بلوچ صاحب سلام۔
گذشتہ روز آپ نے اپنے بیٹے احمد جبران بلوچ کے بارے میں خوشی کے مارے تین ٹویٹ کئے۔ آپ کے ٹویٹ سے معلوم ہوا کہ آپ کے صاحبزادے احمد جبران بلوچ صاحب نے یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے پی ایچ ڈی کر لی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو بہت زیادہ مبارک ہو۔ آپ اور آپ کے اہل خانہ کو بھی بہت مبارک ہو۔ مغرب کی ایک اچھی جامعہ سے پی ایچ ڈی کرنا ایک اعزاز کی بات ہے (گو یہ اعزاز پاکستان کے صرف مراعات یافتہ افراد ہی حاصل کر سکتے ہیں اور محنت کش طبقے کے لوگ تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے)۔
آپ کے بیٹے بارے معلوم ہوا تو قاضی حسین احمد بھی یاد آئے۔ ان کے صاحبزادے نے امریکہ سے عین اس وقت ڈگری لی جب ’جہاد کشمیر‘ عروج پر تھا۔ لاہور میں جگہ جگہ جماعت اسلامی کے سٹال لگے ہوئے تھے جہاں نوجوانوں کو سری نگر شہادت کے لئے روانہ کرنے کا کام کیا جاتا تھا۔
میں اُ ن دنوں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ جمعیت طلبہ اسلام نے’میجر مست گل‘ کو نیو کیمپس میں بلایا۔ جی وہی میجر مست گل جو بعد ازاں طالبان کے ساتھ مل کر پاکستان میں بم دھماکے کراتے رہے اور پریس کانفرنس کر کے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنے لگے تھے۔ معلوم نہیں آج کل کہاں ہیں؟
انہی دنوں کی بات ہے چیچنیا اور بوسنیا میں بھی ’جہاد‘ جاری تھا اور بعض نوجوان چیچنیا اور بوسنیا کے راستے بھی جنت روانہ ہوئے۔ جنت حاصل کرنے کے اتنے مواقع میسر ہونے کے باوجود قاضی حسین احمد کے صاحبزادے نے امریکی ڈگری کے لئے یہ موقع گنوا دیا، یہ بات ہم ایسے گناہ گاروں کو آج تک سمجھ نہیں آئی۔
گو آج کل کشمیر اور چیچنیا میں جماعت اسلامی کو زیادہ دلچسپی نہیں رہی مگر افغانستان میں تو بہترین موقع موجود تھا کہ احمد جبران بلوچ طالبان کے شانہ بشانہ امریکی قبضے کے خلاف یہ گاتے ہوئے برسر پیکار ہوتے کہ:
طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے
عکس پر نہ اتراو، آئینہ ہمارا ہے
بلوچ صاحب! تھوڑی سی وضاحت اس بابت بھی کر دیجئے کہ جب جماعت اسلامی ملک بھر میں دینی تعلیم دینے کے لئے اتنے بڑے بڑے مدرسے چلا رہی ہے، آپ نے دنیاوی تعلیم کے لئے احمد جبران بلوچ کو کینیڈا جیسے کافر ملک میں کیوں بھیج دیا؟
بلوچ صاحب! ایک اور بات جاننا چاہتا ہوں۔ جب اپنے صاحبزادے کو آپ نے کینیڈا روانہ کیا تو کیا آپ نے احمد جبران بلوچ سے کبھی کہا، یہ نصیحت کی کہ اگر کیمپس پر کہیں لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ بیٹھے نظر آئیں تو ان پر لاٹھیاں اور سرئیے کے راڈلے کر حملہ آور ہو جانا جیسے آپ خود پنجاب یونیورسٹی میں کیا کرتے تھے یا آپ کے مقلدین آج تک کرتے آ رہے ہیں؟
آپ نے جو تین ٹویٹ احمد جبران بلوچ کی پی ایچ ڈی کی خوشی میں کئے، ان میں آخری ٹویٹ پڑھ کر میرا دل بھر آیا۔ اس آخری ٹویٹ میں آپ نے احمد جبران کی تصویر شیئر کی (حالانکہ امیر المومنین ملا عمر تصویر کو تادم مرگ غیر اسلامی سمجھتے رہے) اور فرمایا ”بڑی خوشی اور مقام شکر ہے۔ اللہ تعالی حفاظت فرمائے۔ امین“۔ جس شفقت پدری کا اظہار آپ نے فرمایا، دل پسیج گیا۔ میں خود ایک چھوٹی سی بیٹی کا باپ ہوں۔ میری بہت خواہش ہے کہ میری بیٹی بھی پی ایچ ڈی کرے اور کبھی اس پر کوئی آنچ نہ آئے۔ اولاد سے عزیز دنیا میں اور کچھ نہیں۔ اسی لئے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ ہزاروں لوگ جو جماعت اسلامی کے کہنے پر دنیا بھر میں جہاد کرنے پہنچے اور واپس نہیں لوٹے، ان کے والدین سے افسوس کرنا ہے یا انہیں بھی مبارک باد ہی بولتے رہیں۔
اس امید کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں کہ احمد جبران بلوچ نے جو تحقیق کے جدید طریقے یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں سیکھے ہیں ان کی مدد سے وہ کوئی ریسرچ پیپر ضرور لکھیں گے جس سے ہم جیسے گناہ گاروں کو بھی سمجھ آ سکے گی کہ جماعت اسلامی کی صالح قیادت اتنی زیادہ منافقت کیسے کر لیتی ہے۔
خیر اندیش
فاروق سلہریا
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔