مجیب خان
عالمی ادراہ صحت اور مزدوروں کی عالمی تنظیم کے مشترکہ تجزیے میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ ہفتے میں پچپن گھنٹے یا اس سے زائد کام کرنے سے مزدوروں کی صحت متاثر ہوتی ہے اور قلبی امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کام کے طویل اوقات کے نتیجے میں سٹروک (یعنی دماغ کی رگوں کا پھٹ جانا) اور قلبی بیماریوں کی وجہ سے سال 2016ء کے اندر سات لاکھ پینتالیس ہزار اموات ہوئیں جبکہ سال 2000ء کے مقابلے میں یہ 29 فیصد اضافہ ہے۔
ورکنگ آورز یعنی کام کے اوقات کار میں اضافہ کیوں کیا جاتا ہے؟ اس سے کس طبقے کے مفادات جڑے ہوتے ہیں؟ اور زیادہ کام کی وجہ سے اموات کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے مروجہ نظام پیداوار کو سمجھنا ضروری ہے۔ سرمایہ دارانہ طبع پیداوار میں پیداوار کا مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل کے بجائے منافع خوری پر مبنی ہوتا ہے۔ سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی دوڑ میں قدر زائد اکٹھا کرنے کے لیے ہر طرح سے محنت کش طبقے کے استحصال کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ روزمرہ یا ہفتہ وار کام کے اوقات میں اضافہ سرمایہ دار کے منافع میں اضافے کی ضمانت ہوتا ہے جس میں مزدوروں کو ان کی محنت کے مقابلے میں انتہائی کم اجرت دے کر باقی کا سرپلس (قدر زائد) سرمایہ داروں کی تجوریوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔ سرمایہ دار طبقہ انتہائی مکاری سے پیداوری عمل کے دوران مزدور کی محنت لوٹ کر اس استحصال کو فطری بنا کر پیش کرتا ہے۔ مروجہ طرز پیداوار میں ایک دن کے اندر مزدور طبقہ ایک مخصوص وقت میں اپنی طے شدہ اجرت کے برابر محنت انجام دینے جسے ضروری وقت محن کہا جاتا ہے کے بعد سرمایہ دار کے لیے قدر زائد پیدا کرتاہے جو سرمایہ دار کے منافع کے لیے ضروری ہے۔ منافع کی ہوس میں اندھے سرمایہ دار کی لالچ اس کو مجبور کرتی ہے ہے کہ وہ کام کے اوقات کار میں اضافہ کرے اور زیادہ سے زیادہ ممکنہ محنت کو چوری کر سکے اور استحصال کو جاری رکھتے ہوئے اپنی دولتوں میں اضافہ کر سکے۔
یوں اکثریتی مزدور طبقہ اپنے روزمرہ زندگی کا طویل دورانیہ اور اپنی محنت کا زیادہ حصہ سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرنے میں صرف کرتا ہے۔ غلام دارانہ عہد میں ایک غلام اپنے آپ کو پورا ایک ہی وقت میں اپنے آقا کو بیچ دیتا تھا جبکہ موجودہ نظام جس کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ”آزاد غلاموں“ کو جنم دیا ہے اور آج کے یہ جدید آزاد غلام رفتہ رفتہ روزانہ کی بنیادوں پر اپنے آپ کو سرمائے کے ہاتھوں فروحت کرتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ہفتے میں پچپن گھنٹے کام جو کہ ایک دن کے حساب سے سات گھنٹے سے زائد کا وقت بنتا ہے، صحت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ لیکن حالات اس سے بھی بدتر ہیں، نیو لبرل معیشت کے باعث سرمایہ داری کو پیوند لگانے کی کوشش میں محنت کش طبقے پر بے انتہا دباؤ ڈالا گیا ہے اور روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر دس سے بارہ گھنٹے کام کرنا سماج کے اکثریتی طبقے کی مجبوری بنا دیا گیا ہے۔ نجی اداروں میں مالکان، مزدوروں پر اوقات کار اور کام کی شدت میں ہر قسم کا دباؤ ڈال کر اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں اور اس بات کا کہیں خیال نہیں رکھا جاتا کے اس اضافی کام کی وجہ سے مزدوروں کی صحت پر خطرناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ماضی میں سیاہ فام افریقی غلاموں کو بھی اپنے سفید فام آقا محض چند سالوں میں اتنا نچوڑ لیتے تھے کہ ان کی موت واقع ہو جاتی، اس میں کوئی شبہ نہیں کے آج بھی ظلم کی وہی لیکن ترقی یافتہ شکل موجود ہے۔
عالمی طور پر معاشی بدحالی اور سرمایہ داری جس بحران کا شکار ہے اس کے انتہائی شدید اثرات نو آبادیاتی اور متروک خطوں میں خطرناک طریقے سے عیاں ہو رہے ہیں۔ ان خطوں میں صحت کی سہولیات پہلے سے ناکافی ہیں جس کا اظہار خصوصاً ہندوستان اور پاکستان میں کرونا وبا کے دوران ہوا ہے جہاں پہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ بنیادی ضروری علاج کی عدم موجودگی میں آئے روز مر رہے ہیں۔ انتہائی محدود آمدنی کے باعث محنت کش طبقہ جدید مہنگا علاج خریدنے سے قاصر ہے اور حکمران طبقہ سستا اور معیاری علاج مہیا کرنے کے بجائے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری میں لگا ہوا ہے جس سے حکمران اشرافیہ کے مفادات واضح ہو جاتے ہیں۔ یہاں ہمیں ریاست کے کردار کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے، جسے روایتی نصاب اور میڈیا وغیرہ کے ذریعے عوام کے جان مال و تحفظ کا ادارہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور بورژوا قانون دان اور جمہوریت پسند بھی بضد ہوتے ہیں کہ قانون کی بالادستی اور ریاستی اداروں کی مضبوطی ہی حالات کی بہتری کے ضامن ہیں جبکہ جو بات حقیقت ہے اور چھپائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ریاست لوٹنے اور استحصال کرنے والے سرمایہ داروں کو استحصال زدہ مظلوم محنت کش طبقات سے تحفظ مہیا کرتی ہے، جس کو مزدوروں کی صحت اور زندگی سے زیادہ سرمایہ داروں کا منافع عزیز ہوتا ہے۔
اس تمام پس منظر میں جہاں برصغیر میں صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر وغیرہ کے مسائل کی بہتات ہے اور ہر شعبہ زندگی کے اندر تنزلی اور بدحالی موجود ہے وہیں بیروزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے۔ سماج کی اکثریت روزگار سے محروم ہے اور عرب اور یورپی ممالک میں سستی محنت بیچنے پر مجبور ہیں۔ اپنے خاندان اور اہل و عیال سے دور سالوں عرب کے صحراؤں میں اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنے میں اضافی وقت کی محنت سے مختلف بیماریاں ساتھ لیکر لوٹتے ہیں اور بسا اوقات لاشوں کی صورت میں واپس آتے ہیں۔ انفرادی بقا اور خاندان کی ذمہ داری سمیت بہتر زندگی کا حصول ہر شعبے سے جڑے مزدور طبقے کو مجبور کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے پٹھوں، رگوں اور دماغ کا استعمال کریں لیکن دولت کے ارتکاز کے باعث یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوتا لیکن مزدور اس اضافی محنت کے باعث بیماریوں کا شکار ہو کر رخصت ہو جاتا ہے۔ روزانہ دس، بارہ اور بسا اوقات اس سے زائد گھنٹے کام کی وجہ سے انسان نہ صرف جسمانی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے بلکہ نفسیاتی طور پر بھی بے شمار پیچیدگیاں آن گھیرتی ہیں۔ فنون لطیفہ یا دیگر صحت مندانہ تفریحی سرگرمیوں کے لیے وقت اور وسائل کی کمی محنت کش طبقے کو نہ صرف سماج سے ہی نہیں بلکہ اپنے آپ سے ہی بیگانہ کر دیتی ہے۔ تمام تر تفریح اور مسرتوں پر ایک اقلیت کا غلبہ قائم رہتا ہے جو اپنے اس اقتدار اور عیاشی کو دوام بخشنے کے لیے نہ صرف رنگ، نسل، قوم اور علاقے کی بنیاد پر مزدوروں کو تفریق کرتی ہے بلکہ ریاستی پشت پناہی میں مذہبی عناصر کے ذریعے بھی لوگوں کے مختلف مذہبی اعتقادات کو استعمال کر کے طبقاتی ایکتا کو توڑنے کی واردات جاری رکھی جاتی ہے۔
اس طرح ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کے بورژوا طبقہ مزدوروں کا قاتل ہے جو کام کی شدت اور اوقات کار میں اضافہ چاہتا ہے اور بورژوا ریاستیں اسی طبقے کی وفادار ہیں۔
1886ء میں شکاگو کے مزدوروں نے آٹھ گھنٹے کام کے مطالبے کی خاطر ہی سڑکوں پر اپنے لہو کی قربانی دی تھی اور جب تک طبقاتی کشمکش موجود ہے طبقاتی جدوجہد جاری رہے گی۔ 1886ء کے بعد 134 سالوں کے بعد موجودہ عہد کی سائنسی ترقی، آلات پیداوار میں جدت اور ذرائع پیداوار کی ترقی جس نہج پر پہنچ چکی ہے، ایک منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ممکن ہے کہ مزدوروں کے اوقات کار کو نہ صرف کم سے کم کیا جائے، کام کی شدت اور بوجھ کو کم جائے بلکہ بیروزگاری کا بھی خاتمہ کیا جائے۔ سرمایہ داروں کی لوٹ مار اور منافع کی ہوس نہ صرف پیداوار میں براہِ راست رکاوٹ بنی ہے اور مزدوروں کو قتل کر رہی ہے بلکہ کرۂ ارض پر موجود تمام زندگی اور ماحولیات اس نظام کی وجہ سے داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ مزدوروں اور طلبہ کی طبقاتی جڑات انقلابی تحریک کے ذریعے ذرائع پیداوار پر قبضہ جماتے ہوئے سرمایہ دار کو اکھاڑ کر کے ہی انسانیت کو آزاد کرا سکتی ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی امن، خوشحالی اور انصاف کا سہرا انسانیت کے سر پہ سجا سکتا ہے۔