قیصر عباس (واشنگٹن ڈی سی) دفاعی اور جنوبی ایشیائی امور کی ماہر عائشہ صدیقہ نے کہاہے کہ پاکستان میں خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی ذمہ دارکمیونٹی میں آزادانہ اور مختلف رائے کا فقدان ہے جس کی بناپر ان حقیقتوں کا ادراک مشکل ہے جن کے ذریعے پالیسی کے فوائد یا نقصانات کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے۔
ان کے نزدیک ”اس طریقہ کار کے تحت خارجہ پالیسی میں صرف ایک محدود نظر یے کو ہی فروغ حاصل ہوتا ہے اور متبادل سوچ کو نظر انداز کرکے لشکرشاہی کے مخصوص نقطہ نظر کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ 2013ء سے کچھ محدود حلقے ہیں جو ریاست کے ہی نظریات کو ان کے کانوں تک مختلف ذرائع سے پہنچارہے ہیں۔“
ان کے خیال میں ”اس طرح جوخارجہ پالیسی تشکیل پاتی ہے وہ اپنا محور دنیا کی ایک طاقت سے دوسری طاقت کی جانب تبدیل کرتی رہتی ہے تاکہ مخصوص فوائد حاصل کئے جا سکیں۔ اس صورت حال میں خارجہ پالیسی کے ذریعے دور رس اور مثبت نتائج حاصل کرنا ناممکن ہے۔“
امریکہ میں ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ اور ولسن سینٹر کے تعاون سے منعقد کئے گئے’عاصمہ جہانگیرمیموریل لیکچر2020ء‘ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ”بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوری روایات بتدریج زوال پذیر ہیں جس کی ذمہ دار ملک میں طاقتور لشکر شاہی ہے جو کسی بھی صورت میں ملکی مسائل پر تبادلہ خیال کی اجازت نہیں دیتی او ر کمزور سیاسی جماعتیں ہیں جو ملک میں کسی بھی مسئلے پر آواز بلند نہیں کرنا چاہتیں۔“
انہوں نے اپنے اہم خطاب میں تین پہلوؤں پراظہارخیال کیا جن میں ملک کی اندرونی سیاست، سکیورٹی کمیو نٹی میں نئے رجحانات اور ملک کی خارجہ اوردفاعی پالیسی کے اہم زاویوں کی وضاحت شامل تھی۔
اس ورچوئل لیکچر کی نظامت ولسن سینٹر واشنگٹن ڈی سی میں جنوبی ایشیا کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کی۔ ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے ایگزیٹو ڈائریکٹر قیصرعباس نے عائشہ صدیقہ کا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ ان کی کتاب ’Miliary Inc‘پاکستان کی دفاعی اقتصادیات میں ایک مستند حوالے کا درجہ رکھتی ہے اور وہ آج کل لندن کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز (SOAS) میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کی حیثیت سے ایک نئی کتاب کے لئے تحقیقی کام کر رہی ہیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے نئے پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئے عائشہ صدیقہ نے کہاکہ ملک میں خارجہ اور دفاعی پالسیوں سے متعلق سرکاری حلقے عالمی سطح پر تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں ملک کے لئے نئے بین الاقوامی اتحاد کو ترجیح دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ خطے میں پاکستان کے کردار کو نمایاں طورپر تسلیم کرائیں۔ اس مقصد کے لئے وہ اب کسی اور سمت میں نئے اتحادیوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
انہوں نے اعلان کیا کہ”پاکستان ایک نئے عالمی اتحاد کا حصہ بننے جارہا ہے جس میں روس، چین، ایران اور پاکستان کا اتحاداب امریکہ، انڈیا اور سعودی اتحادکے مقابلے میں سامنے آ رہا ہے۔ امید ہے کہ پاکستان اب ایران کے زیادہ قریب ہوجائے گا لیکن مستقبل میں جب ایران سی پیک کا حصہ بنے گا تو اقتصادی مفادات دونوں ملکوں کے درمیان مقابلے کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔“
ایران سی پیک کی طرزپربنائے گئے چین کے ترقیاتی پروگرام(Belt and Road Initiative, BRI) کا پہلے ہی حصہ بن چکا ہے جس کے تحت سلک روڈ کے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کی جائے گی۔
ان کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت اب بدل چکی ہے۔ اگرچہ پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا تھالیکن کسی کو یہ خوش فہمی نہیں ہے کہ پاکستان کے لئے امریکی امداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس طرح اب صرف چین ہی پاکستان کی اقتصادی امداد کا واحد سہارا رہ گیاہے اور امید کی جارہی ہے کہ وہی کوؤڈ 19 بحران کے بعد فنڈز کی فراہمی کا واحد ذریعہ ہو گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضع کیاکہ ”امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے میں سنجیدہ ہے لیکن اس کے بعد کیا ہوگا یہ کسی کو معلوم نہیں۔ عین ممکن ہے کہ امریکی انخلا کے بعد تاریخ افغانستان میں خود کو دہرائے اور ملک میں سول نافرمانی، اندرونی گروہوں کے درمیان خانہ جنگی اور شدت پسندی میں مزید اضافہ ہو جائے۔“
پاکستان کی اندرونی سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ”ہم ہائبرڈ جمہوریت (Hybrid Democracy) کے دور سے اب’ہائبرڈ عسکریت‘ یعنی ملی جلی لشکر شاہی کے دور میں داخل ہوگئے ہیں جہاں ہر چیزپر اسٹیبلشمنٹ کی گہری چھاپ ہے اور سویلین پردے میں سیاسی مہروں پر کنٹرول مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ قومی اسمبلی صر ف پہلے سے کئے گئے فیصلوں پر مہرلگانے کی مشین بن گئی ہے اور سیاسی پارٹیوں میں اب مزاحمت کی سکت باقی نہیں رہی۔“
ان کے بقول ”اس نئے نظام میں سول حکومت اور لشکر شاہی کے درمیان ڈائیلاگ اب نیب کے ذریعے ہوتے ہیں جسے مخالف جماعتوں اور لیڈروں کو دباؤ میں رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اینٹی کرپشن اب صرف ایک سیاسی نعرہ ہے جو اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔“
ان کے مطابق پی ٹی آئی اور لشکر شاہی مل کر عدالتی اداروں کو کمزور بنانے میں سرگرم ہیں جس کی ایک مثال جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف عدالتی ریفرنس ہے۔ ان کو اور ان کے خاندان والوں کو مختلف حربوں سے خوف زدہ کیاجا رہا ہے تاکہ وہ اہم عدالتی فیصلوں میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ”جنرل ضیاالحق اپنے ساتھ کئی چیزیں لے گئے جن میں سے ایک لوگوں میں مزاحمت کا حوصلہ بھی شامل ہے۔ ملک میں آج خوف و ہراس کی فضا چھائی ہوئی ہے او ر لوگ مارے جانے کے خوف سے آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کرتے۔ دوسری جانب عام طور پر تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ ملک میں شدت پسند گروہوں کا صفایا کر دیا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ گروہ پورے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں اور طالبان اب دوبارہ قبائلی علاقوں میں اپنے پیر جما رہے ہیں اگرچہ دہشت گردی میں کچھ کمی آئی ہے۔“
ان کے مطابق ”مسئلہ یہ ہے کہ ایک عرصے سے ملک کے اہم مسائل کے فیصلے اسلام آباد میں نہیں راولپنڈی میں ہو ر ہے ہیں۔ اس صورت حال میں ملکی مسائل پر بحث تو درکنار، متبادل نقطہ نظر کوبھی حب الوطنی اور قومی سلامتی کے خلاف سازش کہہ کر خاموش کر دیا جاتا ہے۔“
ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ اور ولسن سینٹر ہرسال عاصمہ جہانگیر میموریل لیکچر کا اہتمام کرتے ہیں جو جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق اور اہم سیاسی اور اقتصادی امورپر نئے زاویوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔