قیصر عباس
(پس منظر میں ہلکی پھلکی موسیقی کے ساتھ پروگرام کا عنوان)
علی الصبح….. ہم خاکی حویلی پہنچے…… توملازم نے….. گیٹ کھول کر ہمارا…. پرتپاک استقبال کیا…….. اور سجے سجائے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔ دو گھنٹے…. سے زیادہ انتظار کی گھڑیاں گن…… گن کر گزاریں…… آخر تنگ آ کر ہم نے ملازم سے پوچھا کہ صاب کتھے نیں؟
بولے”وہ تو روز صبح سری پائے، نہاری اور حلوہ پوری کا ناشتہ کرنے پہلوان کی دکان پر جاتے ہیں۔“ ہم نے… پوچھا اتنی دیر تک؟ کہا وہ ”پہلے خود ناشتہ بناتے بھی تو ہیں جی! ایسا ہے کہ انہیں کسی اور کا بنایا ہوا ناشتہ ہضم نہیں ہوتا۔“
(پس منظر میں خوش گوار موسیقی)
خدا خدا کر کے وہ تشریف لائے… تو ہماری جان میں جان… آئی۔ آتے ہی بغل گیر ہوگئے اور بڑی معذرت کی ”جی…. رش بڑا تھا پھجے کی دکان پر سب کا ناشتہ بنانا پڑ گیا……. اسے۔ چلیں دفع کریں اس بات کو، کچھ چائے پانی لیا آپ نے؟“
”جی شکریہ… کئی بار“ ہم نے جواب دیا۔
ہمارے ساتھی تو کیمرہ اور ساز و سامان کا اسٹیج سجا کر کب کے منتظر تھے۔
پوچھا ”سر…. آپ تو اب بھی…. ماشااللہ گبھرو جوان…. لگتے ہیں، صحت کاراز کیاہے؟“
”دیکھیں… غرور نہیں کیا کبھی! میری صحت کے دو راز ہیں، اچھا کھانا اور اچھا پہننا، تیسری کوئی بات نہیں۔ بندہ اپنی صحت کا خیال رکھے تو جوان ہی رہتاہے….. بس دل جوان ہونا چاہیے۔“
(قہقہہ)
ہم نے بھی جواب میں ایک عدد…… قہقہہ پھینکنے کے بعد عرض کیا ”یہ خاکی حویلی تو… آپ نے بڑی خوب صورت بنالی ہے، پچھلی بار ہم آئے… تو کھنڈر تھا یہاں…… پیسہ تو بہت لگا ہو گا؟“
کہنے لگے ”دیکھیں…. جی… میں تو ملنگ آدمی ہوں، ملوم تو ہے آپ کو، یقین کریں ایک پیسہ اپنی جیب سے نہیں لگا۔“
حیرانگی سے پوچھا ”تو پھر کس نے لگایا؟“
”جی….. سچ پوچھئے، مجھے تو یاد بھی نہیں۔ میں جب پچھلی بار وزیر مال بنا تو کچھ خیرخواہوں نے ایک دن میرا گھیراؤ کر لیا اور بولے سر جی ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ اتنا بڑا وزیر اس کھنڈ ر میں رہے، آپ ایک طرف بیٹھیں اس حویلی کو بنوانا اب ہمارا کام ہے۔“
”بس جی… چھ مہینوں میں اس کی تو شکل ہی بدل ڈالی انہوں نے……. بڑا ٹیلنٹ ہے جی ہمارے مولک میں۔“
موضوع سخن بدلنے کے لیے پوچھا ”سر! آپ خود تو بہت بڑے سیاست دان ہیں، ہمیشہ تقریبا ًہر الیکشن میں کامیاب رہے لیکن آپ ہربار کسی اور پارٹی میں ہی شامل ہوکر وزیر کیوں بنتے ہیں؟“
بولے”دیکھیں ….. (لمبا وقفہ) پارٹی تو ہے میری اپنی بھی، اب…میرے جیسے پرخلوص لوگ ہی کہاں ہیں سیاست میں کہ انہیں شامل کروں؟“
”ویسے شکرہے مالک کا، وزیر بننے کے لئے لوگ پارٹیوں کے ترلے کرتے پھرتے ہیں مگر پارٹیاں میرے ترلے کرتی ہیں کہ سر وزیر بن جائیں پلیز۔“
پھرسوال کیا ”کہتے ہیں، فرشتے ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوتے ہیں، تصحیح کردیں، آپ فرشتوں کے ساتھ ہیں یا وہ آپ کے ساتھ؟“
جواب ملا ”دیکھیں…… (لمبا وقفہ) آپ تو خود تجربہ کار صحافی ہیں! بندے میں کوئی بات ہوتی ہے تو فرشتے مدد کرتے ہیں، ورنہ کون مدد کرتاہے کسی کی آج کل؟ “
”آپ پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ آپ گھربسانا پسندنہیں کرتے۔ آپ کے بعد اتنی بڑی جائیداد کامالک کون ہوگا؟ شادی کیوں نہیں کی اب تک؟“
بولے ”دیکھیں….. جب باہر پکا پکا یامزیدار کھانا مل جائے تو گھر میں چولہا جلانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ (زوردار قہقہہ)، سچی بات تو یہ ہے جی کہ مجھے اتنی فرصت ہی نہیں کہ گھر بسانے کا سوچوں، اب آپ ہی بتائیں! قوم کی خدمت کروں یا گھر بساؤں؟“
(خوش گوار موسیقی)
ہم…. دوپہر کا کھانا کھانے پھجے پہلوان کے کھوکھے پر پہنچے تو…. ہمارا استقبال پورے محلے نے……… بھنگڑا ڈال کر اور ڈھول بجاکر کیا۔ پہلے لسی آئی، پھر سری پائے، پھر چکن کڑاہی، پھرکھیر، پھرچکڑ چھولے، پھر چکن بریانی، پھرگرماگرم تلی ہوئی تازہ مچھلی، پھرتکہ بوٹی، آخر میں پھر آم کی لسی۔ حکم ہوا…کہ گرمی بڑی ہے اس لئے… تین گھنٹے سونے کاوقفہ ہو گا……….. پھر انٹرویو ہو گا۔
مرتے کیا نہ کرتے…. سونے کے لئے سجے سجائے کمرے میں پہنچائے گئے…. اور تین گھنٹے…. گھوڑے بیچ کرسوئے۔
شام ڈھلے پھر تیار ہوکر….. ڈرائنگ روم میں کیمرہ سجایا۔
(پس منظرمیں خوش گوار موسیقی)
وزیر صاحب کمرے میں داخل ہوئے تو سوال کیا ”لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے اصولوں کی سیاست کبھی نہیں کی۔“
سیخ پا ہوکر بولے ”دیکھیں….. جنہوں نے اصولوں کی سیاست کی انہوں نے جمہوریت کا کیا اکھاڑ لیا؟ خدا معاف کرے… میں تو ملنگ آدمی ہوں، کبھی غرور نہیں کیا، لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں وہ میرے پاؤں کی جوتی کے برابر بھی نہیں ہیں۔“
اب صورت حال…قابو سے…باہر ہو تی جا رہی تھی۔
(پس منظرمیں ہلکی پھلکی موسیقی)
موڈ ٹھیک کرنے کے لئے ہم نے……. ایک ہلکا پھلکا سوال کر ڈالا۔ ”سر اگلے پانچ سالوں میں کیاہونے والا ہے مولک میں؟“
جواب ملا ”دیکھیں…. شکر ہے مالک کاکہ میرے سیاسی تیرہمیشہ ٹھیک ٹھیک نشانے پرلگتے ہیں، جس پارٹی میں رہتاہوں وہ کامیاب رہتی ہے اور جب نکلتاہوں، پارٹی ٹھپ! اگلے ایک سال ہی میں دھڑن تختہ ہونے جا رہاہے۔“
پوچھا ”یہ بھی بتاتے چلیں کس کا؟“
مختصر جواب تھا ”بس یہ تو وقت ہی بتا ئے گا“ (زوردار قہقہہ)۔
(ہلکی پھلکی موسیقی پس منظر میں)
ہم نے سامان لپیٹنے کا اشارہ کیا اپنی ٹیم کو……. اور رات گئے….. واپس ہوئے حویلی سے…… یہ سوچتے ہوئے… کہ اگلی بار انہیں وزارت خوراک کا قلمدان ملنا چاہیے… سری پائے کی کوالٹی بہت گرگئی ہے… مارکٹ میں۔ اسی کے ساتھ……… اجازت چاہتے ہیں ناظرین سے………… خداحافظ!!!
(خوش گوار موسیقی پروگرام کریڈٹس کے پس منظر میں)
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔