فیصل آباد(پ ر)ممبر پتن کولیشن 38بابا لطیف انصاری کی جانب سے پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی دن کے موقع پر 8 اکتوبر 2005ء کو ہونے والی ہلاکتوں اور تباہی کو یاد کرتے ہوئے یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ گزشتہ 19 سالوں کے دوران آنے والی حکومتیں بڑے پیمانے پر انتظامی ڈھانچے اور وسیع قانونی، مالی معاونت کے ساتھ ساتھ وفاقی سطح پر جدید ترین پالیسیوں / منصوبوں کے باوجود ملک بھر میں ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کو بہتر بنانے میں بری طرح ناکام رہیں۔ صرف اس لیے کہ ریاستی بیوروکریسی نے مقامی یا کمیونٹی کی سطح پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈھانچے قائم کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا۔ یہ پتن۔کولیشن38 کے سروے ریسرچ کا خلاصہ ہے۔ اس سے قبل جولائی 2024 میں پتن۔کولیشن38 نے پری مون سون سروے کیا تھا جس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی تھی کہ صوبائی اور ضلعی سطح کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ حکام نے انتہائی ضرورت کے وقت کمزور اور پسماندہ طبقات کو اکیلا چھوڑ دیا ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی ویب سائٹ کودیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ادارہ آفات کی کمی اور بہترمینیجمنٹ کے لحاظ بہت اچھی طرح کام رہا ہے مگر بدقسمتی سے یہ صرف ویب سائٹ کی حد تک ہے۔ تاہم، اس میں انتہائی اہم عناصر کا فقدان ہے جیسے آفات کے خطرے کو کم کرنے کے لئے منصوبہ بندی اور نفاذ میں آفات سے متاثرہ طبقات کی عدم شرکت۔ اس بات کو اجاگر کرنا انتہائی ضروری ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ، پالیسی اور پلان کمیونٹی کی شرکت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم این ڈی ایم اے پلان تھری کے نفاذ کے لیے این ڈی ایم اے کے تفصیلی کردار اور ذمہ داری میٹرکس میں واضح طور پر اس کی اہمیت کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
ہمارے سروے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے بھی یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ سروے میں شامل دو تہائی سے زائد جواب دہندگان نے کہا کہ انہیں کوئی پیشگی انتباہ یا الرٹ نہیں ملا، جبکہ 97 فیصد جواب دہندگان نے دعوی کیا کہ انہیں کسی بھی سرکاری محکمے سے کسی قسم کی مدد، تربیت یا آگاہی نہیں ملی۔
یہ سروے اسلام آباد سمیت خیبرپختونخواہ، پنجاب اور سندھ کے 20 اضلاع میں 32 قدرتی آفات سے متاثرہ مقامات پر کیا گیا۔ اچھی طرح سے تربیت یافتہ سروے ٹیم نے 503 جوابدہندگان (310 مرد اور 193 خواتین) کے ایک منظم سوالنامہ کا استعمال کرتے ہوئے باقاعدہ انٹرویو کیے۔ سروے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ حالیہ مون سون سیزن کے دوران 475 گھرانوں کو ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مزید برآں، 471 جواب دہندگان نے بتایا کہ ان کے گاؤوں یا پڑوس کی آبادیوں کو دریائی سیلاب، رودکوہیوں، طوفانی بارشوں، شہری سیلاب، نکاسی آب کے ناقص نظام اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے کافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
متاثرہ آبادیوں کو مختلف قسم کے چیلنجوں اور نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ سروے کے مطابق، 342 جواب دہندگان نے بتایا کہ حالیہ مون سون میں انکے گھروں کو شدید نقصان پہنچا، 329 نے کہا کہ انکی کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا، 260 جواب دہندگان نے کہا کہ ہمیں قیمتی گھریلو سامان کا نقصان اٹھانا پڑا،225 گھروں نے مویشیوں کو کھو دیا، 160 نے کاروباری نقصان کا ذکر کیا، 174 نے اناج اور چارے کے نقصان کے بارے بتایا اور 158 نے کہا کہ سڑکوں، اسکولوں، اسپتالوں، مذہبی / عبادت گاہوں اور بجلی اور گیس کی لائنوں سمیت بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا۔
بدقسمتی سے، 24 فیصد جواب دہندگان نے حالیہ مون سون کے دوران انسانی جانوں کے ضیاع یا زخمی ہونے کا ذکرکیا۔
دو تہائی سے زیادہ جواب دہندگان (68 فیصد) کو کوئی پیشگی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ جن لوگوں کو پیشگی اطلاع کے پیغامات موصول ہوئے انہوں نے پیغامات کی مناسب تفہیم کی کمی کی شکایت کی۔ سروے میں حصہ لینے والے 97 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ ہنگامی منصوبہ بندی کے لیے ان سے کبھی مشاورت نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی ہنگامی صورتحال یا آفت سے نمٹنے کے لیے کوئی تربیت حاصل دی گئی۔
جواب دہندگان کی ایک بڑی تعداد (42 فیصد) نے نشاندہی کی کہ مقامی حکومتیں ان کے علاقے میں موجود نہیں ہیں اور جہاں موجود ہیں، فنڈز اور اختیارات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کے پاس کام کرنے کی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ اٹھارہ فیصد (18 فیصد) جواب دہندگان نے نقصانات کا ذمہ دار مقامی ارکان پارلیمنٹ کو ٹھہرایا جبکہ 15 فیصد نے صوبائی حکومت پر انگلیاں اٹھائی۔ تقریبا ایک تہائی نے تباہ کن سیلاب اور نقصانات پر وفاقی حکومت اور اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
جواب دہندگان کی اکثریت این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے، ڈی ڈی ایم اے، ایف ایف سی اور پی ڈی ایم جیسے قدرتی آفات کے خطرات کو کم کرنے کے ذمہ دار حکومتی اداروں سے واقف ہی نہیں ہیں۔ تاہم 68 فیصد جواب دہندگان ریسکیو 1122 کے نام سے واقف تھے۔
سروے کے نتائج واضح طور پر تمام صوبوں میں منتخب مقامی حکومتوں کے قیام پر زور دیتے ہیں تاکہ انہیں مالی، انتظامی اور سیاسی طور پر خود مختار بنا کر خطرات اور آفات سے نمٹا جا سکے۔ اور بہت ضروری ہے کہ قدرتی آفات کے خطرے کو کم کرنے کی قومی پالیسیوں اور منصوبوں کی تیاری میں متائثرہ کمیونیٹیز کو بھی شامل کیا جائے۔ سروے میں قدرتی آفات کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کے لئے متعلقہ حکام کی طرف سے موثر مواصلاتی حکمت عملی کی ضرورت کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جسے قومی ڈیزاسٹر مینجمنٹ پالیسی میں بھی اولین ترجیح دی گئی ہے۔ اسکے علاوہ رائے دہندگان مشورہ دیا کہ زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیرکیئے جائیں، شہروں میں نکاسی آب کے نظام کو بہتر کیا جائے، پانی کی قدرتی گزرگاہوں میں غیرقانونی تجاوزات ختم کیئے جائیں اور شہروں کے اندر سے گزرنے والے برساتی نالوں جیسا کہ نالہ لائی کو باقاعدگی سے صاف کیا جائے۔