حاتم خان
آج سے پہلے اس دنیا میں کئی اقسام کے نظام رہے ہیں جنہوں نے وقت اور حالات کے مطابق سماج کو آگے بڑھایا ہے۔ قدیم نظاموں میں قدیم اشتراکی نظام، غلام دارانہ نظام اور جاگیر دارانہ نظام شامل رہے ہیں۔ اور اب جس طبقاتی نظام میں ہم اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ لیکن ان تمام پرانے نظاموں میں جو سب سے قابل غور ہے وہ قدیم اشتراکی نظام ہے جس میں ذاتی ملکیت کا کوئی وجود نہیں تھا۔ سب مل جل کر رہتے، مل کر شکار کرتے اور مل کر زندگی گزارنے کے باقی اقدامات بھی کرتے تھے۔ اس معاشرے میں کوئی حکمران طبقہ بھی نہ تھا۔
اس حوالے سے مارکس اور اینگلز کی تحریریں موجود ہیں۔ اس میں ہم اتنا کہیں گے کہ جیسے جیسے انسان ترقی کرتا گیا تو اس نے اپنی صلاحیت کے مطابق اپنے ذہن سے کام لینا اور سیکھنا شروع کیا۔ اس نے انسانی زندگی و انسانی سماج کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ ان قدیم نظاموں میں اپنی ایک خاص ثقافت اور تہذیب و تمدن ہوا کرتے تھے۔ اگر ہم تاریخی طور پر دیکھیں تو ان تہذیبوں کی باقیات جو ہمیں آثار قدیمہ سے ملتی ہیں وہ آج کے وقت سے کافی منفرد اور الگ ہیں۔ اس کے برعکس آج ہم سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ایک بے ہنگم و بے ترتیب سی زندگی اور انسانی سماج نظر آتا ہے۔ یہاں انسانوں کا طبقاتی فرق بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ بالخصوص پسماندہ ممالک میں انسان اذیت ناک و کربناک زندگی گزار رہا ہے اور کہیں سکون نہیں۔ نہ ہی کوئی انسانی زندگی کی بنیادی سہولیات میسر ہیں۔ مقابلے کی اس دوڑ میں انسان کو اس نظام نے اپنے اندر جکڑ کر رکھ لیا ہے اور انسان اس چنگل میں مزید دھنستا جا رہا ہے۔ وہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں سرمائے کا غلام بن کر رہ گیا ہے۔ ظاہری طور پر آزاد ہے مگر کئی طرح کی نہ نظر آنے والی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
اس سماج پہ اقلیت برسر اقتدار ہے اور اس کے پیداواری ذرائع پر بھی اسی کا قبضہ ہے۔ ان حکمرانوں کی اپنی ایک محدود سوچ اور رویہ ہے۔ انہیں سرمائے اور اس سے کمائے جانے والے منافعوں کے علاوہ دوسرے انسانوں کی زندگی سے کوئی غرض نہیں۔ وہ تو اس پورے سماج کو تاراج کرنے کے در پے ہیں اور اس معاشرے کو اپنی نجی ملکیت سمجھتے ہیں۔ اسی نجی ملکیت نے انسانی سماج کو آج تباہی کے دہانے پہ لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ منافعے کی ہوس میں انسان زمین پر موجود حیاتیات، چرند پرند اور درختوں کو مسلسل تباہ کرتا آ رہا ہے اور فطرت کے ایک بڑے حصے کو تاراج کر رہا ہے۔ اگر ڈارون کی تھیوری کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو وہ خاص ماحول قابل غور ہے جس کے ذریعے انسانی زندگی نے ارتقا پایا ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام اس ماحول کو ہی خراب کر رہا ہے۔
اس ماحول میں وہ تمام تر چیزیں جو ایک انسان کی زندگی گزارنے کے لئے لازمی ہیں (سانس لینے کے لئے صاف ہوا، پینے کے لئے صاف پانی اور کھانے کے لئے مناسب غذا وغیرہ) اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی نقصان ہوا تو خاطر خواہ مضر اثرات انسانی زندگی پر پڑیں گے۔
جنگلات سے بھری زمین کو خالی کرنے کے لئے ان جنگلات کو آگ لگائی جا رہی ہے تاکہ اس زمین پر وہ فصلیں اگائی جائیں جو سرمایہ داروں کے لئے منافعوں کا باعث ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ ریاستیں بھی منافعوں کے حصول اور بندر بانٹ کا ذریعہ ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ایمازون جیسے بڑے جنگلات ہیں جن کو بے دردی سے کاٹا اور جلایا جا رہا ہے مگر کوئی ٹوکنے والا نہیں۔ کیونکہ وہاں کی ریاست اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے زمین کا ایک بڑا حصہ جنگلات سے خالی کرنا چاہتی ہے تاکہ وہاں کوئی منافع بخش زراعت کی جائے۔ ایمازون کے جنگلات کو دنیا کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے مگر آج ان پھیپھڑوں سے سانس لینا محال ہو چکا ہے اور ایک بڑی آبادی سے ان کی سانسیں چھینی جا رہی ہیں۔ یہ جنگلات پوری دنیا کے انسانوں کے لئے کارآمد ہیں لہٰذا انہیں اشتراکی ملکیت ہونا چاہئے۔ مگر وہاں کے حکمران اور ریاست انہیں منافع خوری کا ذریعہ ہی تصور کرتے ہیں۔ اگر ہمیں اس دنیا، اس سماج اور اس میں رہنے والے اربوں انسانوں کی زندگیوں کا تحفظ چاہئے تو پوری دنیا کے محنت کشوں اور طالب علموں و نوجوانوں کو یکجا ہو کر سماج پر مسلط اس بالا دست اور اجارہ دارانہ ذہن رکھنے والی اقلیت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا اور سماج کے لئے اہم ہر چیز کو ان سے چھین کر اشتراکی ملکیت میں لانا ہو گا۔ ان مصنوعی سرحدوں کو مٹا کر ایک حقیقی عالمگیریت کی طرف جانا ہو گا کیونکہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہونے والی تباہی براہ راست دوسرے خطوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ہمیں اس دنیا کو سرمایہ داروں کے پنجوں سے آزاد کرانا ہو گا اور اس سرمایہ دارانہ نظام کو پاش پاش کرتے ہوئے ایک ایسا سماج تعمیر کرنا ہو گا جہاں انسان نجی ملکیت اور مقابلے کی نفسیات سے آزاد ہو گا۔ وہ پورے معاشرے کی بہتر تشکیل کے لئے اپنی صلاحیتوں کے مطابق اپنا کردار ادا کرے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نجی ملکیت کی برپا کی ہوئی تباہی نے اکثریتی زندگی کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ اب ہمیں اس کرۂ ارض پر اشتراکیت چاہئے۔ کیونکہ اشتراکی ملکیت میں ہی سماجی بقا مضمر ہے۔