دنیا

فحاشی کی روک تھام کیلئے طالبان افغان نان اور کباب پر بھی پابندی لگا رہے ہیں

یاسمین افغان

کابل اور افغانستان کے طالبان کے قبضے میں جانے سے ایک سال قبل مغربی میڈیا کے کچھ حصے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ طالبان بدل گئے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز نے تو سراج الدین حقانی کی تحریریں بھی شائع کیں اور اس طرح طالبان کو تسلیم کئے جانے کیلئے ایک پلیٹ فارم دیا۔

زیادہ اہم بات یہ تاثر دینا تھا کہ ایک بار جب امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا ہو جائے اور افغان حکومت طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر پہنچ جاتی ہے اور وہ ایک نئی حکومت تشکیل دیتے ہیں، وہ خواتین کے حقوق، انسانی حقوق، اظہار رائے کی آزادی کے لیے پرعزم ہوں گے لیکن جیسے ہی طالبان 15 اگست 2021ء کو کابل میں داخل ہوئے سارا منظر نامہ ہی بدل گیا۔

طالبان ہر گزرتے دن کے ساتھ پر تشدد اور جارحانہ ہو تے گئے کیونکہ وہ طاقت پر گرفت کو مزید مضبوط کر رہے ہیں اور 1996ء سے 2001ء کے دوران اپنائے گئے قوانین کو دوبارہ نافذ کر رہے ہیں۔ طالبان نے اقتدار میں آنے کے ڈیڑھ ماہ کے اندر ہی ”بدلے ہوئے طالبان“ کا خیال ہوا میں تحلیل ہو گیا ہے۔

”تبدیل شدہ“ طالبان نے لڑکیوں کی ثانوی تعلیم، یونیورسٹی کی طالبات، خواتین اساتذہ اور مخلوط تعلیم پر سکیورٹی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے پابندی عائد کی۔ احتجاج پر پابندی عائد کی، خواتین کے کھیلنے پر پابندی عائد کر دی گئی، زیادتی کا شکار خواتین کی پناہ گاہیں ختم ہو رہی ہیں، خواتین کو اپنی ملازمتوں پر واپس آنے سے منع کیا گیا ہے، میڈیا کی آزادی پر قدغن لگائی گئی ہے۔ اسی طرح کی پابندیوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔

حال ہی میں ایک طالبان رکن عبدالحق صمدی نے طلوع نیوز کے ایک پروگرام میں کہا کہ خواتین کے لیے کچھ خاص شرائط ہیں، وہ پرکشش اور رنگین کپڑے نہیں پہن سکتیں، وہ گھر سے نکلتے وقت پرفیوم نہیں استعمال سکتیں، وہ اونچی ایڑی نہیں پہن سکتیں کیونکہ یہ سب چیزیں مردوں کو جنسی طور پر اکساتی ہیں۔

اس بیان کے جواب میں ظہیر عمر نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ”پوری دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ ہیں طالبان 2.0۔ اب یہاں لڑکیوں کو اپنے جوتے منتخب کرنے کا بھی حق نہیں ہے۔ پھر بھی کیا آپ سمجھتے ہیں کہ طالبان بدل گئے ہیں؟ برائے مہربانی جاگ جاؤ۔“

تامینہ نے ٹویٹ کیا کہ ”ذرا دیکھئے یہ کس طرح غیر معقول باتوں کا جواز گھڑتے ہیں۔ ان کی ابتیں سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے“۔

مونیکا افغان نے فیس بک پر تبصرہ کیا کہ ”خدا آپ کو آپ کے احمقانہ خیالات سمیت تباہ کرے۔ دنیا مریخ پر پہنچ چکی ہے اور ٹیکنالوجی کے بارے میں بات کر رہی ہے اور اس طالب دیکھو۔“

اسینات آسی نے اس وائرل ویڈیو کلپ سے متعلق ایک پوسٹ میں تبصرہ کیا کہ ”میں نے یونیورسٹی کے پہلے دن کے لیے ایک سرخ لباس تیار کیا ہے، میں اونچی ایڑیاں پہنوں گی اور پرفیوم لگاؤں گی، حالانکہ میں نے کبھی اس طرح کے کپڑے نہیں پہنے تھے لیکن میں اس ملا کو بتانا چاہتی ہوں کہ آپ جس بات پر بھی زور دیں گے، اس کے برعکس ہو گا۔ اپنی ذہنیت پر شرم کرو!“

کابل کی رہائشی نیلوفر (فرضی نام) نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”طالبان کے صرف خواتین پر توجہ مرکوز کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ بنیادی طور پر خواتین دشمن ہیں۔“

کابل کے ایک اور رہائشی عبدالوہاب (فرضی نام)نے کہا کہ ”یہ بدلے ہوئے طالبان ہیں جو دوحہ معاہدہ کے تحت افغانیوں پر مسلط کیے گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگلے چند مہینوں میں وہ اور بھی سفاک اور غیر انسانی ہو جائیں گے۔“

سوشل میڈیا کے غم و غصے نے طالبان کو اس منفی پی آر کا جواب دینے پر مجبور کر دیا اور عبدالحق صمدی نے اب ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ امارت اسلامیہ کی نمائندگی نہیں کرتا، یہ بھی کہا کہ وہ طالبان رکن نہیں ہے اور یہ اس کے ذاتی خیالات تھے۔

دلچسپ بات ہے کہ عبدالحق صمدی کے مذکورہ بیان کا سوشل میڈیا پر مذاق بھی اڑایا گیا۔ ایک میم کے مطابق: ”طالبان نان اور کباب پر بھی پابندی لگا رہے ہیں کیونکہ ان کی خوشبو غریب لوگوں کو اکساتی ہے“۔

طالبان کا بنیادی مقصد افغان خواتین کو نشانہ بنانا ہے، وہ خواتین کیخلاف سخت قوانین متعارف کروا رہے ہیں، وہ انہیں معاشرے سے پوشیدہ کرنا چاہتے ہیں، انہیں بے رنگ کرنا چاہتے ہیں، وہ خواتین کو سماجی، تعلیمی اور معاشی طور پر سزا دے رہے ہیں لیکن افغان خواتین ان قرون وسطیٰ کی طاقتوں کے خلاف سخت طریقے سے لڑ رہی ہیں اور ان کے غیر انسانی حالات کے سامنے نہیں جھکیں گی۔

Yasmeen Afghan
+ posts

’یاسمین افغان‘ صحافی ہیں۔ وہ ماضی میں مختلف افغان نیوز چینلوں کے علاوہ بی بی سی کے لئے بھی کام کر چکی ہیں۔ سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے ان کا قلمی نام استعمال کیا جا رہا ہے۔