حاتم خان
آج تذکرہ کچھ وسیب کے بارے میں جب یہ نام وسیب ہمارے سامنے آتا ہے تو اس نام سے ہمیں سرائیکی لوک گیت، شرنائیاں، ڈھول پھر ڈھول پہ جھمر تاڑی یا پھر سرائیکی لوک گیت ’میکوں ایہو تا ڈسا کیویں جوڑ اے ٹھاسی‘ پہ رقص ذہن میں آ جاتا ہے لیکن اس پرکشش ماحول اور ثقافت سے پرے اگر ہم وسیب میں رہنے والے لوگوں کی حالت زار پر اور شہروں کے مضافاتی علاقوں پر نظر دوڑائیں تو آسیب کا سایہ نظر آتا ہے۔ صدیوں سے خشکی و صحرا میں رہنے والے یہ لوگ کبھی ناخواندگی، لا علاجی، بھوک و پیاس سے مر رہے ہیں تو کبھی سیلابی صورتحال کا شکار ہیں، اسکے علاوہ ان لوگوں کی حالت زار پر لکھنے کے علاوہ اگر یہاں کے حکمران، سرمایہ داروں، جاگیر داروں، سرداروں، وڈیروں اور چور لٹیروں کے صرف نام لکھنے بیٹھ جائیں تو کئی صفحات بھر جائیں۔
ملتان، ڈی جی خان، راجن پور اور روجھان مزاری تک یہ خطہ خواجہ، مخدوم، گیلانی، قیصرانی، بزدار، لغاری، مزاری، دریشک اور گورچانی سرداروں کی حکمرانی سے بھرا ہوا ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کا اقتدار ہو یہ برخوردار برسر اقتدار رہے ہی رہے ہیں، اسکے علاوہ انکے آباؤ اجداد کو بھی دیکھیں تو انکے نام کے ساتھ بھی اس مملکت خداداد کی صدارت و وزارتوں سے وہ جڑے رہے ہیں اور اس وسیب پر نہ صرف حکمرانی کرتے رہے ہیں بلکہ یہاں کے کروڑوں لوگوں کے حقوق پہ ڈاکہ ڈالتے آئے ہیں۔ یہ جتنے بھی مخدوم، گیلانی، خواجہ، پیر اور سردار وڈیرے ہیں بظاہر تو یہ آپس میں لڑتے ہوئے نظر آئیں گے لیکن حقیقت میں یہ وسیب اور اس خطے کے محنت کشوں، مزدورں، کسانوں اور نوجوان طالب علموں کے حقوق پہ ڈاکہ ڈالنے اور انکا خون پینے کے لیے ایک ہی پیج پر ہیں۔
پہاڑ کوہ سلمانی سلسلہ میں تقریباً 13 درے (پانی کی گزر گاہیں) ہیں جہاں سے ہر سال برساتی پانی یہاں سے بہتا ہوا لوگوں کی زندگیوں کو برباد کرتا ہوا جاتا ہے اور ان 13 دروں میں سے 4 مختلف دروں پر پانی کو سٹور کرنے اور ان سے بجلی کی پیداور کے لیے مورنج ڈیم سمیت کئی ڈیمز نہ صرف منظور ہوئے ہیں بلکہ فنڈز تک جاری کیے گئے جن کی کاغذی کاروائی کی گئی، مختلف سروے کیے گئے اور آج بھی وہ ڈیم کاغذات پر تعمیر شد پائے جائیں گے لیکن حقیقت میں انکا کوئی وجود نہیں کیونکہ وہ فنڈ یہاں کے مقامی حکمرانوں، سرداروں اور وڈیروں کے نجی اکاؤنٹس کی نظر ہو چکے ہیں۔
تونسہ، ڈی جی خان اور راجن پور سمیت روجھان مزاری میں تعلیم و صحت کے مراکز نہ ہونے کے برابر ہیں، جہاں موجود ہیں وہاں سہولیات تک کی کوئی چیز نہیں، یہاں تک کہ اس خطے کے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع تک نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر کوئی نوکری کی آسامیاں آتی بھی ہیں تو ان پر بھی سردار وڈیرے جو اقتدار میں ہوتے ہیں اپنے کوٹہ کے لیے آپس میں کتوں کی طرح لڑتے ہیں اور اس پہ اپنی من مانی سے بھرتیاں کرتے ہیں۔ میرٹ کا نام و نشان نہیں، ان تمام تر ظلم و جبر اور لاچاری کے باوجود بھی یہاں کے بے کس اور بے یار و مددگار لوگ اپنی زندگی کی بقا کی جنگ لڑتے آئے ہیں اور کہیں کہیں سے آواز بغاوت بھی بلند ہوتی آئی ہے لیکن پھر ان کو جبر کے ذریعے کچل دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ ان پر تھانوں اور کچہریوں کے ذریعے انتقامی کارروائیاں کی جاتی ہیں اور اس خطے میں لوگوں کے گھر بار، مال مویشی، عزتیں اور یہاں تک کہ موٹر سائیکل جیسی سواریاں محفوظ نہیں۔ آئے روز یہاں ڈکیتیوں کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں جو کہ انہی سرداروں کے ذریعے ڈکیٹوں اور پولیس کے ساتھ ملی بھگت سے ہوتی ہیں۔ یہ ظلم کی چند باتیں ہیں جو زیر قلم آئیں لیکن ایسی داستانیں اور بہت ہیں۔
یہاں کے مقامی سرداروں اور وڈیروں نے ہمیشہ اس سرمایہ دارانہ ریاست کی لوٹ کھسوٹ میں کمیشن ایجنٹ کے طور پر اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے اگر برباد ہوئے تو صرف و صرف یہاں کے غریب محنت کش، کسان مزدور اور نوجوان طبقہ ہی برباد ہوا ہے جن کے پاس سوائے پسماندگی کے اور کچھ نہیں بچا، حالیہ بارشوں کے بھی جو اسباب ہیں اس میں جہاں سرمایہ دارانہ نظام کی تباہ کاریوں کا کردار ہے جس سے ماحولیاتی تباہی کا ذکر کریں یا پھر غیر منصوبہ بندی کی بات کریں ان سب بربادیوں میں براۂ راست ان حکمرانوں، سرداروں، وڈیروں اور چور لٹیروں کا کردار رہا ہے۔ اپنے حلقوں میں یہ موصوف اپنے لوگوں کو سامنے بولنے کی اجازت نہیں دیتے، انہیں اونچی آواز میں بات کرنا پسند نہیں لیکن خود ان کو ڈرا دھمکا کر رعب و دب دبے سے اپنی حکمرانی برقرار رکھے ہوئے ہیں اور خود اسمبلی میں کوئی ایک مسئلہ بھی یہاں کے لوگوں کا زیر لب نہیں لاتے اور نہ ہی کبھی انہیں ایوانوں میں بولتے ہوئے سنا ہے کہ کبھی اپنے خطے کے لوگوں کے مسائل پر، بس صرف الیکشن کی کمپئین میں محض بھڑک بازیوں اور جھوٹے دعوؤں اور ڈھکوسلوں کے سوا کبھی کچھ بولا ہو تو بتائیں۔
اسی طرح حالیہ سیلابی صورتحال میں بھی ان حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی سے صاف ظاہر ہے کہ ان تمام بربادیوں میں انہی کا ہاتھ ہے، یہاں کوہ سلیمانی سلسلہ سے 13 دروں سے جو رود کوہی کا پانی سالانہ بنیادوں پر لاکھوں کیوسک تک ضائع ہو جاتا ہے اگر اسکو کسی منصوبہ بندی کے تحت سٹور کیا جاتا تو یہاں بھوک و پیاس سے مرنے والے کسان اور ان کی زمینوں کو آباد کیا جا سکتا تھا اور اندھیروں میں زندگی بسر کرنے والے لوگوں کو بجلی کے ذریعے روشنی فراہم کی جا سکتی تھی لیکن اقتدار کے نشے میں دھت یہ حکمران کیوں چاہیں گے کہ لوگوں کی زندگیوں کو سہل کیا جائے اور عام لوگ شعور حاصل کر کے اپنی زندگی کے مقاصد کو پورا کرتے ہوئے آگے بڑھیں اگر ایسا ہوا تو انکا اقتدار خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
سیلاب کی وجہ سے جہاں غریبوں، محنت کشوں اور کسانوں کے گھروں میں کہرام مچا ہوا ہے وہی پھر ان جاگیردار، سرداروں اور سرمایہ داروں کے گھروں میں نئے پراجیکٹ اور فنڈز کے ملنے اور ان پر بندر بانٹ کے بگل بجائے جا رہے ہونگے اور پھر سے عوام کو نئے سرے سے دھوکے میں رکھنے کے نئے منصوبے بنائے جا رہے ہونگے۔ اس سماج پر جب تک سرمایہ دارانہ نظام کرپشن و بد عنوانی، لوٹ کھسوٹ کا راج رہے گا تب تک محنت کش و غریب انسان ایسے ہی ڈوبتے ہوئے، بلک بلک کر سسک سسک کر بے یار و مدد گار مرتے رہیں گے۔ اگر یہاں کے محنت کشوں کو غریب، مزدور، کسانوں اور طالب علم نوجوانوں کو اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہے تو انہیں اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرنا ہو گا اور ان سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سرداروں کے لیے موت کا اعلان بننا ہو گا اور ذرائع پیداوار اور یہاں کے وسائل پر قابض حکمرانوں کا تسلط ختم کرتے ہوئے ایک ایسا نظام تشکیل دینا ہو گا جس میں نجی ملکیت کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج کے لیے جدوجہد کرنی ہو گی جہاں مضبوط منصوبہ بندی کرتے ہوئے ایسا سماج تشکیل دیا جائے گا جس میں ان قدرتی آفتوں سے نہ صرف لڑا جائے گا بلکہ ان کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں گے پھر اس طرح کوئی چیز جو انسانوں کے سماج کے لیے بروئے کار لائی جائے اسے بروکار لایا جائے گا جہاں اس طرح لاکھوں کروڑوں کیوسک پانی کو ضائع کیے بغیر اس پانی کو ایسا راستہ فراہم کیا جائے گا جو انسانوں کی زندگیوں کو برباد کرنے کی بجائے ان کی زندگیوں کو سہل کرتا ہوا جائے گا اور اس طرح لاکھوں ایکڑ زمینوں کو زیر آب برباد کرنے کی بجائے انکے کھیتوں اور کھلیانوں کو سیراب کرتے ہوئے گزرے گا۔ جس سے نہ صرف اس خطے کی بھوک و افلاس کا خاتمہ کیا جائے گا بلکہ یہاں سے اناج تیار کرتے ہوئے پورے سماج سے بھوک اور ننگ کا خاتمہ کیا جائے گا اور اس سماج میں انسان نہ صرف حقیقی معنی میں انسان ہو گا بلکہ آئندہ آنے والی نسل انسانی کی زندگیوں کا ضامن ہو گا۔