نقطہ نظر

عرب بہار کی واپسی!

مندرجہ ذیل انٹرویو معروف انگریزی جریدے ’ROAR‘ میں شائع ہوا۔

2018ءکے آخر میں سوڈان کی عوام جب عمر البشیر کی آمرانہ حکمرانی کے خاتمے کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر نکلی، اس سے 2010ء کی یادیںتازہ ہو گئیں جب محمد بوزیزی کی تیونس حکومت کے خلاف بطور احتجاج خودکشی نے عوامی بغاوت کا راستہ ہموار کیا اور خطے میں انقلابات کی لہر پیدا کر دی۔ اسے ’عرب بہار‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

کیا سوڈان میں بھی احتجاج اسی عمل سے گزرنے جارہا ہے؟ الجزائر، مصر، لبنان اور عراق میں بڑے پیمانے پر احتجاجی تحریکوں نے منظم شکل اختیار کر لی ہے۔ ہر تحریک کی اپنی مخصوص محرکات اور حرکیات ہوتی ہیں اور اسی طرح ان کی کامیابی کے بھی مختلف درجے ہیں۔ سوڈان اور الجزائر میں عوام نے اپنے اپنے آمرانہ حکمرانوں سے چھٹکارا پایا۔ لبنان میں حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔ مصر میں بغاوت مختصر عرصے سے جاری تھی اوراس پر پرتشدد دباوڈالا گیا تھا۔ عراق میں جاری پر تشدد واقعات نے پہلے ہی سینکڑوں مظاہرین کی جان لے لی ہے۔

’رور‘ (ROAR)کے مدیر جوریس لیورینک نے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز (SOAS) لندن یونیورسٹی، میںڈویلپمنٹ اسٹڈیز اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر جلبیر اشقر، جو عرب بہار اور خطے کی جغرافیائی سیاست سے متعلق متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں، کے ساتھ بات چیت کی۔

ہم مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں موجودہ بغاوت کی لہر کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں اور ان کی تاریخی مطابقت کیا ہے؟ ہر بغاوت کی منفرد حرکیات کیا ہیں اور ان کی وہ خصوصیات کون سی ہیں جو ان میں مشترک ہیں؟ کچھ احتجاجی تحریکوں نے تاریخی فتوحات کس طرح حاصل کیں، جبکہ دوسری تحریکوں کو زبردست انداز میں کچل دیا گیا؟ اس انٹرویو میں جلبیر اشقر تفصیل سے ان سوالوں کے جوابات دیتے ہیں۔

جوریس لیورینک: اس سال کے شروع میںجب سوڈان اور الجزائر کی عوام بڑے پیمانے پر سڑکوں پر نکلی تھی، یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ کیا ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ ’دوسری عرب بہار‘ کا آغاز ہے۔ اس کے بعد مصر، لبنان اور عراق میں بڑے پیمانے پر بغاوتیں پھوٹ پڑیں۔ ہر تحریک نے مختلف نتائج دیکھے۔ لبنان اور عراق کی خبریں بدستور آ رہی ہیں۔ آپ نے نشاندہی کی تھی کہ’ عرب بہار‘کی اصطلاح گمراہ کن ہے اور یہ کہ2011ء تا 2013ء کی بغاوتیں موسمی واقعات نہیں تھے بلکہ ایک طویل المدتی انقلابی عمل کا آغاز تھے۔ کیا آپ اس کی وضاحت کرسکتے ہیں؟

جلبیر اشقر: دنیا بھر میں اب جو واقعات ہم دیکھ رہے ہیں وہ دو مختلف سطحوں پر پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف تو نوآبادیاتی سرمایہ داری کا ایک عمومی بحران ہے جس کی وجہ سے 2008ء کی عظیم کساد بازاری ہوئی تھی۔ اس نے پوری دنیا میں متعدد سماجی مظاہروں کو جنم دیا۔ اسی طرح، ایک جانب دائیں بازو کی تنظیموں نے سیاسی انتشار کا اظہار کیا تو دوسری جانب کچھ ملکوں میںانقلابی بایاں بازو بھی متحر ک ہوا۔ حیرت کی بات ہے کہ ان ملکوں میں امریکہ اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔ اس عالمی ڈھانچے کے اندر واقعات کا سب سے زیادہ حیرت انگیز سلسلہ وہ ہے جو دسمبر 2010ء میں تیونس میں شروع ہوا تھا اور 2011ء میں پورے عربی بولنے والے خطے میں پھیل گیا تھا، جسے ’عرب بہار‘ کہا گیاتھا۔ میرا نقطہ یہ رہا ہے کہ عرب خطے میں انقلابی مدو جزر کے بارے میں کچھ خاص بات ہے۔ مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ کے عربی بولنے والے ممالک بہت ہی حیرت انگیز حد تک پہنچے۔

2011ء میں خطے کے چھ ممالک میں بڑی بغاوتیں دیکھنے میں آئیں۔ باقی سب کے سماجی مظاہروں میں بہت تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نیو لبرل ازم کے عمومی بحران نے عرب خطے میں اس کے ریاستی نظام کی مخصوص نوعیت سے متعلق ایک بہت ہی گہرے ساختیاتی بحران کا انکشاف کیا جو ریاستی نظام کے خاص مزاج سے متعلق تھا۔

خطے کی ترقی میں رکاوٹ کی ایک بڑی وجہ ریاستوں کا ”Rentier Patrimonial“ کردار بھی تھا۔ ”Patrimonial “سے مراد ان ریاستوں کو حکمران خاندان ذاتی ملکیت کے طور پر چلا رہے تھے۔ ایسی ریاستوں میں خطے کی آٹھ بادشاہتیں اور بعض جمہوریہ (ری پبلکس) بھی شامل ہیں۔

ترقی میں رکاوٹ کا سب سے خطرناک نتیجہ یہ ہے کہ عرب خطے میں کئی عشروں سے نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ رہی ہے جس نے پورے خطے میں معاشرتی بے امنی کا ایک زبردست دھماکہ کیاہے۔ اس بحران کو ایک ایسی انقلابی تبدیلی کے ساتھ قابو کیا جا سکتا ہے جوسیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچے کو بدل دے۔

یہی وجہ ہے کہ میں نے 2011ءکے آغاز سے ہی زور دیا تھا کہ یہ ایک طویل المدتی انقلابی عمل کا صرف آغاز تھا جو برسوں اور دہائیوں تک ہنگاموں کی صورت میں متبادل کے طور پر چلے گا۔ یہ تب تک جاری رہے گا جب تک کہ خطے میں کوئی بنیادی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ 2013ء میں شام، مصر، تیونس، یمن اور لیبیا میں ابتدائی انقلابی لہر حکومتوں کے ساتھ پنجہ آزمائی میں تبدیل ہوئی۔

2011ء میں بہت جوش و خروش کے دوران میں نے متنبہ کیا تھا کہ بہت زیادہ خوش فہمیوں کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس وقت میں یہ بھی کہتا رہا کہ ابھی اور ہنگامے پھوٹیں گے اورابھی اور ’بہاریں‘ آئیں گی۔ درحقیقت 2013ءکے بعد سے ایک کے بعد ایک ملک میں سماجی ہنگامے پھوٹ رہے ہیں۔ تیونس، مراکش، اردن، عراق اور سوڈان سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ پھردسمبر 2018ء کو، 2010ء کی بغاوت کی پہلی لہر کے آغاز کے ٹھیک آٹھ سال بعد، سوڈانیوں کی احتجاجی تحریک بغاوت میں بدل گئی۔ اس کے بعد فروری میں الجزائر، اب اکتوبر سے عراق اور لبنان ابل پڑے ہیں۔ عالمی میڈیا نے ’نئی عرب بہار‘ کی بات شروع کردی ہے۔ عرب خطے میں جو بات اب سامنے آرہی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بلاشبہ یہ طویل انقلاب کے لئے ایک انقلابی عمل ہے جس کا آغاز 2011ء میں ہوا تھا۔

کیا آپ عرب خطے میں مخصوص طویل المدتی انقلابی عمل کی کچھ خصوصیات بیان کرسکتے ہیں؟ ان سب مختلف قسم کی بغاوتوں میں کیا قدر مشترک ہے؟

ان میں جو چیز مشترک ہے وہ ہے ناقابلِ برداشت سماجی اور معاشی حالات کی ذمہ دار سیاسی حکومتوں کو مسترد کرنا۔ عرب خطے میں نوجوانوں کی بے روزگاری اس خطے میں نوجوان گریجویٹس کو متاثر کرتی ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ اس حقیقت کا اور نوجوانوں کی بغاوت میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے نمایاں کردار میں جو تعلق ہے وہ واضح ہے۔

فطری فرق سے ہٹ کر ہر ملک کو متاثر کرنے والے مخصوص مسائل کے ساتھ علاقائی بغاوتوں کے محرکات ایک سے ہوتے ہیں: معاشی حالتوں میں یکسر تبدیلی کے لئے معاشرتی مساوات کی آرزو، جسے مظاہرین ’سماجی انصاف‘ کہتے ہیں۔

وہ مناسب ملازمت کے ساتھ باوقار زندگی گزارنے کے ذرائع چاہتے ہیں۔ ایک اور مشترکہ موضوع آزادی اور جمہوریت ہے: سیاسی اور ثقافتی آزادیاں اور عوام کی خودمختاری۔

مظاہروں اور بغاوتوں نے بہت سی ثقافتی تخلیقی صلاحیتوں کونمایاںکیا ہے جیسا کہ عام طور پر انقلابی عمل کے دوران ہوتا ہے۔ کم از کم انقلابی عمل کے پر امن مراحل میں۔ میں نے حال ہی میں فرانس میں مئی 1968ءکے بارے میں ژاں پال سارتر کے اس جملے کا حوالہ دیا: ’طاقت میں تخیل‘۔

یہ اس خطے کی جدوجہد کی کچھ عام خواہشات اور خصوصیات ہیں۔ یہ نئی نسل نے سامنے رکھی ہیں۔

سوڈان اور لجزائر میں حالیہ بغاوتوں نے اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ طویل مدت سے براجمان مستند آمر رہنماوں کی برطرفی اور ان کے سیاسی نظاموں کو جمہوری بنانے کی سمت میں موڑ دیا ہے۔ یہ کہ قلیل مدتی فتوحات طویل مدتی میں کیسے تبدیل ہو پائیں گی؟ انہوں نے اب تک جو کچھ حاصل کیا وہ قابل ذکر ہے۔ سوڈان اور الجیریا میں بغاوت کی کامیابی کا راز کیا تھا؟ اور اگلے چند مہینوں اور شاید سالوں میں دونوں ممالک میں ہونے والی نقل و حرکت کے لئے درپیش چیلنجز کیا ہیں؟

الجزائر اور سوڈان میں بغاوت علاقائی انقلابی عمل کی جاری دوسری لہر کے دو بڑے واقعات ہیں۔ ان میں واضح مماثلتیں ہیں لیکن وہ ایک اہم حوالے سے مختلف بھی ہیں: جدوجہد کی قیادت۔ اس فرق کی وجہ سے دونوں ملکوں میں مختلف نتائج سامنے آئے گو دونوں ملکوں میں صدور نے استعفے دیے۔

سوڈان میں عمر البشیر نے ایک فوجی آمریت کی صدارت کی تھی جس نے 1989ءکے بعد سے اسلامی بنیاد پرستوں کے ساتھ قریبی اتحاد بنا رکھا تھا۔

الجزائر میں فوج نے 1999ء میں صدر کے طور پر ایک سویلین، عبد العزیز بوتفلیکہ، کو اقتدار دلایا تھا۔ دونوں ممالک میں عوامی بغاوت نے فوج کو صدر کو ہٹانے کا اشارہ دیالیکن یہ غیر معمولی فتوحات نہیں ہیں۔

اسی طرح کا واقعہ 2011ء میں تیونس میں پیش آیا تھا جہاں صدر کو سیکیورٹی ملٹری کمپلیکس نے ہٹادیا تھا۔ پھرمصر میں ایک ماہ بعد، صدر کو فوج کے ذریعے اسی طرح سے ہٹا دیا گیا تھا جو حال ہی میں سوڈان اور الجزئر میں بھی ہوا۔ تاہم، موخر الذکر دو ممالک کی عوامی تحریکوں نے مصری واقعات سے سبق سیکھا ہے۔ طویل انقلابی عمل بھی سیکھنے والے منحنی خطوط ہیں: مقبول تحریکیں گزشتہ انقلابی تجربات سے سبق سیکھتی ہیں اور یہ خیال رکھتی ہیں کہ پرانی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے۔

سوڈان اور الجزائر کی عوام فوجی نیٹ ورک کے جمہوری فریب میں نہ پھنسے جس میں مصری پھنس گئے تھے۔ جب فروری 2011ء میں مصر کی فوج نے حسنی مبارک کو اقتدار سے ہٹایا اور جولائی 2013ء میں اس کے جانشین محمد مرسی کا تختہ الٹ دیا تو عوام نے اس بات کا خیرمقدم کیا کہ فوج جمہوریت لانے والی ہے۔

سوڈان اور الجزائر کی عوام کو اس طرح کا کوئی فریب نہیں تھا۔ دونوں ممالک میں بغاوتیں فوج بارے شکوک کا شکار رہیں۔ انہیں معلوم تھا کہ فوج نے صدر کو ہٹاتے ہوئے صرف اپنے آمرانہ اقتدار کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ فوج کا صدر کو ہٹانا دونوں ملکوں میں قدامت پسند کُو تھا۔ اسے تواصلاح پسند بغاوت بھی نہیں کہہ سکتے۔ سوڈانیوں اور الجزائریوں نے یہ سمجھ لیا تھااور اپنی تحریک جاری رکھی۔

اب کئی مہینوں سے، الجزائر میں یہ رواج بن گیا ہے کہ وہ ہر جمعے کو زبردست عوامی مظاہرے کرتے ہیں اور فوج نے بحران سے نکلنے کی جو بھی تجویز پیش کی ہے اس کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں۔

لیکن ان دونوں تحریکوں کے مابین اہم فرق: واقعتاایک بہت اہم فرق یہ ہے کہ الجیریا میں عوامی تحریک کی کوئی تسلیم شدہ قیادت موجود نہیں ہے، جبکہ سوڈان میں واضح طور پر یہ موجود ہے۔

الجیریا میں فوج کی کمانڈ اس طرح برتاو کررہی ہے جیسے وہ عوامی تحریک کو نظرانداز کر سکتی ہے۔ انہوں نے دسمبر میں نئے صدارتی انتخابات کے لئے ایک تاریخ طے کی ہے حالانکہ عوامی تحریک اس کو غیر واضح طور پر مسترد کر رہی ہے۔ فوج بہرحال انتخابات کے ساتھ آگے بڑھنے کا عزم ظاہر کر رہی ہے لیکن یہ یقین نہیں ہے کہ وہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

اس وقت کوئی متفقہ عوامی نمائندہ ایسا موجود نہیں جو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اپنا مطالبہ سامنے رکھ سکے۔ لوگوں کا کوئی گروپ عوامی تحریک کے نام پر بات نہیں کر سکتا۔

سوڈان میں، اس کے برعکس، اس تحریک کی محرک قوت سوڈانی پیشہ ور افراد کی انجمن(ایس پی اے) ہے جو 2016ء میں اساتذہ، صحافیوں، ڈاکٹروں، وکلا اور دیگر پیشوں کی انجمنوں کے زیرزمین نیٹ ورک کے طور پر تشکیل دی گئی تھی۔ ایس پی اے نے فیصلہ کن انداز میں وہ بنیاد رکھی جو آخر کار اس عوامی بغاوت کا باعث بنی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک اتحاد تشکیل دیا جس میں ان کی انجمن، حقوق نسواں گروپ، چند سیاسی جماعتیں اور کچھ مسلح گروہ شامل تھے جو حکومت کے خلاف قومی سوال کے مسئلے پر جدوجہد کرتے تھے۔ یہ اتحاد بغاوت کی تسلیم شدہ قیادت بن گیا اور فوج کے پاس ان کے ساتھ بات چیت کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

کئی مہینوں کی جدوجہد کے بعد، جس میں کچھ افسوسناک واقعات بھی شامل تھے جب فوج کے ایک حصے نے خون خرابے سے اس تحریک کو دبانے کی کوشش کی تو دونوں فریقوں نے سمجھوتہ کرلیا جو صرف عارضی طور پر ہوسکتا ہے۔

میں نے اس صورتحال کو ” Dual Power“(جب طاقت کا ایک مرکز حکمران اور دوسرا عوام بن جائیں)کے طور پر پیش کیا۔ انھوں نے ایک گورننگ باڈی تشکیل دی جس میں دو مخالف قوتوں کی نمائندگی کی جاتی ہے: فوج اور عوامی تحریک۔ یہ کب تک ساتھ چلیں گے یہ بتانا مشکل ہے لیکن جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ زیادہ لمبا عرصہ یہ نہیں چلے گا۔ ان دونوں میں سے ایک بالآخر دوسرے پر فیصلہ کن طور پر غالب آ جائے گا۔ بہر حال، سوڈان میں تحریک نے پہلے ہی بہت کچھ حاصل کرلیا ہے اور سوڈان کی کامیابیاں لجزائر سے کہیں زیادہ ہیں۔ الجزائر میں فوج عوامی تحریک کو نظر انداز کررہی ہے یا نظرانداز کرنے کا بہانہ کر رہی ہے۔

سوڈان میں ایس پی اے کی تشکیل کردہ نچلی سطح کی سماجی تنظیم اس وقت بڑے پیمانے پر پروان چڑھی جب بغاوت شروع ہوئی۔ اس میں مختلف اتحادوں کے ساتھ آزاد یونینیں شامل ہوئیں۔ اس نے ملک کے زیادہ تر محنت کش طبقے کو منظم کیا۔ اس نوعیت کی قیادت، یونینوں اور انجمنوں کا یہ مربوط نیٹ ورک 2011ءسے خطے میں ابھرنے کے لئے سب سے اعلیٰ درجے کی قیادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک ’ماڈل‘ بن گیا ہے۔ عراق اور لبنان دونوں میں، نچلی سطح پر کوششیں جاری ہیں۔ سوڈانی ماڈل کی بات کی جا رہی ہے۔

ستمبر کے آخر میں مصر بھر میں مظاہرین صدر سیسی کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ اس بار، 2011ءکے برعکس، تحریک کسی بھی قسم کی سیاسی تبدیلی لانے کے لئے درکار تعداد کو متحرک کرنے میں ناکام رہی۔ سیسی کی سیکیورٹی فورسز نے اسے جلدی اور پرتشدد طریقے سے کچل دیا۔ مصر کو دیکھیں تو 2011ءاور 2019ءکے درمیان کیا فرق ہے؟ اور سوڈان اور الجزائر کے عوام سڑکوں پر قابض ہونے میں کیوں کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مصری بھائی بہن ناکام رہے؟ اس بار مصر میں کیا مختلف ہے؟

میں نے اوپر بھی اس فریب کا ذکر کیا ہے جس میں مصری عوام فوج کے بارے میں مبتلا تھے لیکن 2012ء میں، محمد مرسی کے صدر منتخب ہونے کے بعد اخوان المسلمین اقتدار میں آئی۔ ایک سال بعد مرسی کی حکومت کے خلاف ایک عوامی لہر نے جنم لیا اس بار فوج نے ترقی پسند قوت کے مقبول عام فریب کے ذریعے مرسی کا تختہ الٹا۔ اس بار وہم اور بھی مضبوط تھے کیونکہ اخوان المسلمین کے ایک سالہ اقتدار کے دوران ایک بہت بڑے خوف نے جنم لیا تھا۔

اس کا نتیجہ بالآخر 2014ء میں عبد الفتاح السیسی کے صدر منتخب ہونے میں نکلا جس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں۔ تاہم وہ بہت جلد اپنے پیشرووں سے بھی بدتر نکلا۔ سیسی نے سب سے زیادہ جابرانہ حکومت تشکیل دی ہے جو مصر نے دہائیوں میں نہیں دیکھی۔

یہ ایک آمرانہ نوآبادیاتی حکومت ہے جس نے آئی ایم ایف کی سفارشات کو پوری طرح اور بے دردی سے نافذ کیا جس سے بڑے پیمانے پر غربت اور زبردست افراط زر پیدا ہوا۔ اشیائے خورونوش، ایندھن اور ٹرانسپورٹ غرض تمام بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ عام طور پر لوگ اس صورتحال کے خلاف بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلتے ہیں لیکن وہ جبر سے ٹکرا کر مایوس ہو جاتے ہیں۔

2013ء میں اخوان المسلمین پر خونی جبر کے بعد سے جو دوسری بغاوت کا باعث بنا، مصر پر دہشت کی فضا طاری ہے۔ اس میں یہ حقیقت بھی ملحوظ رکھیں کہ عوام اس وقت حکومت کا کوئی متبادل نہیں دیکھ پا رہے۔ یہ مسئلے کا ایک اہم حصہ ہے اور یہ پھر قیادت کے اس اہم سوال کی طرف ہمیں لے جاتا ہے جو گروپوں، تنظیموں اور انجمنوں کے ذریعے سامنے آتی ہے۔

ستمبر میں سیسی کے خلاف متحرک ہونے کی حالیہ کوششیں نمایاں تھیں لیکن وہ آمرانہ حکومت کو ختم کرنے کے لئے درکار سطح تک پہنچنے میں ناکام ہو گئیں۔ ان کوششوں کو اس چیز کی ضرورت تھی جو 2011ء میں بہت کم وقت میں میسر آ گئی تھی۔ حالیہ احتجاج کا آغاز ایک نوجوان کاروباری شخص نے کیا تھا جو فوج کے ساتھ کاروبار کرتا تھا، بشمول سیسی کے ملازمین بھی۔

کسی وجہ سے وہ ان سے الگ ہو گیا اور سپین میں پناہ لے لی جہاں سے اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے بغاوت کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔

کمزوری کا ایک اور عنصر مصری بائیں بازو کی بہت بڑی غلطیوں سے پیدا ہونے والی میراث ہے۔ بائیں بازو کی اکثریت نے 2013ء میں بغاوت کی حمایت کی تھی جس سے یہ کافی حد تک بدنام ہوئے۔

مصر کو کس چیز کی ضرورت ہو گی، جیسے کہ ہم نے سوڈان میں دیکھا ہے، ایک نچلی سطح کے نیٹ ورک کی تشکیل جو آبادی کو متحرک کرنے اور اس کی نظر میں ایک متبادل فراہم کرنے کے قابل ہے۔ صرف اس صورت میں جب اس طرح کی کوئی چیز ابھر کر سامنے آئے گی تب ہی ایک عوامی تحریک اتنی طاقتور ہو گی کہ سیسی کو نیچے لائے۔

آپ کے آبائی ملک لبنان میں اس وقت شاید تاریخ کی سب سے بڑی عوامی بغاوت عروج پر ہے۔ اس تحریک نے حکومت کو پہلے ہی کچھ سخت ٹیکسوں کو کالعدم قرار دینے پر مجبور کردیا تھا جن کو وہ نافذ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے اور جس نے ابتدائی مظاہروں کو جنم دیا۔ وزیر اعظم حریری نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ یہ نمایاں کامیابیاں ہیں لیکن اس تحریک میں سست روی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے اور پورے حکمران طبقے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ موجودہ مظاہروں کی تاریخی مطابقت کیا ہے اور خطے میں پائے جانے والے طویل مدتی انقلابی عمل کے تناظر میں ہمیں ان کو کیسے سمجھنا چاہئے؟

پہلے مجھے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا چاہئے کہ موجودہ عوامی تحریک سب سے بڑی نہیں ہے جو لبنان نے حالیہ تاریخ میں دیکھی ہے۔ 2005ء میں شام کے تسلط اور شامی فوج کی موجودگی کے خلاف ایک بہت بڑی تحریک عمل میں آئی تھی جس نے دارالحکومت بیروت کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا لیکن ُاس وقت ملک فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم ہوگیا تھا۔ شیعہ آبادی شامی حکومت کی حمایت میںسامنے آ گئی تھی۔

موجودہ تحریک سب سے زیادہ متاثر کن رہی کیو نکہ یہ پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ واقعتایہ پہلا موقع ہے کہ بغاوت صرف ملک کے ایک حصے یا آدھے حصے تک ہی محدود نہیں ہے۔ پورا ملک اس میں شامل ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لبنان کے سیاسی نظام کی فرقہ وارانہ نوعیت کے باوجود تمام فرقے بھی اس میں شامل ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔

فرقہ واریت وہ کلیدی ذریعہ ہے جس کے ذریعے لبنان کے حکمران طبقے نے روایتی طور پر معاشرے کو کنٹرول کیا ہے اور معاشرتی جدوجہد کے عروج کو روکا ہے۔ سماجی جدوجہد کی گزشتہ لہروں کو فرقہ وارانہ تقسیم کے ذریعے ہی دبایا گیا۔ موجودہ تحریک کے بارے میں جو سب سے اہم بات ہے اور جو یکجہتی پیدا کرنے کا موجب ہے وہ یہ ہے کہ عوام بدعنوانی اور سماجی عدم مساوات کی پالیسیوں کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔ عوام ان سب سے تنگ آچکے تھے۔

اس تحریک میں مختلف سماجی گروہ شامل ہیں: غریب، بیروزگار، مزدور اور متوسط طبقہ۔ لبنانی ریاست اتنے برسوں سے اس قدر بد نظمی سے دوچار ہے کہ متوسط طبقے کے لوگ حکومتی نظام سے تنگ آچکے ہیں۔ وہ سب چاہتے ہیں کہ اس میں تبدیلی آئے۔

اس تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر اس کا سماجی طور پر مقابلہ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس طرح کی کوششوں کے پیچھے سب سے نمایاں حزب اللہ ہے، جو لبنان کے حکومتی اتحاد کا حصہ ہے۔ حزب اللہ ایک ممتاز رجعت پسند قوت کے طور پر سامنے آئی جس نے مظاہرین کو دھمکیاں دیں اور اقتدار کے موجودہ ڈھانچے کا دفاع کیا۔

اس تناظر میں بغاوت نے وزیر اعظم کا استعفیٰ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اسے ایک اہم فتح سمجھا جاتا ہے لیکن یہ صرف ایک پہلا قدم ہے۔ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ نئے انتخابات ایسی حکومت کی زیرنگرانی نہیں ہونے چاہیے جو پارلیمانی سیاسی جماعتوں کا کوئی اتحاد ہو بلکہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ’ماہرین کی حکومت‘ قائم کر کے نئے انتخابات کرائیں جائیں۔

لبنان میں بھی الجزائر کی طرح عوامی تحریک کو تسلیم شدہ قیادت نہیں مل سکی۔ سوڈانی تجربے سے متاثر ہو کر حالیہ دنوں میں تنظیم سازی کی طرف اہم اقدامات کئے گئے ہیں۔ بغاوت کے ابتدائی مرحلے میں ’قیادت کے بغیرتحریکیں‘ ٹھیک ہیں لیکن آگے بڑھنے کے لئے، تحریک کو کسی نہ کسی شکل میں منظم ہونا ضروری ہے۔ لیڈرشپ کی ضرورت ہے، کچھ کرشماتی رہنما یا ’ہراول پارٹی‘ کے معنی میں نہیں، لیکن نچلی سطح کی تنظیموں کے ایسے نیٹ ورک کے معنی میں جو اپنی امنگوں کی تکمیل کے لئے تحریک کو مربوط شکل میں آگے بڑھا سکیں۔

اس زاویے سے، مجھے توقع نہیں ہے کہ جلد ہی لبنان میں کوئی بنیادی تبدیلی واقع ہوگی۔ اس بہتر ابتدائی مرحلے پر، جس کی میں سب سے بہتر امید کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس پہلی ملک گیر عوامی بغاوت کے نتیجے میں تنظیمی ڈھانچے کی تشکیل کی صورت واضح ہو گئی ہے جس کی مدد سے مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے مستقبل میں فیصلہ کن جدوجہد ممکن ہو سکے گی۔

لبنان میں بعض گروہ، خاص طور پر حزب اللہ کے حامی، مظاہرین پر حملہ کر رہے ہیں اور احتجاجی کیمپوں کو نذر آتش کر رہے ہیں۔ عراق میں، ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا زیادہ تر ہلاکتوں کی ذمہ دار رہی ہے۔ ہم لبنان، عراق اور شام میں ایرانی حکومت کی شمولیت اور رابطوں کو جانتے ہیں۔ ایران‘ عراق اور لبنان دونوں میں احتجاجی تحریکوں کو دبانے کا خواہاں کیوں ہے اور آپ اس کو ترقی پذیر کیسے دیکھ رہے ہیں؟

ایران ایک مذہبی حکومت ہے۔ ویٹیکن کے علاوہ یہ دنیا کی واحد مذہبی ریاست ہے۔ یہ ایک علما کی حکومت ہے، ایک طرح کی ایسی حکومت ہے جو صرف شدید رجعت پسندی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ اگر یہ حکومت امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت کررہی ہے تواس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ترقی پسند ہے کیونکہ کچھ لوگ غلط فاسد اصول کے بعد غلط انداز میں یہ فرض کرتے ہیں کہ ’میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہے‘۔

اگر آپ واقعی ترقی پسند ہیں، اسرائیل اور امریکی سامراج سے اختلاف ہے تو ایرانی حکومت آپ کی دوست نہیں بن سکتی۔ ایران کی حکومت سامراج مخالف نہیں ہے۔ اصل میں، وہ اس اصطلاح کو استعمال نہیں کرتے۔ وہ ایک مذہبی فقرے کے ساتھ امریکہ کا حوالہ دیتے ہیں، ’عظیم شیطان‘۔

حکومت کا اپنا توسیع پسندانہ ایجنڈا ہے اور ایران ہمسایہ ملک عراق، شام، یمن اور لبنان میں فرقہ وارانہ نیم فوجی دستوں کی تشکیل کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ پھیلاتا ہے۔ اس طرح سے اپنا اثر و رسوخ پھیلانے میں، تہران کسی ترقی پسند ایجنڈے پر عمل پیرا نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایسی علاقائی سلطنت تشکیل دے رہا ہے جو ایرانی حکومت کی طرح نیو لبرل اور کرپٹ ہے۔

شام میں ایران نے 2011ء میں شروع ہونے والے انقلاب کے خلاف مداخلت کی۔ ایران اور اس کی علاقائی پراکسیوں نے شامی حکومت کی بغاوت کو خانہ جنگی میں تبدیل کرنے اور بالآخر اپنی اور روس کی مدد سے اس جنگ کو جیتنے کے قابل بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ توہین آمیز انقلابی مداخلت تھی جس کی حمایت کرنے والے اسرائیل اور امریکہ مخالف اسٹریٹجک ڈیزائن کے ایک حصے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیںلیکن یہ سچ نہیں ہے، نہ اسرائیل اور نہ ہی امریکہ شامی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔

اوباما نے جس بات کا مطالبہ کیا وہ حکومت اور حزب اختلاف کے مابین ایک سمجھوتہ تھا جس کے ساتھ صدر نے اس کو ممکن بنانے کے لئے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ایرانی حکومت کا ردِانقلابی کردار اس بات سے بھی عیاں ہے کہ اس نے خود ایران میں بھی بڑے پیمانے پر مظاہروں کو دبایا ہے۔ 2009ء میں مظاہروں کی ایک بڑی لہر کو بے دردی سے دبایا گیا۔ اس کے بعد 2018ء اور 2019ءکے شروع میں بڑے سماجی احتجاج ہوئے جو اسی انداز میں دبائے گئے تھے۔ اسی طرح، ایرانی حکومت، خود سے منسلک نیم فوجی دستوں کے ذریعے، عراقی عوام کی بغاوت کو جبر کے ساتھ کچلنے میں مصروف ہے۔ لبنان میں بھی اسی طرح کی کوشش کی گئی۔ ایران یقینی طور پر علاقائی انقلاب کو دبانے کا حصہ ہے۔ وہ علاقائی سطح پر سعودی عرب کے بالمقابل بلاک تشکیل دیتا ہے جس طرح امریکا اور روس عالمی سطح پر دیتے ہیں۔

کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ ایران کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے کہ وہ شورش پسندوں کو انتہائی پرتشدد جبر کے جواب میں ہتھیار اٹھانے پر مشتعل کرتا ہے، تاکہ اسے فوجی طور پر مداخلت کرنے کا بہانہ مل سکے؟ کیا وہ جان بوجھ کر مظاہرین کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ پرتشدد انداز میں جواب دیں، خاص طور پر عراق میں ؟

عراق کی صورتحال اس حقیقت کے باوصف پیچیدہ ہے کہ تاحال وہاں مظاہرین بنیادی طور پر شیعہ ہیں۔ یہی وہ برادری ہے جس کو ایران اپنے کنٹرول میں رکھنے کا خواہاں ہے۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ عراقی بغاوت میں شیعہ آبادی ایران کے تسلط کی کھلی مخالفت میں شامل ہے۔ تہران ان شیعہ عوام کو مکمل طور پر ناراض کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے اب وہ تناو کو ختم کرنے اور سمجھوتہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لبنان میں، یہ بغاوت فرقہ وارانہ ہے۔ اس میں تمام فرقوں اور برادریوں کے لوگ شامل ہیں۔ حزب اللہ کی جابرانہ مداخلت نے حزب اللہ کے زیر کنٹرول ملک کے کچھ حصوں میں ہونے والے مظاہروں میں شیعوں کی شرکت میں کمی کے لئے تھوڑی دیر کے لئے قیادت کی لیکن اس بغاوت کے تسلسل نے شیعوں کو دوبارہ اس میں شامل ہونے پر مجبور کیا ہے۔

لبنان اور عراق کے مابین ایک اہم فرق یہ ہے کہ عراق میں سنی زیادہ تر الگ ہو چکے ہیں۔ اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے اس تحریک کو مسترد کردیا بلکہ اس لئے کہ وہ ابھی تک اس میں شامل ہونے کی ہمت نہیں رکھتے۔ صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے عرب سنی عراق میں ایک کچلی ہوئی اقلیت کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔

پہلے امریکی قابض افواج کے ہاتھوں مظلوم تھے اور پھر شیعہ فرقہ پرست قوتوں کے ہاتھوں جو حکومت میں غالب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب سنی علاقے یکے بعد دیگرے القاعدہ اور داعش کو قبول کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا وہاں کی موجودہ بغاوت ابھی تک شیعوں تک ہی محدود ہے جبکہ لبنان میں شروع ہی سے یہ فرقہ وارانہ ہے۔

عراق میں بغاوت کا ایران مخالف کردار لبنان کے مقابلے میں کہیں زیادہ واضح ہے جہاں ایران کی براہ راست مداخلت کم نمایاں ہے۔ عراق میں ہونے والے ظلم و جبر کی ایک وجہ یہ ہے کہ پہلے ہی ایک بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف، مظاہرین احتجاج کی متشدد شکلوں پر قائم رہنے کے بہت خواہش مند ہیں۔ لبنان میں تحریک الجزائر اور سوڈان سے ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ جال میں پھنس جاتے ہیں اور تشدد کو بڑھنے دیتے ہیں تو اس سے رجعت پسند قوتوں کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اس تحریک کو کچل دیں اور اسے آگے بڑھنے سے روکیں۔

بینامی یکجہتی کے بارے میں، یہ واضح ہے کہ عرب خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ وہاں مکمل طور پر نہیں ہو رہا ہے۔ ہم اب چلی، ایکواڈور، ہیٹی، ہانگ کانگ اورکاتالونیا کے بارے میں بات کر رہے ہیں، یہ سب جڑے ہوئے ہیں۔ ان ممالک سے باہر کے لوگوں کے لیے آپ کے خیال میں مظاہروں میں شامل ہونے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ اس نظام کا مقابلہ کرنے میں بین الاقوامی یکجہتی کا بہترین طریقہ کیا ہے جس کے خلاف لوگ عالمی سطح پر بغاوت کر رہے ہیں؟ جدوجہد کو بھی عالمی ہونے کی ضرورت ہے۔ اس کا بہترین طریقہ آپ کو کس طرح نظر آتا ہے؟

کسی دوسرے ملک میں بغاوت کے ساتھ اظہار یکجہتی کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ خود ہی یہ کام کریں۔ یہ بلا شبہ بہترین اعانت اور یکجہتی ہے۔ بغاوتیں اور بغاوتوں کا عالمی پھیلاو ایک ایسا ماحول تخلیق کرتا ہے جس سے سب کو فائدہ ہوتا ہے۔ اب یہ بہت واضح ہے۔ بغاوتوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب بات عالمی سطح پر اینٹی نیو لبرل بغاوتوں، جو بنیادی طور پر ترقی پسند بغاوتیں ہیں، کے بارے میں ہو رہی ہےں نہ کہ انتہائی دائیں بازو کے بارے میں۔ البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ، شورشوں کے ساتھ، ان کے ترقی پسند اہداف اور اپنے ترقی پسند مطالبات کے ساتھ سرحد پار یکجہتی کا اظہار کیا جائے۔

بغاوتوں کو ناکام بنانے کے لئے کسی بھی رجعت پسندانہ کوشش کی مذمت کرنا بھی ضروری ہے۔ جو بھی قوتیں بغاوتوں کو دبانے کی کوشش کرتی ہیں، چاہے وہ سامنے کی ہوں یا جوڑ توڑ کے ذریعے، ان کی مذمت کی جانی چاہئے۔ مستقبل میں امید ہے کہ نچلی سطح کی تنظیموں کی پختگی کے ساتھ ساتھ ان مقامی تنظیموں کے مابین عالمی سطح پر زیادہ براہ راست رابطے ہوں گے۔

2011ء کی ’عرب بہار‘ کے بعد سے مقامی جدوجہد میں ہم آہنگی کو آسان بنانے میں سوشل میڈیا اور مواصلات کی نئی ٹیکنالوجیز کے کردار کے بارے میں بہت چرچا ہوا ہے۔ مختلف ممالک کی نقل و حرکت کے مابین یکجہتی کا بھی یہی عمل ہے۔ قومی اور عالمی دونوں سطحوں پر، جدوجہد کو اونچے مرحلے تک لے جانے کے لئے حقیقی جسمانی نیٹ ورک کی تعمیر ضروری ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts