پاکستان

بہاولپور کی سینٹرل لائبریری ایک انمول تحفہ ہے

اسلم ملک

زیر نظر تصویر میں آپ بہاولپور کی سنٹرل لائبریری اور اس کا ریڈنگ ہال دیکھ سکتے ہی

 

میں نے سب سے زیادہ اس لائبریری سے استفادہ کیا۔ اس کے بچوں کے حصے (گلستانِ اطفال) سے سینکڑوں کتابیں اور بچوں کے رسالوں کی فائلیں پڑھیں۔ وہ کسی لکھا پڑھی کے بغیر محض اعتبار پر گھر لے جانے دی جاتی تھیں۔

شاید میٹرک کے بعد میں نے لائبریری کا ممبر بننا چاہا تو چیف لائبریرین ملک نذیر نے انکار کردیا۔ کہا ابھی بچے ہو، بی اے میں پہنچوگے تو بنائیں گے۔ مجبوراً کسی عزیز کو ممبر بنوایا اور ان کے کارڈ پر کتابیں لیتا رہا۔ بعد میں میں خود بھی ممبر بن گیا تو دونوں کارڈ استعمال کرتا رہا۔ ایک پڑوسی اقبال صاحب خود ملازم تھے، ایک دوست کے رشتہ دار سراج صاحب بھی وہاں تھے۔ مقبول صاحب بھی تھے جو بعد میں ریڈیو پاکستان کے لائبریرین ہوگئے، سب تعاون کرتے رہے۔ ۔ ۔ ہاں جلد ساز رمضان صاحب سے میں اپنی کتابیں اور رسالوں کی فائلیں بھی جلد کراتا رہا۔

ہمارے بچپن میں لائبریری کی ایک خاتون ملازم پردہ دار خواتین کو ان کی مطلوبہ کتابیں گھروں میں جاکر پہنچاتی تھیں اور پڑھی ہوئی کتابیں واپس لاتی تھیں۔ لائبریری کا ایک شعبہ فلم کا تھا۔ ایک گاڑی روزانہ کسی محلے یا آبادی جاتی تھی اور کھلے میدان میں سکرین لگا کر معلوماتی فلمیں دکھائی جاتی تھیں جو میرا خیال ہے کہ امریکہ کی فراہم کردہ ہوتی تھیں۔

میرا ایم اے صحافت کا تھیسس ادبی جریدے ’سویرا‘ کے بارے میں تھا۔ سویرا کے شمارے مجھے لاہور سے زیادہ اس لائبریری سے ملے۔

میری مسرت کلانچوی سے شادی ہوئی تو مہمانوں سے فراغت کے بعد تیسرے دن ہم پہلی بار گھر سے نکلے تو سب سے پہلے سنٹرل لائبریری گئے۔ مسرت نے کہا شادی پر لوگ تو درگاہوں پر حاضری دیتے ہیں۔ میں نے جواب دیا ہماری درگاہ یہی ہے۔

سنٹرل لائبریری کے بارے میں تفصیلی معلومات کیلئے پیش ہیں، ڈاکٹر ظہیر احمد بابر، ڈائریکٹر جنرل پبلک لائبریریز پنجاب کے مقالے سے کچھ اقتباسات:

سنٹرل لائبریری بہاولپور کی عمارت کا سنگِ بنیاد 8 مارچ 1924ء کو امیر آف بہاولپور نواب سرصادق محمد خان عباسی کے جشن تاجپوشی کے موقع پر سرروفس ڈینئل آئزک وائسرائے ہند نے رکھا۔ نواب سرصادق محمد خان عباسی سمجھتے تھے کہ تعلیم ہی ریاست کو آگے لے کرجا سکتی ہے۔ انہوں نے تفریح اور تعلیم و علم کے فروغ کیلئے بے شمار ادارے بنائے جن میں صادق پبلک سکول، ایس ای کالج، صادق ایجرٹن کالج، ایس ڈی ہائی سکول، بہاولپور پرنٹنگ پریس، بہاولپور چڑیا گھر، عجائب گھر، جامعہ عباسیہ جس کو 1975ء میں یونیورسٹی کا درجہ دے کر اسکا نام اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور رکھ دیا گیا، شامل ہیں۔

سنٹرل لائبریری کی عمارت اطالوی اور اسلامی طرز تعمیر کی آمیزش کا شاندار نمونہ ہے۔ عمارت کی تعمیر کے لئے سابق ریاست بہاولپور کے عوام نے کم وبیش ایک لاکھ روپیہ بطور اعانت دیا۔ رقم کی فراہمی کا کا م سرکاری طور پرسرانجام پایا۔ جس میں ریاست کے ملازمین نے اپنی ایک ایک ماہ کی تنخواہ متعدد اقساط میں دی۔ عمارت کے لئے 88 کنال دس مرلے زمین امیر آف بہاول پور نے دی۔ عمارت کی تعمیر کا کام 1927ءسے 1934ء یعنی سات سال تک جاری رہا لیکن بدقسمتی سے جمع شدہ رقم عمارت کی تکمیل کے لئے مکتفی نہ ہوسکی جس کی وجہ سے عمارت کو بلدیہ بہاول پور کی تحویل میں دے دیا گیا۔

بلدیہ بہاولپور نے اپنے خرچ پر عمارت مکمل کروا کر یہاں اپنے دفاتر قائم کرلئے اور بالائی منزل پر چھوٹی سی لائبریری بھی قائم کردی۔ قیامِ پاکستان سے چندماہ قبل جناب مشتاق احمد گورمانی نے جو اس وقت سابق ریاست بہاولپور کے وزیراعظم تھے ریاست کے صدر مقام میں ایک اعلیٰ قسم کی لائبریری کی کمی شدت سے محسوس کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ بلدیہ بہاولپور کی لائبریری معہ فرنیچر کتب اور دیگرلوازمات کے سرکاری تحویل میں لے لی جائے اور اس لائبریری کا نام صادق ریڈنگ لائبریری کی بجائے سینٹرل لائبریری رکھ دیا جائے۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس لائبریری کی حیثیت مرکزی ہو اور اس کے تحت سابق ریاست بہاولپور کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ذیلی لائبریریاں قائم کردی جائیں چنانچہ حکومت بہاولپور نے 1947ء میں عمارت کی بالائی منزل پر سینٹرل لائبریری قائم کردی اور اس کے اخراجات کیلئے سرکاری خزانے سے باقاعدہ بجٹ منظور کروایا گیا۔

1947ءسے لے کر 1958ء تک لائبریری اس عمارت کی بالائی منزل پر کام کرتی رہی۔ 1952ء تک لائبریری کا ذخیرہ کتب اس حد تک بڑھ گیا کہ بالائی منزل ناکافی ہو گئی۔ اس ضمن میں حکام کی توجہ اس طرف مبذول کروائی گئی کہ چونکہ تمام عمارت لائبریری کے لئے تعمیر ہوئی تھی لہٰذا اس کو مکمل طور پر لائبریری کے مقاصد کے لئے وقف کیا جائے۔ چھ سال کی مسلسل انتھک کوششوں کے بعد 1958ء میں کمشنربہاولپور ہاشم رضا کی توجہ سے میونسپل کمیٹی نے تمام عمارت وملحقہ احاطہ کو لائبریری کے حوالے کردیا۔ سابق ریاست بہاولپور کے مغربی پاکستان میں انضمام کے بعد 1955ءسے یہ لائبریری صوبائی حکومت کی تحویل میں ہے۔

ریاست بہاولپور کو جب صوبے کا درجہ دیا گیا تو صوبائی اسمبلی کے اکثر اجلاس لائبریری کی بلڈنگ میں ہی ہوتے تھے جن کا تحریری ریکارڈ ابھی تک لائبریری میں موجود ہے۔

سنٹرل لائبریری میں مختلف شعبے قائم کئے گئے ہیں۔ صادق ریڈنگ ہال میں شعبہ ریفرنس سروسز، شعبہ سرکولیشن ومطالعاتی مواد، شعبہ انگریزی کتب، شعبہ اورئینٹل کتب، شعبہ مخطوطات، شعبہ نادرونایاب کتب، شعبہ تازہ ترین رسائل وگورنمنٹ پبلیکیشنز، شعبہ فوٹوکاپی وجلدسازی اور شعبہ کمپیوٹر وانٹرنیٹ سروسز موجود ہیں۔ لائبریری میں کتب کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ شعبہ خواتین واطفال میں بچوں کی کتب، کھولنے، کمپیوٹر، انٹرنیٹ سروسز، ٹی وی لاونج اور خواتین کے لئے ریڈنگ روم کے انتظامات کئے گئے ہیں۔

شعبہ اخبارات ورسائل میں ریڈنگ روم، سروسز برائے ذاتی کتب ومواد، تازہ ترین قومی ومقامی اخبارات کا سیکشن، اخبارات میں مشتہر ہونے والی خالی آسامیوں اور دیگرمعلوماتی مواد کا ڈسپلے جیسی خدمات مہیا کی جاتی ہیں علاوہ ازیں یہاں پر اخبارات ورسائل کا قیام پاکستان سے قبل اور بعد کا ریکارڈ موجود ہے۔

لائبریری کے رجسٹرڈ ممبران کی تعداد 15500سے زائد ہے۔ لائبریری کی جانب سے طلبہ، سکالرز اور عوام الناس کو مہیاکی جانے والی مطالعاتی خدمات کا اعتراف حکومتی سطح پر بھی کیا گیا ہے اور سینٹرل لائبریری بہاولپور کے نام پر حکومت پاکستان نے ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا ہے۔ سنٹرل لائبریری میں باہر سے جو لوگ تحقیق کرنے آتے ہیں ان کے لئے عارضی قیام و طعام کا بھی بندو بست کیا جاتا ہے۔

انتظامی ومالی امور

مغربی پاکستان کے قیام 1948-1955ءسے قبل اس لائبریری کا انتظام حکومت بہاولپور کے تحت رہا اور سرکاری خزانے سے اس کے اخراجات فراہم ہوتے رہے۔ مغربی پاکستان کے بعد یہ لائبریری محکمہ تعلیم صوبہ پنجاب کے زیرِنگرانی کام کرتی رہی جبکہ26 فروری 2013ءسے یہ آرکائیوز اینڈ لائبریری ونگ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کے تحت خدمات سرانجام دے رہی ہے۔

یہ لائبریری ڈائریکٹر جنرل پبلک لائبریریز پنجاب کی انتظامی تحویل میں ہے۔ لائبریری کے 60 سے زیادہ ملازمین چیف لائبریرین کی سربراہی میں کام کرتے ہیں۔ ایک مشاورتی کمیٹی کتب کی خریداری کیلئے سفارشات پیش کرتی ہے۔

سنٹرل لائبریری بہاول پور میں درج ذیل شعبہ جات قائم کئے گئے ہیں۔

1۔ مین لائبریری (ریفرینس سیکشن)
2۔ شعبہ اطفال وخواتین
3۔ شعبہ اخبارات ورسائل

درج بالا قائم شعبہ جات میں جو سروسز فراہم کی جاتی ہیں ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:

مین لائبریری:

1۔ انگریزی واردو تحقیقی کتب
2۔ شعبہ عربی
3۔ شعبہ فارسی
4۔ سرائیکی بہالپور سیکشن
5۔ نایاب کتب
6۔ مخطوطات
7۔ کمپیوٹرو انٹرنیٹ
8۔ عطیہ میں ملنے والی کتب
9۔ نابینا حضرات کے لئے بریل میں لکھی گئی کتب
10۔ سینئر سٹیزنز روم

شعبہ خواتین و اطفال:

بچوں کی لائبریری کو علیحدہ عمارت میں خوبصورت انداز میں قائم کیا گیا ہے جہاں پر کمپیوٹرز سمیت 15000کتب پر مشتمل ریڈنگ میٹیریل فراہم کیا گیا ہے۔ لائبریری کا یہ شعبہ14سال سے کم عمر کے بچوں کیلئے مخصوص ہے۔ شعبہ میں بچوں کی دلچسپ انگریزی و اردو کتب کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی نشو ونما کے لئے بھی انتظام کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں بچوں کے لئے ذہنی آزمائش کے کھیل بڑی تعداد میں مہیا کئے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی جسمانی نشو ونما کے لئے کھیل کے وسیع و عریض میدان ہیں جہاں بچوں کو کھیلنے کے لئے جھولے وغیرہ مہیا کئے گئے ہیں۔ موسم گرما میں خوش خطی اور کمپیوٹر لرننگ، ریڈنگ سکل اورسٹوری ٹیلنگ پر شارٹ کورسز بھی کروائے جا رہے ہیں۔ یہ انتظامات صرف اس غرض سے کئے گئے ہیں کہ بچے ذوق و شوق کے ساتھ لائبریری استعمال کرنے کے عادی بن سکیں۔

خواتین کے لئے ریڈنگ روم کا انتظام کیا گیا ہے جہاں خواتین سے متعلق کتب و رسائل رکھے گئے ہیں۔ یہاں ائیر کنڈیشنڈ آڈیٹوریم بھی قائم کیاگیا ہے جہاں پر بچوں کو نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔

شعبہ اخبارات رسائل و جرائد بھی ایک الگ عمارت میں قائم کیا گیا ہے۔ اس شعبہ میں معروف قومی و مقامی اخبارات اور رسائل و جرائد رکھے جاتے ہیں۔ بعد ازاں ان تمام اخبارات و رسائل کا مجلد شکل میں ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ 1944ءسے لے کر اب تک سول و ملٹری گزٹ کی کاپیز بھی موجود ہیں۔ 1945ءسے انگلش روزنامہ ڈان کی کاپیاں اور 1947ءسے لے کر اب تک قائد اعظم کے شروع کئے ہوئے اخبار پاکستان ٹائمز کی کاپیاں بھی موجود ہیں جبکہ اخبارات و رسائل کا ریکارڈ کاپیوں کی صورت میں موجود ہیں جو تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ نیشنل اردو اخبار جو کہ بند ہو چکے ہیں جیسے کہ امروز اور مشرق کی کاپیاں موجود ہیں جبکہ روزنامہ زمیندار اور پیسہ اخبار 1905ءکو شروع ہوئے، ان کی بھی کاپیاں لائبریری میں موجود ہیں۔ نوائے وقت، جنگ اور جسارت وغیرہ جب سے شروع ہوئے ہیں ان کی کاپیاں لائبریری کے آرکائیو سیکشن میں موجود ہیں۔ بہاولپور ریاست کے اندر چھپنے والے مقامی و تاریخی اخبارات کی مکمل کاپیاں فائلوں کی صورت میں موجود ہیں۔ بہالپور میں جو بھی ترقیاتی کام ہوئے اس کی تمام رپورٹس لائبریری میں موجود ہیں جن میں ریلوے لائنوں کا بچھانا، ہیڈ ورکس کی رپورٹس، تعلیمی اور مالی حوالے سے رپورٹس بھی موجود ہیں۔

لائبریری میں 250کے قریب فقہ، طب اور جنرل ایشوز پر لکھے گئے 5 سو سال پرانے قدیم مخطوطات موجود ہیں۔ 14 سو سال پرانا 4 اوراق پر مشتمل خط کوفی بھی موجود ہے جن پر اعراب نہیں لگے ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت امام حسین نے ہرن کی کھال پر اپنے ہاتھ سے لکھے تھے۔

لائبریری میں سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب اور ہندووں کی مذہبی کتاب مہا بھارت بھی موجود ہے۔ آپ کو یہاں انجیل، بائبل اور قرآن ِپاک کے سات زبانوں میں تراجم بھی ملیں گے۔ اس کے علاوہ عربی، اردو، فارسی، پنجابی، سرائیکی، جرمنی، گورمکھی اور بروہی مینوسکرپٹ بھی موجود ہیں۔

کمپیوٹر لیب میں ریڈرز کو جے سٹور اور ای بریری جیسے ریسورسز فراہم کئے جارہے اس کے لئے فری انٹرنیٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔ انسٹلانگ اور پرنٹر کی سہولت بھی میسر ہے۔

نابینا حضرات کے لئے بریل میں لکھی گئی ایک ہزار سے زائدکتب موجود ہیں۔ یہ پاکستان میں اپنی طرز کا پہلا سیکشن ہے۔ سنٹرل لائبریری میں اس وقت ایک لاکھ 5 ہزار کتب جبکہ 3 لاکھ 5 ہزار دوسرا مطالعاتی مواد موجود ہے۔ لائبریری ہفتے کے چھ روز دو شفٹوں میں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ عام قاری بھی بغیر لائبریری کا رڈ لائبریری کی سروسز سے مستفید ہو سکتا ہے۔ خواہش مند ممبران معاوضہ ادا کر کے فوٹوکاپیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ قارئین و محققین کو فری انٹر نیٹ مہیا کیا گیا ہے۔

ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے محققین کو بلامعاوضہ مخصوص مدت کے لئے ریسرچ کیبن فراہم کئے جاتے ہیں۔ اس وقت لائبریری میں 20 عددریسرچ کیبن ہیں۔

لائبریری میں جلد سازی کا سیکشن قائم ہے جہاں کٹی پھٹی کتب کی مرمت و جلد سازی کا کام انجام دیا جاتا ہے۔ لائبریری میں آنے والے اخبارات و رسائل کی بھی جلد بندی کرکے مستقبل کے مطالعہ و تحقیق کے لئے محفوظ کیا جاتا ہے۔

موقع کی مناسبت سے کتب کی نمائش بھی کی جاتی ہے اورہرسال کتاب میلہ کا انعقاد لائبریری کے باقاعدہ شیڈول میں شامل ہے۔ اسی طرح ہر سال یومِ پاکستان کے موقع پر چلڈرن گالا کروایا جاتا ہے جس میں شہر کے اور مضافات کے سکولوں کے بچے اور اساتذہ کرام کثیرتعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ چلڈرن گالا میں سکاوٹ ویلج، ملی نغمے اور ٹیبلوز وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ والدین اور بچے کثیرتعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ لائبریری چلڈرن گالا ایک دل پسند فیملی پروگرام ہوتا ہے۔

Aslam Malik
+ posts

اسلم ملک روزنامہ جنگ کے سینئر سب ایڈیٹر ہیں۔ وہ ستر کی دہائی سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔