطابق جنسی ہراسانی کے ہر الزام کی تحقیقات تین رکنی کمیٹی کے ذریعے کی جائیں، تاہم اس نوعیت کی شکایات پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

ڈاگ شوٹر

2 دسمبر کو ایف آئی اے نے اسکینڈل سے متعلق اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ اگرچہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان ہائی کورٹ کی طرف سے ایسا کرنے کا حکم ملنے کے بعد انہوں نے چار ماہ تک اس کیس کی تفتیش کی، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ایک بھی متاثرہ شخص ان تک نہیں پہنچا۔ زور دینے پر ایک عہدیدار نے انکشاف کیا کہ‘قابل اعتراض ویڈیوز کو بہت کم لوگوں نے دیکھا تھا۔خدا کا شکر ہے، وہ لیک نہیں ہوئیں۔ اگر ایسا ہوتا تو مجرموں میں سے کسی کو بھی نہ بخشا جاتا۔’

ایک اور عہدیدارکے مطابق‘ہم نے رپورٹ جمع کرائی، اور جج نے اسے یونیورسٹی کے حوالے کر دیا کہ وہ اس سکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف محکمانہ کارروائی کرے۔ اب یہ ان پر منحصر ہے۔’’

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ محکمانہ انکوائری کرنے کے ہائی کورٹ کے حکم کے جواب میں، جولائی میں یونیورسٹی کی 88 ویں سنڈیکیٹ میٹنگ کے شرکاء نے دو سکیورٹی اہلکاروں کو برطرف کرنے اور دو دیگر مشتبہ افراد کی دو سال کے لیے انکریمنٹ روکنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے یہ بھی سفارش کی کہ گورنر بلوچستان ، جو یونیورسٹی کے چانسلر ہیں، سابق وائس چانسلر جاوید اقبال کے خلاف جوڈیشل انکوائری شروع کریں اور ان کو دیئے گئے اعزازات واپس لیے جائیں، جن کی موجودگی میں ویڈیو اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ یونیورسٹی حکام کا دعویٰ ہے کہ سنڈیکیٹ کے پاس جاوید اقبال کے خلاف کارروائی کا اختیار نہیں ہے۔

اگرچہ یہ معلومات ‘بی بی سی اردو ’پر شائع ہوئی ہیں لیکن یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر شفیق الرحمان نے مسکراتے ہوئے ‘ڈان ’کے ساتھ اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کوئی تبصرہ اس لیے نہیں کر سکتے کیونکہ کیس زیر سماعت ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ‘میں نے اب کوویڈ 19 کی مدت کے دوران وائس چانسلر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا ہے۔ ویڈیو اسکینڈل جیسے واقعات کو دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے جو بھی اقدامات درکار تھے ،وہ میرے پیشرو کے دور میں کیے گئے ہیں۔’

ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر فرنٹیئر کور کے اہلکاروں کی موجودگی کے علاوہ کیمپس میں کیمرے لگائے گئے تھے۔ نگرانی کے کمرے کے سکیورٹی انچارج سیف بلوچ تھے۔ تفتیشی ایجنسی کے مطابق سیف بلوچ نے جوڑوں اور خاص طور پر ان لڑکیوں کو بلیک میل اور ہراساں کرنے کیلئے عہدے کا غلط استعمال کیا، جن اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ ‘قابل اعتراض’ سرگرمیاں سکیورٹی کیمروں میں ریکارڈہو چکی تھیں۔ ایف آئی اے کا دعویٰ ہے کہ اس نے سیف بلوچ کے موبائل سے ایسی ویڈیوز برآمد کی ہیں، ساتھ ہی ہارڈ ڈسک اور یو ایس بی فلیش ڈرائیو سے بھی برآمد ہوئی ہیں،جو اس نے اپنی بہن کے گھر چھپائی تھیں۔

اپنے بھائی ثناء اللہ اور ایک اور ساتھی کے ساتھ سیف بلوچ کے پاس یونیورسٹی کی ایک کینٹین چلانے کا ٹھیکہ بھی تھا اور وہ اکثر وہاں نظر آتے تھے۔

یاسمین بلوچ کا ڈپارٹمنٹ کینٹین کے قریب تھا اور وہ اکثر اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ وہاں جاتی تھیں۔ ایک دن انہوں نے سیف بلوچ کو ڈانٹ دیا جب انہوں نے اسے گھورتے ہوئے پکڑ لیا۔ یاسمین کے مطابق اس کے بعد تقریباً تین ہفتوں تک یونیورسٹی بس سے اترنے سے لیکر اپنے ڈیپارٹمنٹ تک پہنچنے تک وہ اپنی کالے شیشوں والی سفید کرولا میں انکا پیچھا کرتا تھا۔ سردیوں کی چھٹیاں آنے پر انہوں نے سکون کی سانس لی۔

واضح طور پر سیف بلوچ کو یہ یقین تھا کہ اس پر کوئی اصول لاگو نہیں ہوتا۔ مین آرٹس فیکلٹی کے سامنے ایک کھلا صحن ہے جس میں یونیورسٹی کے پروگراموں کے لیے اسٹیج ہے۔ عام طور پر یہاں کوئی بھی اپنی گاڑیاں پارک نہیں کرتا، لیکن اس پر کوئی پابندی نہیں تھی۔

کچھ طالب علم بتاتے ہیں کہ وہ بالی ووڈ فلموں کے ہیرو کی طرح سیاہ چشمے اور کمانڈو جیکٹ پہنے گھومتا رہتا تھا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک تصویر میں اسے سکیورٹی سرویلنس روم میں بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے، اس کی میز پر کئی ہتھیار بکھرے ہوئے ہیں، جن میں ایک اے کے 47، پستول اور 223 اور سنائپر رائفلز وغیرہ شامل ہیں۔

زوالوجی کے طالب علم زوہیب اسے ایک ایسے شخص کے طور پر یاد کرتے ہیں، جو یقین کرتا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں صرف ‘غیر اخلاقی رویے’ میں ملوث ہونے کے لیے یونیورسٹی آتے ہیں۔ ایک دن زوہیب اپنی ہم جماعت کے ساتھ ایک اسائنمنٹ پر بات کر رہے تھے، جب سیف 125 موٹرسائیکل پر واکی ٹاکی پکڑے نمودار ہوا اور ان پر افیئر کا الزام لگایا۔ ذوہیب بتاتے ہیں کہ‘میں نے اسے بتایا کہ وہ میری ہم جماعت ہے اور میرے لیے ایک بہن کی طرح ہے۔ لڑکی کے جانے کے بعد اس نے مجھے طعنہ دیتے ہوئے کہا:‘وہ کیا لڑکی ہے اور تم نے اسے اپنی بہن بنا لیا ہے!’’

ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی سال پہلے سیف بلوچ کو یونیورسٹی میں ‘ڈاگ شوٹر’ کے طور پر رکھا گیا تھا، جو آسامی بظاہر 2005 میں بغیر کسی نوٹیفکیشن کے اور خاص طور پر اس کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنائی گئی تھی۔ (یونیورسٹی کے دورے کے دوران یہ تاہم پتہ چلتا ہے کہ یونیورسٹی کے میدانوں میں اب بھی بہت سارے آوارہ کتے گھوم رہے ہیں۔) اس کی اکڑ اور چالبازیوں سے ناراض طلبہ میں سیف بلوچ کو اب بھی حقارت آمیز لقب‘کتا مار’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

‘ڈان ’نے سیف بلوچ کے بھانجوں میں سے ایک کا سراغ لگایا۔ وہ اپنے ماما (ماموں) کو ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک سادہ اور ان پڑھ آدمی کے طور پر بیان کرتا ہے۔ جب سیف بلوچ کے والد کا انتقال ہو گیا تو اس کی ماں نے، جس کے 8 بچے تھے، دوبارہ شادی کی۔ اس کا کہنا ہے کہ سالوں سے چلنے والی سیف بلوچ کی یونیورسٹی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار کے ساتھ دوستی نے اسے یونیورسٹی آف بلوچستان میں کیریئر بنانے میں مدد کی۔

ایک طالب علم کے مطابق‘سیف بلوچ اس (سینئراہلکار)کے اتنا قریب تھا کہ یونیورسٹی کے پروگراموں کے موقع پر (جب اعلیٰ سطح کی سکیورٹی تعینات کی جاتی تھی) وہ فون جیمراس کی پچھلی جیب میں ڈالتا اور اسے اپنے ہاتھ سے ہی واپس نکالتا تھا!’

‘ڈان ’کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق 2005 میں ڈاگ شوٹر کے طور پر ملازمت کرنے کے فوراً بعداسے چوکیدار (BPS-1) کے عہدے پر تعینات کیا گیا اور 27 جون 2008 کو سکیورٹی گارڈ (BPS-5) میں ترقی دے کر صرف تین سالوں میں گریڈ 1 سے گریڈ 5پر پہنچا دیا۔

آخری تقرری کو یونیورسٹی کے ایک پرانے ملازم محمد ناصر نے بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔اس نے الزام لگایا تھا کہ سیف کو غیر قانونی طور پر ترقی دی گئی تھی ،جب کہ اسے نوکری کے لیے پاس کیا گیا تھا۔ ایک بار اس نے الزام لگایا کہ سیف بلوچ نے اسے دھمکی دی کہ اگر اس نے کیس نہیں چھوڑا تو اسے جان سے مار ڈالیں گے۔ اسی کیس کی سماعتوں کے دوران ہی پہلی بار نشاندہی کی گئی کہ یونیورسٹی میں طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کیا جا رہا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بلوچستان ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو اس معاملے کی تحقیقات شروع کرنے کا حکم دیا۔

اس کے باوجود سیف بلوچ ترقی کی سیڑھی پر چڑھتا رہا۔ درحقیقت بلوچستان ہائی کورٹ کے سینئر ججوں میں سے ایک انتہائی الجھن میں یہ پوچھنے پر مجبورہوئے: ‘کیابلا ہے یہ سیف!؟’

20 جنوری 2015 کووائس چانسلر نے سیف بلوچ کوBPS-4 میں تنزلی کرنے کے عدالتی احکامات کے باوجود یونیورسٹی کی سیکیورٹی کی نگرانی کے اضافی چارج کے ساتھ ٹرانسپورٹ سیکشن میں ٹیکنیشن (BPS-13) کے طور پر تعینات کر دیا۔

6 نومبر 2016 کویونیورسٹی کی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی نے اسے ‘انچارج سکیورٹی سرویلنس روم’BPS-13تعینات کر دیا، یہ پوسٹ بھی اسی وقت تخلیق کی گئی تھی۔

اگرچہ بلوچستان ہائی کورٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالت نے 31 جنوری 2018 کو سیف بلوچ کی تقرری کے بارے میں تمام نوٹیفکیشنز کو ایک طرف رکھ دیا تھا، تاہم وائس چانسلر نے ایک بار پھر انہیں 27 جولائی کو سرویلنس روم کا انچارج بنا دیا۔ یونیورسٹی کے نوٹیفکیشن کے مطابق یہ تقرری ایک سال کی آزمائشی بنیادوں پر تھی۔

بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ ‘یہ بلی سے دودھ کی حفاظت کروانے کے مترادف ہے۔’

ایف آئی اے کی تحقیقات سے ایک چھوٹی سی کڑی کا پتہ چلا، جس کی قیادت مبینہ طور پر سیف بلوچ کر رہا تھا اور اس میں تین دیگر افراد ، یحییٰ، نعیم اور شریف شامل تھے، جو طلبہ کو بلیک میل کر رہے تھے۔ (بعد میں یحییٰ کا نام مشتبہ افراد کی فہرست سے خارج کر دیا گیا تھا۔) خیال کیا جاتا ہے کہ یونیورسٹی کے رجسٹرار طارق جوگیزئی کو ہونے والی وارداتوں کے بارے میں معلوم تھا چاہے وہ براہ راست ملوث نہ بھی ہوئے ہوں۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق سیف بلوچ نے خود یونیورسٹی میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب سمیت سکیورٹی کا نظام ترتیب دیا۔ ایف آئی اے کی انکوائری کے بعد اسے معطل کرنے کے علاوہ سکیورٹی گارڈ کے طور پر تنزلی کر دی گئی۔

کئی ناکام کوششوں کے بعد‘ ڈان ’نے بالآخر کئی مہینے پہلے ایک مختصر بات چیت کے لیے اس کا سراغ لگایا۔ وہ پرسکون اور پراعتماد طریقے سے کہتا ہے کہ ‘میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے جلتے ہوئے کوئلوں پر چل سکتا ہوں۔’ ہلکے بھورے رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس سیف بلوچ کی داڑھی اور مونچھیں قریب تر ہیں۔ وہ مختصر سا مسکراتے ہوئے کہتا ہے کہ ‘سوشل میڈیا پر جو کچھ کہا گیا ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ ’ ایش ٹرے میں سگریٹ پھینکتے ہوئے مزید کہاکہ ‘لوگوں نے جو چاہا کہا، اور یہ سب میرے خلاف تھا۔’ اس نے ویڈیو اسکینڈل میں کسی بھی کردار کی سختی سے تردید کی ہے۔

چھانگا مانگا کے راز

پنجابی لوک داستانوں کے مطابق چھانگا اور مانگا دو بھائی تھے۔ دونوں چور تھے، اور حکام سے بچنے کے لیے ایک گھنے جنگل میں چھپ جاتے تھے، جسے اب پنجاب میں چھانگا مانگا کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یونیورسٹی کے نئے تعمیر شدہ قابل تجدید توانائی کے شعبے کے سامنے دیودار کے درختوں، پودوں اور گھنی جھاڑیوں کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو بھی یہی نام دیا گیا ہے (کیمپس میں اسی طرح کے دیگر سبز علاقوں کو بھی چھانگا مانگا کہا جاتا ہے)۔ نومبر کے وسط میں ایک سرد اور ابر آلود دن میں چار لڑکیاں اس سبزہ گاہ کے ساتھ فرش پر بکھرے دیودار کے گھونگوں کو کک مار کر کھیل رہی ہیں۔

اس اسکینڈل سے بہت دور یہ ایک پر امن منظر ہے، جو یہاں سے شروع ہوا اور عوامی ڈومین میں پھٹ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ شادی کرنے والے جوڑے اکثر چھانگا مانگا کی رازداری میں ایک ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ شاید ان سے ناواقف، ویران علاقے میں حفاظتی کیمرے بھی نصب کیے گئے تھے: جگہ جگہ درختوں کو تراش دیا گیا تھا تاکہ کیمروں کو اردگرد کا صحیح نظارہ مل سکے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ چند نجی کیمرے بھی ویڈیو اسکینڈل کے مجرموں نے لگائے تھے۔

یونیورسٹی کے ذرائع کے مطابق ان علاقوں اور کیمپس کے دیگر مقامات پر جوڑوں کی خفیہ فلم بندی کے لیے کل 37 ویڈیو کیمرے تھے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نوجوان خواتین کو یونیورسٹی انتظامیہ کے بعض افسران طلب کریں گے اور مرد ہم جماعتوں کے ساتھ ان کی‘قابل اعتراض’ سرگرمیوں کی ویڈیوز دکھاتے تھے۔ ویڈیوز کو عام نہ کرنے یا ان کے اہل خانہ کو نہ بھیجنے کے بدلے میں وہ پھر انہیں پیسے یا جنسی خواہشات کے لیے بلیک میل کرتے تھے۔

بلوچستان ہائی کورٹ کی ہدایت پر ایف آئی اے نے یونیورسٹی کے 200 کے قریب اہلکاروں سے پوچھ گچھ کی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے 12 ویڈیوز کو ٹریس کیا، تاہم ایف آئی اے کے کچھ ذرائع نے ان کی تعداد 19 بتائی ہے، جنہیں طالبات کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

ایک فیکلٹی ممبر نے ‘ڈان ’کو بتایا کہ ایک صبح سویرے ایف آئی اے کی انکوائری شروع ہونے کے بعد انہوں نے ایک مبینہ مجرم کو ایک طالبہ سے اس کا شناختی کارڈ چھینتے ہوئے دیکھا۔ وہ شخص اسے ایک ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کر رہا تھا جس میں اسے بس پوائنٹ کے قریب اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ دکھایا گیا تھا ۔ فیکلٹی ممبر کا اندازہ ہے کہ وہ طالبہ کے دفتر آنے کی وجہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ وہ اسے قائل کر سکے کہ وہ ایف آئی اے سے بات نہ کرے۔ استاد کی مداخلت نے آدمی کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔

پاکستان سٹڈیز کے ایم فل کے طلبہ انتظامیہ کے بلاک کے سامنے باغ میں باقاعدہ گروپ سٹڈی سیشن کرتے ہیں جہاں سکیورٹی سرویلنس روم واقع ہے۔ ان طلبہ میں سے ایک یاد کرتی ہیں کہ ‘ایک دن جب ہم وہاں تھے تو ایک لڑکی ایڈمنسٹریشن بلاک سے باہر آئی۔ وہ رو رہی تھی اور کچھ دیر تک روتی ہی رہی۔ ہم نے اس سے پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ کیا ہوا ہے۔’

ایف آئی اے حکام کی طرح جنہوں نے میڈیا پر اس معاملے کو غیر ضروری ‘اچھالنے’ کا الزام لگایا، سابق قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر محمد انور پانیزئی ، جنہوں نے ڈاکٹر جاوید اقبال سے چارج لیا تھا، بھی اس کوریج سے ناخوش تھے اور انہوں نے فروری میں ڈان سے بات کرتے ہوئے اپنے جذبات کو واضح کیا۔ میڈیا کے ‘غیر ذمہ دارانہ’طرز عمل پر پانچ منٹ کے لیکچر کے بعد انہوں نے زور دے کر کہا کہ ادارہ ملوث افراد میں سے کسی کو بھی نہیں بخشے گا۔ انکا کہنا تھا کہ ‘انتظامیہ کے چار اہلکاروں کو (اس سے پہلے کہانی میں نعیم، یحییٰ، سیف اور شریف کے نام سے ان کا ذکر کیا گیا ہے) کو پہلے ہی معطل اور وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا جا چکا ہے۔ تاہم ایس او پی کے مطابق ہم سابق وائس چانسلر پروفیسر جاوید اقبال کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری نہیں کر سکتے۔ ایسا صرف گورنر بلوچستان ہی کر سکتے ہیں۔’

ڈاکٹر پانیزئی نے مزید کہا کہ کیمپس میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے الزامات کو دیکھنے کے لیے بنائی گئی یونیورسٹی کمیٹی بھی عدالت کے حکم کے مطابق معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ ‘میں امید کرتا ہوں کہ تحقیقات اپریل کے آخر تک مکمل ہو جائیں گی۔ جہاں تک ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا تعلق ہے، یہ ایف آئی اے اور بلوچستان ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنا اور سفارش کرنا ہے۔’

اسی وقت ‘ڈان ’کے ساتھ فون پر ہونے والی بات چیت میں سابق وی سی پروفیسر جاوید اقبال نے محض اس بات کی تصدیق کی کہ انہیں کوئی وجہ بتاؤ نوٹس موصول نہیں ہوا، اس کے علاوہ انہوں نے کسی بات کا جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی سوال ہے تو یونیورسٹی انتظامیہ سے پوچھا جائے۔

دریں اثناء یونیورسٹی کے نئے رجسٹرار کا کہنا ہے کہ عدالت کے حکم کے مطابق 26 غیر ضروری کیمرے ہٹا دیے گئے ہیں اور جہاں باقی کیمرے موجود ہیں وہاں طلبہ کو ان کی موجودگی سے آگاہ کرنے کے لیے نوٹسز لگا دیے گئے ہیں۔

مجرموں کے خلاف کارروائی سے قطع نظراس ویڈیو کے معاملے نے لڑکیوں کی تعلیم کے اسباب کو ایک دھچکا پہنچایا ہے ،جو پہلے ہی ملک کا ایک انتہائی قدامت پسند حصہ ہے۔ خواتین کے حقوق کی کارکن قمر النساء کے مطابق ‘بلوچستان کے تناظر میں یہ ایک خاصا افسوسناک سانحہ ہے جہاں لڑکیوں کی تعلیم کے اعداد و شمار پہلے ہی خوفناک ہیں۔جو کچھ ہوا ہے، اس کے بعد لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے یا ان کے والدین کی جانب سے انہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کی اطلاعات ہیں ۔

سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ میں زیر تعلیم دو کزنز کو ان کے خاندان نے اپنی پڑھائی چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ان سے ملاقات کی کوششیں ناکام رہیں کیونکہ وہ میڈیا سے بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ اس اسکینڈل کی خبر سامنے آنے پر نوشکی ضلع سے تعلق رکھنے والی ایک اور طالبہ کے والدین نے اسے یونیورسٹی میں تعلیم جاری رکھنے سے منع کر دیا۔

تاہم سابق قائمقام وائس چانسلر ڈاکٹر پانیزئیزیادہ پر امید نظریہ رکھتے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ‘اگر کوئی بلوچستان میں کسی لڑکی پر تیزاب پھینکتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسری لڑکیاں دوبارہ اس جگہ نہیں جائیں گی۔۔۔لوگ اس بازار میں جانا نہیں چھوڑتے جہاں ایک بار بم دھماکہ ہوا تھا۔ اسی طرح یونیورسٹی کا معاملہ لڑکیوں کو داخلہ لینے سے نہیں روکے گا، اور ہم نے اس کیس سے نمٹنے کی پوری کوشش کی ہے۔’

بلوچستان میں آبادی بکھری ہوئی ہے، اور بعض جگہوں پرگاؤں کے 15 میل کے دائرے میں لڑکیوں کا ایک بھی اسکول نہیں ہے۔ لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیمی ادارے اور بھی کم ہیں۔ پورے صوبے میں سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کے نام سے کوئٹہ میں خواتین کی صرف ایک یونیورسٹی ہے ۔ لڑکوں کے برعکس لڑکیوں کو ہاسٹل میں رہنے کی اجازت ملنا مشکل ہے۔ ایسا کرنے سے پہلے انہیں اکثر خاندانی مخالفت پر قابو پانا پڑتا ہے۔

سابق فیکلٹی ممبر پروفیسر ڈاکٹر زینت ثناء بلوچ نے خودیونیورسٹی آف بلوچستان میں تعلیم حاصل کی ہے اور اس کے جینڈر ڈویلپمنٹ اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ کچھ سال پہلے انہوں نے اپنے محکمے میں ایک فرد پر مشتمل اینٹی ہراسمنٹ سیل قائم کیا تھا۔ لڑکیاں وہاں شکایات درج کر سکتی ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ ذاتی حیثیت میں شکایات سے نمٹنے کی پوری کوشش کریں گی۔ تاہم کسی بھی مبینہ طور پر ہراساں کرنے والے کے خلاف کبھی کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی۔

ان کے مطابق بلوچ لڑکیاں سادہ لوح ہیں، جن میں سے اکثر صوبے کے اندرونی علاقوں سے آئی ہیں۔وہ نفرت انگیز انداز میں کہتی ہیں کہ ‘ان لڑکیوں کو اپنے ہی بلوچ بھائیوں کے ہاتھوں ہراساں کیا جاتا ہے جو ان کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

اینٹی ہراسمنٹ قانون جنسی ہراسانی کی شکایات کا جائزہ لینے کے لیے ہر کام کی جگہ/تعلیمی ادارے میں کم از کم ایک خاتون سمیت تین رکنی کمیٹی کو لازمی قرار دیتا ہے۔ یونیورسٹی آف بلوچستان نے اس سکینڈل کے پھٹنے کے بعد 16 اکتوبر کو اس طرح کی ایک کمیٹی قائم کی، حالانکہ اس میں دو خواتین سمیت پانچ اراکین شامل ہیں۔

اس کی چیئرپرسن ثوبیہ رمضان نے بتایا کہ انہیں دو شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں طالبات کے مرد ساتھیوں پر ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ مقدمات ایف آئی اے کے سائبر کرائم یونٹ کو بھیجے گئے۔ ان کے پاس جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا کوئی دوسرا واقعہ درج نہیں کیا گیا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ‘یہ ایک قبائلی معاشرہ ہے، اس لیے خواتین سوچتی ہیں کہ اس طرح کے واقعات کی اطلاع دینے سے ان کی بے عزتی ہوگی، حالانکہ یہ نظام خفیہ ہے اور متاثرین ای میل کے ذریعے بھی ہم تک پہنچ سکتی ہیں، جس کا پتہ ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے۔اگر ہمارے پاس کوئی کیس آتا ہے، تو ہم ابتدائی تحقیقات کریں گے اور(مجرم ثابت کرنے والے ثبوتوں کی صورت میں) اپنے نتائج بلوچستان ہائی کورٹ اور محتسب کو بھیجیں گے، لیکن اب تک ایسا کوئی معاملہ نہیں ہوا۔’

اس سے قبل یونیورسٹی آف بلوچستان میں میں 16 دسمبر 2016 کو اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ تاہم بعد میں اسے نامعلوم وجوہات کی بنا پر تحلیل کر دیا گیا تھا۔ اس باڈی کے پاس بھی کوئی شکایت درج نہیں ہوئی۔

حال ہی میں ایک صبح بی ایس کے داخلے کے دوران دو لڑکیاں اپنی ماں کے ساتھ یونیورسٹی آف بلوچستان میں داخل ہونے کے لیے سریاب روڈ کراس کر رہی تھیں۔ تین لڑکوں نے اپنی گاڑی آہستہ کرتے ہوئے لڑکیوں پر سیٹیاں بجائیں۔ انہیں نظر انداز کرتے ہوئے اور ڈاکٹر پانیزئی کے ان الفاظ کی تصدیق کرتے ہوئے وہ خواتین یونیورسٹی میں داخل ہوگئیں، کہ دھماکے اور تیزاب کے حملے لوگوں اور طالبات کو دوبارہ اسی جگہ جانے سے نہیں روک سکتے۔ تاہم یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ طالبات یونیورسٹی آف بلوچستان میں کلاسیں شروع کرنے کے بعد محفوظ رہیں گی؟

Akbar Notezai
+ posts

اکبر نوتزئی کوئٹہ میں رہتے ہیں اور روزنامہ ڈان سے منسلک ہیں۔