فاروق سلہریا
کیونکہ:
۱۔ عورت پر غصہ نکالنا آسان ہے۔
نہ صرف عورت بلکہ مزدور پر، کمزور پر، ملالہ اور عاصمہ جہانگیر پر، پرویز ہود بھائی اور پی ٹی ایم پر، گھر کے ملازموں پر،دفتر میں ماتحتوں پر غصہ نکالنا آسان ہوتا ہے۔ اس لئے ہمارا خلیل الرحمٰن پنٹو دل کھول کر عورت کا گالیاں نکالتا ہے۔ ان کی کردار کشی کرتا ہے۔ ان پر انگلی اٹھاتا ہے۔ ان کی انا، عزت نفس اورشہرت کو تار تار کرتا ہے۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ محکمہ زراعت پر غصہ نکالے؟ دیکھئے صاحب! ویگو ڈالے میں شمالی علاقہ جات کی سیر نہ میں کرنا چاہتا ہوں نہ آپ۔ خلیل الرحمٰن پنٹو کو بھی ایسا کوئی شوق نہیں۔ ویسے بھی ہمارا تو قومی نعرہ ہے: ماڑے کے گلے پڑ جاو، ڈاہڈے کے پاوں۔
۲۔ نتائج نہیں بھگتناپڑتے۔
اب ذرا سوچئے کسی دن خلیل الرحمٰن پنٹو غصے میں کہہ دے کہ رسیداں کڈھو، یا سپاہ صحابہ کی شیعہ دشمنی پر آپے سے باہر ہو کر مولانا جھنگوی کے بیٹے کو یاد دلائے کہ بھائی قائد اعظم محمد علی جناح بھی شیعہ تھے، ان کا کیا کرنا ہے؟ ایسی کسی بھی حرکت کے بعد نتائج کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس لئے یہی بہتر نہیں کہ میری اور آپ کی طرح خلیل الرحمٰن پنٹو بھی فیمن اسٹوں، لبرل فاشسٹوں اور کشمیر میں ظلم ڈھانے والے ہندووں کو برا بھلا کہہ کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیں۔
۳۔ عورت جاگ پڑی ہے۔
’میرا جسم میری مرضی‘ کا نعرہ اس قدر مقبول ہو چکا ہے کہ خلیل الرحمٰن پنٹو جب گھر جاتے ہیں تو گھر میں یہ نعرے لگ رہے ہوتے ہیں۔ ’میرا جسم میری مرضی‘ خلیل الرحمٰن پنٹو کی چھیڑ بن گیا ہے۔ سچ پوچھئے تو پچھلے دس سالوں میں پاکستان کے اندر دو نعرے بہت مقبول ہوئے۔ ایک وہ جو یہاں لکھا نہیں جا سکتا، دوسرا ’میرا جسم میری مرضی‘۔
اب آپ خود ہی بتائیں خلیل الرحمٰن پنٹو غصے میں نہ آئے تو کیا کرے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔