کنور خلدون شاہد
وزیر اعظم عمران خان نے پچھلے ہفتے گوادر میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچ مزاحمت کاروں سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ بیان قابل ِستائش ہے۔ اسے سراہنے کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ اس گفتگو کی حکمت عملی تشکیل دینے کے لئے اس بحث کو آگے بڑھائیں۔
یہ بات البتہ ذہن نشین رہے کہ عمران خان ہر قسم کے مذاکرات کے بڑے پرانے حامی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ بلوچستان سے اتنے ہی مخلص ہوں گے جتنے وہ طالبان سے ہیں۔
گوادر میں اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان میں مقامی لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے جس کے باعث پرانی رنجشیں ہیں۔
بلوچ مزاحمت کاروں سے بات کرنے سے پہلے خان صاحب کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا وہ مذاکرات میں نا انصافی کرنے والوں کو ان کے نام سے پکارنا چاہتے ہیں یا ریاست کے وزیر اعظم رہنا چاہتے ہیں۔ ویسے تو خطروں کے کپتان نے خطاب کے دوران بڑی دلیری سے سیاستدانوں کو بلوچ قوم کا گنہگار ٹھہرایا تھا لیکن اس کا غلط العام مفہوم سویلین سیاستدان لیا جائے گا۔
بے شک خان صاحب صرف بہادر ہی نہیں خود آشنا بھی ہیں لہٰذا موقع کی مناسبت سے انھوں نے بلوچ خدشات پر اظہار رائے کرتے ہوئے خود ہی طالبان کی پروڈکٹ پلیسمنٹ کر ڈالی اور کہا کہ وہ طالبان سے بات چیت کر رہے ہیں تاکہ خطے میں امن قائم کیا جا سکے۔
یوں انھوں نے ثابت کیا کہ جنوبی ایشیا کے ہر پسماندہ طبقے کے مسائل کا حل طالبان سے مذاکرات میں ہے۔ آج کل وزیر مملکت حقوق نسواں اور خواتین کے ملبوسات پر تبصرے کے لئے بھی غالباً طالبان سے مشاورت کر رہے ہیں۔
بلوچستان سے تو پھر بھی طالبان کا بڑا پرانا رشتہ ہے اور ان کے قائدین صوبے کے گیسٹ ہاؤسوں میں اتنا عرصہ گزار چکے ہیں کہ پنجاب میں قائم شدہ بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل بنانے والے مراکز میں طالبان کے نسبتاً مستند ڈومیسائل بنائے جا سکتے ہیں۔
یہاں یہ یاد دہانی لازمی ہے کہ کسی بھی مذاکرات کے لئے مناسب زبان کا انتخاب ضروری ہے۔ خان صاحب نہ تو پشتو بولتے ہیں نہ ہی پنجابی۔ بلوچی کو تو وہ مترجم کے ہمراہ بھی زیر غور نہیں لائیں گے۔ ویسے بھی وہ آج کل سب کو پاکستانیت کا درس دے رہے ہیں۔ پاکستانیت کے زمرے میں عربی اور ترکش تو آ سکتی ہیں، بلوچی قطعاً نہیں۔ وزیر اعظم نے چونکہ انگریزی کے استعمال کو احساس کمتری سے وابستہ کر دیا ہے تو محض اردو ہی بچ جاتی ہے جس میں بلوچ قوم پرستوں سے بات ہو سکے گی۔ شاید مناسب بھی یہی ہو گا کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کو اردو ہی میں بات کرنے کی ہدایت دی جائے اور کہا جائے کہ ریاست پاکستان کی جانب سے مسلط کئے گئے کسی ایک سامراجی آلے کا نام بتا دیں۔ یہی سوال چند برس میں چینی زبان میں بھی پوچھا جا سکے گا۔
مزاحمت کاروں سے مذاکرات کو وضع کرنے کے لئے اگلا مرحلہ ہے مزاحمت کے موضوعات کی تقسیم۔ اس میں پہلا خانہ ان شکایات کا ہے جو اتنی دقیانوسی ہیں کہ بلوچ قوم پرستوں کو خود معلوم ہے کہ وہ پریکٹیکل کم اور تھیوریٹیکل زیادہ ہیں۔ مثلاً بلوچستان کا غیر جمہوری طور پر پاکستان کا حصہ بننا۔ اس وطن خداداد کو جمہوریت یا انسانی حقوق کا طعنہ دینے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ بلوچ تحریک کتنی غیر حقیقی اور غیر سنجیدہ ہے۔
اسی خانے میں قدرتی وسائل کے استحصال کو بھی ڈالا جا سکتا ہے کیونکہ گیس کا مسئلہ تو اب اتنا قدیم ہو گیا ہے کہ وہ بلوچستان جو پاکستان کو تین چوتھائی گیس فراہم کرتا تھا اب محض ایک چوتھائی کرتا ہے لہٰذا اور کچھ نہیں تو پچھلی چند دہائیوں میں صوبے سے گیس کی ڈکیتی میں غالباً تین گنا کمی آئی ہے۔ ویسے بھی اب ملک کا وزیراعظم گیس، پانی، بجلی جیسی مشکلات پر میٹنگ بلائے گا تو وہ مذاکرات نہیں مردم شماری کہلائے گی۔ اس واسطے پرائم منسٹر ہیلپ لائن پر کال کرنا ہی مناسب رہے گا۔ اکثر یہ سیریل اتوار کو سہ پہر 4 بجے ٹی وی پر بھی نشر ہوتا ہے۔
مزاحمت کے موضوعات کا ایک مکمل خانہ تو لازمی سی پیک کے نام ہو گا۔ یہاں پر تو مزاحمت کاروں کو صاف صاف کہا جا سکتا ہے کہ وہاں تو راولپنڈی میں کسی کا بس نہیں چلتا تو کوئٹہ میں خودمختاری کا یہ مرض کہاں سے لاحق ہو گیا؟ ویسے بھی اس وبا کا آزمودہ ٹوٹکا ہے کہ منچورین سوس میں ہمالیائی نمک اور سنکیانگی شہد ملا کر صبح شام گھوٹ کر پئیں اور ”سی پیک از آ گیم چینجر“ وظیفے کا ورد کریں۔ انشا اللہ افاقہ ہو گا۔ بے شک ہم سب ایک ہی کوریڈور میں سوار ہیں۔
یقینا ان مذاکرات کا سب سے اہم خانہ بیک وقت ایک موضوع کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور مزاکراتی میز پر حریف کی بھی۔ ان مذاکرات کو انجام دینے کے لئے لا محالہ شرکا کو بازیاب کرنا پڑے گا کیونکہ صحیح سلامت روز مرہ زندگی میں مشغول بلوچ مزاحمت کار تو نہیں ملیں گے۔ اس کے لئے بلوچستان میں گڑھے مردے اکھاڑنے پڑیں گے جو اکثر و بیشتر اجتماعی قبروں میں ہی ملیں گے۔ ان لاشوں میں شاید کوئی بلیک میلر بھی ہو جو عموماً چہرے سے ہی قابل شناخت ہو گا۔ باقی بلوچ میں کونسی لاپتہ لاش عسکریت پسند کی ہے، کونسی مزاحمت کار کی اور کونسی ستم اتفاق کے شکار کی یہ دریافت کرنا ایک طویل عمل ہے۔ اس لئے سب کو ایک ہی تابوت میں ڈالنا پڑتا ہے۔
اگر کوئی حیات عسکریت پسند مذاکرات کی میز پر آنا چاہتے ہیں تو ان سے گزارش ہے کہ لشکر، سپاہ، جیش یا کوئی ملتا جلتا لقب اپنے گروہ کے سابقہ میں اور کوئی اسلامی دعوی لاحقہ میں شامل کر لیں۔ ان بلوچ مزاحمت کاروں کو ان مذاکرات میں اور کچھ حاصل نہ بھی ہوا تو کم از کم غائبانہ نماز جنازہ کی سہولت ضرور فراہم ہو جائے گی۔