اویس قرنی
کامریڈ لال خان ایک فوجی خاندان میں یثرب تنویر گوندل کے نام سے پروان چڑھے۔ خاندان کا ایک ہی لڑکا جس کی تین بہنیں تھیں۔ پاکستان جیسے پدری معاشرے اور بھون جیسے دور دراز گاؤں میں اکلوتا بیٹا عطیہ خداوندی سے کم نہیں ہوتا اور اسی کے ساتھ خاندان کے مستقبل کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ نسبتاً متمول پس منظر کے ساتھ وہ مزید دھن دولت حاصل کر سکتے تھے لیکن انہوں نے دنیا بھر کے مزدور طبقے کو اپنا دوسرا خاندان بنا لیا۔
اپنی آخری سانس تک انقلاب کے لئے جدوجہد کی۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں ان کا ایک انقلابی ساتھی رہا، حالانکہ مجھے لگتا ہے کہ یہ ساتھ مختصر ہی رہا، تاہم یہ ساتھ قربت کا تھا۔ تقریباً دس سال پہلے میں ان سے پہلی بار ملا تھا، ہم دونوں نے اسلام آباد کی آبپارہ مارکیٹ میں تین گھنٹے سے زیادہ وقت ایک ساتھ گزارا۔ وہ ایک انقلابی جلسے کے لئے راولاکوٹ جارہے تھے اوراسلام آباد میں رک گئے تھے۔ ان تین گھنٹوں نے مجھ پر ایسا تاثر چھوڑا کہ میں ہر وقت ان کے ساتھ رہنا چاہتا تھا۔
انہوں نے پوچھا کہ کیا میں ان کے کالم اخبارات میں پڑھتا ہوں۔ میں نے کہا ہاں کامریڈ، میں اردو کالم پڑھتا ہوں لیکن انگریزی نہیں پڑھ سکتا، کیوں کہ اس میں مجھے دقت ہوتی ہے۔ ایک مختصر وقفے کے بعد انہوں نے مسکراتے ہوئے اور شائستگی سے جواب دیا ”دیکھو، میں پرانے زمانے کی انگریزی لکھتا ہوں جو میں نے کئی دہائیاں پہلے سیکھی تھی، شاید آپ کیلئے میری قدیم زبان سیکھنا آسان رہے، اس کے برعکس کہ میں نئی نسل کی شارٹ ہینڈ سیکھوں“۔ میری نوجوانی کے ابتدائی سال تھے لیکن مجھے ان کی صحبت بہت محفوظ، دوستانہ اور آرام دہ محسوس ہوئی۔ یہ ان کی شخصیت کا خاصا تھا کہ وہ خود سے 36 سال کم عمر نوجوان کے ساتھ دوستی کر سکتے تھے۔
کچھ سال بعد گریجوایشن مکمل کر کے میں انقلاب کے لئے کل وقتی جدوجہد کرنے فل ٹائمر کے طور پرلاہور آ گیا۔ اس عرصے میں مجھے لال خان کا ساتھ میسر رہا اور یہ میری زندگی کا بہترین وقت ہے۔ انہوں نے مجھے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی انقلابی قوتوں کی تعمیر سے متعلق آگاہی دی، میری رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیاں کرتے، سگریٹ نوشی کرتے لیکن ہمارے درمیان اصلی رشتہ انقلابی سوشلزم کا تھا اور یہ ہمیشہ برقرار رہے گا۔
ان کی ذاتی خوبیوں پر ان کا کوئی ساتھی درجن بھر کتابیں لکھ سکتا ہے، لیکن کامریڈ لال خان کو محض ان کی شخصیت تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ مارکسزم، جدلیاتی مادیت اور اس کی تاریخ پر ان کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ ان کی تحریریں دنیا بھر کے محنت کشوں کے لئے اثاثہ ہیں اور پاکستان اور دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑنے والے نوجوان انقلابیوں کے لئے تحریک اور رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ وہ ان چند افراد میں شامل تھے جنہوں نے 1989ء میں اپنی ایک کتاب ”بالشویک انقلاب 1917ء اور آج کا روس“ میں سوویت یونین کے خاتمے سے قبل اس کے ٹوٹنے کی نشاندہی کی تھی۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جب بائیں بازو کے بہت سے کارکنوں نے خود کشی کا ارتکاب کیا یا ”تاریخ کا خاتمہ“ قبول کرتے ہوئے سرمایہ داری کی حمایت کا راستہ چنا، لال خان اور ان کے کچھ ساتھی انقلابی سوشلزم پر قائم رہے۔ وہ ان معدودے چند افراد میں شامل تھے جنہوں نے سائنسی سوشلزم اور مستقل انقلاب کے نظریات کو اس خطے میں متعارف کرایا۔ جلاوطنی کے بعد پاکستان آنے سے قبل انہوں نے انقلابی قوتوں کی تعمیر کے لئے ہندوستان میں برسوں گزارے۔ انہوں نے برصغیر پاک و ہند کی خونی تقسیم پر متعدد مضامین اور کتابیں لکھیں۔ وہ کہتے تھے کہ اب ہندوستان نہیں رہا، پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت وجود رکھتے ہیں، ان میں سے کسی بھی ملک میں آنے والا سوشلسٹ انقلاب ہی جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن کی شکل میں اس خطے کو خوشحالی کی طرف لاسکتا ہے اور یہ عالمی سوشلسٹ انقلاب اور کمیونزم کے لئے سنگ بنیاد بن سکتا ہے۔
دوسرے بہت سارے موضوعات کے علاوہ معاشرتی طرز عمل، معاشرے کے زوال اور سرمایہ داری کے زیر اثر فرد کی بیگانگی پر ان کی تحریریں قابل مطالعہ ہیں۔ حکمران طبقے نے پاکستان کے 1968ء کے انقلاب کی یادوں کو مٹانے کے لئے بہت کچھ کیا لیکن ڈاکٹر لال خان شاید وہ واحد آواز تھے جو اس انقلاب کی انقلابی روح کی بازگشت سناتے رہتے تھے۔ انہوں نے ایک شاہکار ”پاکستان کی اصل کہانی:1968ء کا انقلاب“ لکھا۔ اس انقلاب کی یہ تاریخ پاکستان میں نہیں پڑھائی جاتی۔ وہ کہتے اور لکھتے تھے کہ پاکستان کے مظلوم مزدور طبقے کی تاریخ صرف 139 دن ہے، 19 نومبر 1968ء سے لے کر ایوب خان کی زبردست آمریت کے خاتمے 26 مارچ تک، باقی حکمران طبقے کی تاریخ ہے۔
وہ مستقل لکھاری اور پندرہ روزہ طبقاتی جدوجہد کے ادارتی بورڈ کے رکن تھے، جو 38 سال سے مسلسل شائع ہورہا ہے۔ گزشتہ آٹھ سال سے وہ روزنامہ دنیا کے لئے کالم لکھ رہے تھے۔ ڈیلی ٹائمز میں ان کا ہفتہ وار انگریزی کالم شائع ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ادارتی کام کے ساتھ ساتھ وہ باقاعدگی سے ایشین مارکسسٹ ریویو آن لائن کے لئے بھی لکھتے تھے۔ گزشتہ 38 سال سے ہونے والی طبقاتی جدوجہد کی سالانہ کانگریس کے لئے بھی متعلقہ مواد تحریر کرتے تھے۔ ان کی آخری تحریر ”پاکستان تناظر 21 -2020ء“جدوجہد کی 38 ویں کانگریس کے لئے تھی، جو رواں ماہ کے وسط میں منعقد ہو گی۔ انہوں نے یہ تحریر اپنی افسوسناک موت سے دو ماہ قبل لکھی تھی۔ یہاں تک کہ دنیا سے اپنی روانگی سے کچھ گھنٹے قبل بھی وہ تحریری انداز میں اپنا ہاتھ لہرا رہے تھے۔ وہ سوشلزم کی معاشرتی احیا، عثمانی سلطنت کے عروج و زوال، برصغیر میں ایشیائی طرز کی پیداوار اور دیگر بہت سے عنوانات پر کتابیں لکھنا چاہتے تھے۔
ان میں سے کچھ نامکمل مسودے ان کے ذاتی کمپیوٹر میں موجود ہیں۔ مگر مہلک کینسر نے انہیں مہلت ہی نہ دی۔ ایک بار انہوں نے غیر رسمی نشست میں کہا کہ ہم اس کینسر کا مقابلہ اسی طرح کریں گے جیسے آمر ضیا الحق کے خلاف کیا تھا جس نے کامریڈ لال خان کے خلاف دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کیا تھا۔ یہ کینسر سرمایہ دارانہ نظام کی طرح مہلک ثابت ہوا جس سے وہ لڑ رہے تھے۔ وہ بیماری کے خلاف جنگ میں ہار گئے لیکن ہم سرمایہ داری کے کینسر کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔
کامریڈ لال خان ایک مستقل انقلابی اور بین الاقوامی ماہر تھے۔ ان کی ساری زندگی سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں گزری۔ ان کے ساتھ کئی بار غداری کی گئی لیکن انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ ان کا اعتماد بار بار ٹوٹا لیکن وہ آگے بڑھتے رہے اور اپنے ساتھیوں پر اعتماد کرتے رہے۔ اب بہت سے لوگ بہت سی باتیں کریں گے لیکن کوئی بھی سوشلسٹ انقلاب اور بالشویک لیننسٹ تنظیم کی تعمیر میں ان کی لگن پر شک نہیں کر سکتا۔ ان کے مخالفین بھی ان کے ساتھ کی ہوئی ایک ایک نشست پر فخر کرتے ہیں۔ وہ ان کے قصیدے لکھیں گے، لیکن ان میں سے بہت سوں نے ان کی روح پر وار کیا۔
کامریڈ لال خان کی پوری زندگی سوشلزم کا سیاسی سفر تھا۔ ان کا ہر تعلق انقلابی تنظیم اور جدوجہد کی عمارت سے جڑا تھا، جسے انہوں نے اپنے خون اور پسینے سے تعمیرکیا تھا۔ کوئی ان کے نظریے اور تنظیمی عمارت کی نفی کرتے ہوئے کیسے ان کو خراج تحسین پیش کر سکتا ہے؟ لال خان ذاتیات سے مبرا تھے۔ ان کے تمام افعال، میل جول اور غور و فکر ”طبقاتی جدوجہد“ اور اس کے ذریعے انقلابی سوشلزم کی قوتوں کو مضبوط بنانے کیلئے ہوتے تھے۔ ان کی سوچ اور عمل پر ”طبقاتی جدوجہد“ حاوی رہی اور یہی انہوں نے ہمارے لیے ترکہ چھوڑا۔
کامریڈ لال خان نے بچپن میں ہی تعلیم کے حصول کے لئے اپنا گھر چھوڑ دیا تھا اور اب وہ اپنی اس سرزمین پر سب سے بڑے انقلابی کی حیثیت سے لوٹے ہیں۔ ان کی موت کی خبر سنتے ہی ملک کے کونے کونے سے کامریڈز بہت ہی مختصر وقت میں ان کے دور دراز گاؤں پہنچ گئے۔ کسی بھی دوسری صورت میں یہ ناممکن ہوتا۔ بلوچستان سے کشمیر اور کراچی سے سوات تک کے انقلابی اپنے ساتھی کو الوداع کرنے آئے تھے۔ بھاری دلوں کے ساتھ ان کے جنازے کی ایک میل کی مسافت پہاڑ جیسی اور ایک پل ایک دہائی کی طرح محسوس ہوا۔ ان کے چھوٹے سے گاؤں نے فوجیوں کے بہت سے جنازوں اور تابوتوں کو وردی میں دیکھا ہے لیکن کامریڈ لال خان کی آخری رسومات تاریخی تھیں۔ خواتین کامریڈزنے بھی اپنے مرد ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان کے سرخ پرچموں میں لپٹے تابوت کو اپنے کندھوں پر اٹھایا، سوشلسٹ انقلاب کے نعرے لگاتے اور کامریڈ لال خان کے مشن کو آگے بڑھانے، جدوجہد کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے۔ سب نے ورکرز انٹرنیشنل گاتے ہوئے اپنے ساتھی کو الوداع کہا۔ یہ ایک الوداعی تقریب تھی جس کے لال خان حقدار تھے۔ ان کے نظریات، ان کی وراثت اور ان کی انقلابی روح ”طبقاتی جدوجہد“ میں رواں دواں رہے گی۔