دنیا

چینی سامراج ابھی زیر تعمیر ہے: چوتھی انٹرنیشنل

(مندرجہ ذیل دستاویز، چوتھی انٹرنیشنل کی قیادت کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔ اگلے ماہ چوتھی انٹرنیشنل کی عالمی کانگرس بلجئیم میں منعقد کی جا رہی ہے۔ یہ ڈرافٹ دستاویز کی چوتھی قسط ہے۔اس دستاویزپر کانگریس میں بحث کی جائے گی۔ ترجمہ عدیل اعجاز،فاروق سلہریا)

چین کی موجودہ نوعیت

چین کی پچھلے 30 سالوں میں ”بڑی زقند” (great leap)کی نوعیت سرمایہ دارانہ تھی۔ ابھرتا ہوا چینی سامراج ایک عظیم سماجی انقلاب کا وارث ہے جہاں 1980 کی دہائی سے سرمایہ داری کی بحالی ہو رہی ہے۔یہ بحالی دنیا کے نیو لبرل ڈیزائن کے لیے ضروری تھی (یہ بحالی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ شراکت داری میں کی گئی)۔یہ ابھرتا ہوا چینی سامراجی نظام اپنے مخصوص خصائص رکھتا ہے جیسا کہ تمام سامراجی نظاموں میں ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد ایک ریاستی سرمایہ داری(سٹیٹ کیپٹل ازم) ہے جو کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی سی پی) اور پیپلز لبریشن آرمی کے اداروں میں مرکوز ہے اور یہی ادارے اس کی ریاستی سرمایہ داری کی منصوبہ بندی (پلاننگ)کرتے ہیں۔

یہ developmental capitalism ہے جو کھل کر developmentalist پالیسیاں اپناتی ہے اور یوں زیادہ تر بڑی کمپنیاں ریاستی یا ریاست کے زیرِ کنٹرول اداروں اور نجی کمپنیوں کے مشترکہ منصوبے (جائنٹ وینچرز)ہیں۔

ابھرتا ہوا چینی سامراج ابھی تک مکمل طور پر قائم نہیں ہوا ہے۔ پچھلے 10 سالوں میں چین نے سرمائے کی برآمد میں ایک بڑی زقند بھری ہے۔ اس نے توانائی، کان کنی اور انفراسٹرکچر کمپنیوں میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے جو نوآبادیاتی ممالک (جنوب مشرقی ایشیا، وسطی ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ) میں ہیں۔ چین دنیا کا سب سے بڑا پیٹنٹ فائلر اور رجسٹرارنٹ (Registrant) بن چکا ہے۔ 2022 سے، چین خالص سرمائے کی خالص برآمدکر رہا ہے (چین جتنا سرمایہ درآمد کرتا ہے، اس سے زیادہ برآمد کرتا ہے)۔ اس نے ہتھیاروں میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔

چین نے ایک لکیر (یا کئی لکیریں) کھینچ رکھی ہیں اور اس نے کھل کر اعلان کر رکھا ہے کہ اس کے حریفوں اور کمزور ریاستوں کو یہ لکیریں عبور نہیں کرنا چاہیں۔ تائیوان اور ساوتھ سی (South Sea) اس کی دو مثالیں ہیں۔ چین نے ابھی تک ”یورپی یا امریکی ماڈل” کے مطابق کسی دوسرے ملک پر حملہ یا قبضہ نہیں کیا ہے البتہٰ اس کی پالیسی زیجیانگ کے بارے میں (اور ہندوستان اور بھوٹان کے ساتھ تاریخی طور پر متنازعہ چھوٹے علاقوں کے بارے میں) بنیادی طور پر نوآبادیاتی ہی ہے۔

سامراجی روس

آج کی روسی ریاست سابق سوویت یونین کی بنیادوں کی وسیع تباہی،اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی افراتفری اور غیر مرکزی انداز میں ہونے والی سر مایہ دارانہ بحالی کے بعد وجود میں آئی۔اس روسی ریاست کی تشکیل میں ایک عنصر یہ تھا کہ بیوروکریٹس جو اولیگارک(Oligarch) بن گئے،انہوں نے نئے پرانے کاروبار پر قبضہ کر لیا۔ 20ویں صدی کے آغاز میں، پیوٹن اور اس کے گروپ نے، جن کا تعلق جبر کرنے والے یا سراغ رساں اداروں سے تھا،روسی سر مایہ داری کو از سر نو سنٹرلائز کرنے کا منسوبہ بنایا۔ اس کے لئے انہوں نے روسِ اکبر کے قدیم قومی-سامراجی نظریات کی 21ویں صدی کی ورژن کا استعمال کیا۔اس کے علاوہ اولیگارکس کے مابین بونا پارٹ اسٹ تعلقات کو استعمال میں لائے۔ یہ روسی طریقہء سرمایہ داری دوسرے سامراجی طاقتوں کے ساتھ مقابلہ میں دوبارہ استحکام دینے کے لیے اہم آلے میں تبدیل ہو گیا، اور وفاق کے عوام، بشمول روسی عوام، کے خلاف جبر میں معیاراً اضافہ ہوا۔ پیوٹن کے انتہائی جابرانہ نوعیت کے رجیم کو ہم فاشزم کی طرف پیش قدمی قرار دے سکتے ہیں۔

روس یوکرین پر حملے کی کئی سالوں کی تیاری کر رہا تھا۔ یہ حملہ روسی سلطنت کو اسٹالن دور کے سوویت یونین کی سرحدوں میں بحال کرنے کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ تھا۔ لیکن اس میں زار شاہے سلطنت کو ایک حوالہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ پیوٹن کے لیے، یوکرین کا وجود صرف ایک انحراف تھا جس کے لئے لینن کو مورد الزام ٹھرایا گیا اور اسے دوبارہ روس کے دائرے میں شامل کرنا از حد ضروری تھا۔ 2014 میں ڈومباس، لوہانسک اور کریمیا پہ فوجی قبضہ اس جنگ کا پہلا مرحلہ تھا۔ قرائن سے یہ بات پایہء ثبوت کو پہنچتی ہے کہ موجودہ ”خصوصی آپریشن” بہت تیز ہونا تھا اور کیف تک پہنچنا تھا، جہاں ایک ماتحت حکومت قائم کی جانی تھی۔ مغربی افواج، جو اس جنگی منصوبے سے بے خبر تھیں، انھیں اس سے بے خبر رکھنے کی مکمل کوشش بھی کی جا رہی تھی، تا کہ وہ محض اس عمل کے نتیجے کو تسلیم کر سکیں۔۔۔ لیکن یوکرینی مزاحمت اور ان کی مزاحمت کی قوت وہ بنیادی نوعیت کی چیز تھی جو پیوٹن کے توسیع پسندانہ منصوبے کی راہ میں حائل ہو گئی۔ یہ مزاحمتی عمل پیوٹن اور مغربی قوتوں دونوں کے لیے غیر متوقع تھا۔ اب یوکرین، روس اور مغرب کے درمیان طاقتوں کے تصادم کا ایک نقطہ بن چکا ہے۔

اپنی دفاعی تیاریوں کو مضبوط کرنے اور از سر نو منظم ہونے کے بعد، ماسکو یوکرین میں جنگ کا اصل محرک ہے۔ اس جنگ میں شمالی کوریائی گولہ بارود فراہم کر رہا ہے۔ بھارت یا چین (تیل کی مصنوعات کی فروخت کے ذریعے) مالی اعانت فراہم کر رہے ہیں۔یہ پالیسی کہ یوکرین کے لوگ اسے قسمت کا لکھا مان لیں،اس پالیسی کو اس نقطے تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یوکرینی بچوں کو روس جلا وطن کیا جائے جہاں روسی ماں باپ انہیں گود لے لیں۔

بحران کا شکار سامراج: امریکہ

نئے حریف پیدا ہو جانے سے امریکہ کی نیچر بدل نہیں گئی۔ بلاشبہ، یہ دنیا کا سب سے امیر اور طاقتور ملک ہے۔ فوجی طور پر بے مثال جنگی طاقت کا حامل۔ امریکی بورژوازی ایک ایسی بورژوازی ہے جسے اپنے ”تاریخی مشن” پر سب سے زیادہ پختہ یقین ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر کرہء ارض پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہے۔ اس غلبے کو تسلسل دینے کے لئے وہ جنگ کرنے پر بھی تیار ہے۔

مغربی سامراج جس collectivity (اشتراک) کا نام ہے، اس میں انکل سام کی بات کو ہی حرف آخر مانا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ، اگرچہ امریکہ سب سے بڑی طاقت ہے لیکن (کم از کم ویتنام جنگ کے بعد) اسے کبھی اس قدر شدید مسائل کا سامنا نہیں رہا:ایک سامراجی hegemony (چودہراہٹ)،دیگر پوچہراہٹوں کی طرح، صرف اس صورت میں برقرار ر کھی جا سکتی ہے جب آپ کے اتحادی بھی آپ کی بات کے قائل ہوں اور اپنے داخلی عوام بھی۔

امریکہ کو بیرونی محاذ پر اپنا جواز (legitimacy) تراشنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، اور یہ بات زیادہ سنجیدہ ہے، اندرونی محاذ پر بھی اس کے جواز پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ نوے کی دہائی میں جب بظاہر ’یونی پولر‘ دنیا تھی یا ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ ہو رہی تھی، تو یہ عنصر موجود نہ تھے۔

امریکی بزنس، بیوروکریسی اوراور سیاسی اشرافیہ پہلے سے کہیں زیادہ اس حوالے سے تقسیم ہے کہ اندرونی طور پر تسلط کیسے قائم رکھنا ہے۔

گزشتہ 40 سالوں میں امریکی معیشت کو جن ویلیو چینز (value chains)نے چین کے ساتھ جوڑ دیا ہے، ان ویلی چینز کو ختم کرنا ان کے لئے درد سر بن گیا ہے۔ اپنے نسبتی اقتصادی زوال (ریلیٹیو اکنامک ڈیکلائن) کے علاوہ، امریکہ ایک بورژوا جمہوری معاشرتی اور سیاسی نظام ہے۔ ٹی پارٹی اور ٹرمپ کے ریپبلکن پارٹی پر کنٹرول یہ رجیم بحران کا شکار ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ دنیا کی سب سے پرانی بورژوا جمہوریت کے اصولوں کو تبدیل کیا جائے جبکہ معاشرے میں تقسیم بڑھتی جاتی ہے۔ اس بحران کا رجحان ہے کہ یہ مزید گہرا ہوتا جائے گا۔الیکشن ٹرمپ جیتے یا ہیریس،امریکہ کمزور ہی ہو گا۔ یوں ایگزیکٹو، کانگریس اور عدلیہ کے درمیان تصادم ہو گا۔اس طرح امریکہ کے عالمی مقاصد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts