خبریں/تبصرے

یوکرائن کو ناٹو اور روس نے یرغمال بنا لیا ہے: انٹنیشنل سوشلسٹ لیگ

انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ

ترجمہ: علی تراب

یوکرائن کے مستقبل کے گرد روس اور امریکہ کا تنازعہ، جو ایک خوفناک سامراجی جنگ میں بھڑک بھی سکتا ہے، عالمی اہمیت کا حامل ہو چکا ہے۔ امریکہ کی قیادت میں مغربی سامراجی کیمپ کا ایک حصہ یوکرائن کو نیٹو میں شامل کرنے کے درپے ہے جسے روس اپنی سکیورٹی، خطے میں اپنے اثر و رسوخ اور سامراجی عزائم کے لئے خطرہ سمجھ رہا ہے اور یوکرائن پر چڑھ دوڑنے کی عسکری تیاریاں کر کے دھمکی آمیز موقف اپنائے ہوئے ہے۔ علاوہ ازیں یوکرائن کی موجودہ مغرب نواز حکومت کو بھی کسی طور یوکرائنی محنت کش عوام کا نمائندہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ نے یوکرائنی انقلابیوں کی مشاورت سے ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس کا ترجمہ ہم اپنے قارئین کے لئے شائع کر رہے ہیں۔

یوکرائن کے خلاف روسی سامراجی جارحیت نامنظور!
نیٹو اور امریکہ مشرقی یورپ میں مداخلت سے باز رہیں!
سامراجیوں کے مفادات کی مزید جنگیں نامنظور!

1: ایک بار پھر یورپی براعظم ایک کھلی جنگ کے خطرے کی زد میں ہے۔ ابھی سابق یوگوسلاویہ کے خطے میں خونریز جنگ ذہنوں سے محو ہی ہونا شروع ہوئی تھی کہ سامراجی تضادات اور توسیع پسندانہ عزائم نے ایک بار پھر یورپ کو بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

2: امریکہ کے سامراجی تسلط میں پڑنے والی دراڑیں ایک نئے منظر نامے کو جنم دے رہی ہیں۔ روس ایک نئی سامراجی طاقت کے طور پر کوشش کر رہا ہے کہ وہ 1990ء میں اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن کو کسی حد تک دوبارہ بحال کرے اور مستقبل میں ابھرتے ہوئے چینی سامراج کے قریبی ساتھی کے طور پر خود کو مستحکم کرے۔ دوسری جانب بائیڈن کی صدارت میں امریکی سامراج مزید جارحانہ انداز میں ”امریکہ واپس آ گیا ہے!“ کے نعرے کے تحت خود کو دوبارہ مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

3: روس کو گھیرنے کی نیٹو کی مسلسل کوششیں، بحیرۂ اسود میں اس کی مسلسل بڑھتی ہوئی موجودگی، ”مشترکہ دفاعی معاہدے“ کے بعد سے یونان میں امریکی فوج کا اجتماع، برطانیہ اور ترکی کی جانب سے یوکرائن کو جدید ہتھیاروں کی فروخت اور مغربی سامراج کی جانب سے یوکرائن کو نیٹو میں شامل کرنے کی کوششوں جیسی اشتعال انگیزیاں خطے میں خونریز نتائج کو جنم دے سکتی ہیں۔

4: روسی سامراج نے جدید ہتھیاروں کی دوڑ میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہوئے سابق سوویت یونین کے علاقے کو اپنے ”اہم مفادات“ کا دائرہ قرار دیا ہے۔ ایک طرف اپنے دائرہ اثر میں دوستانہ حکومتوں کی ٹوٹ پھوٹ اور نیٹو کی پیش قدمی تو دوسری طرف اس کے اپنے توسیع پسندانہ عزائم نے روس کو اپنے ہمسایہ ممالک میں مداخلت بڑھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ابھی حال ہی میں روسی فوج کی قیادت میں ’سی ایس ٹی او‘ کے دستوں نے قازقستان میں عوام کے خلاف کارروائی کی۔ یہ واقعہ تب پیش آیا جب اپنے معیار زندگی میں گراوٹ اور جمہوری آزادیوں پر قدغنوں کے خلاف قازقستان کے محنت کشوں نے بغاوت کر دی۔ اس صورت میں روس نے آمرانہ اور بیوروکریٹک حکومت کی گھبراہٹ کا فائدہ اٹھایا اور عوام پر جبر کیا۔ اس سے پہلے بھی روسی سامراج نے بیلا روس کے 2020ء کے صدارتی انتخابات میں آمرانہ لوکاشینکا حکومت کی طرف سے ہونے والی مذموم جعل سازی کے خلاف عوام کے سماجی احتجاج کو دبانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ سابقہ سوویت یونین کے علاقے پر روسی سامراج کے مکمل کنٹرول کے قیام میں یوکرائن ایک رکاوٹ رہا ہے۔ امریکہ کا یوکرائن کو نیٹو میں شامل کرنے کا ارادہ ایسی اشتعال انگیزی ہے جس نے روس کے ارادوں کو تقویت دی ہے۔

5: روسی رہنماؤں کے خیال میں وہ یہ دعوت اڑانے میں کامیاب رہیں گے کیونکہ یوکرائنی سرمایہ داری، جو اندرونی طور پر کرپٹ اشرافیہ اور بیرونی طور پر مغربی سامراج پر منحصر ہے، روسی فوجی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس سب کے باوجود حالیہ ہفتوں میں نیٹو کی فوجی کمک میں اضافے سے روس کو ممکنہ نتائج کے حوالے سے کچھ تشویش بھی ہو رہی ہے۔ جو کسی معاہدے کی صورت میں اپنا اظہار کر سکتی ہے۔

6: ہماری رائے میں روسی اشرافیہ کی ضرورت سے زیادہ پر امید توقعات کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے پہلی تو یورپی یونین کے ممالک کا روسی گیس پر انحصار ہے۔ یورپی یونین کے ممالک کی جانب سے اپنے کوئلے کی پیداوار بند کرنے اور جوہری توانائی کے شعبے سے باہر نکلنے نے یورپی یونین کے بہت سے اہم ممالک کو روس اور اس کے گیزپروم (روسی گیس کمپنی جو پورپ کو گیس سپلائی کرتی ہے) پر منحصر کر دیا ہے۔ جرمنی پہلے ہی ”روس کو ناراض نہ کرنے“ کی خاطر یوکرائن کو دفاعی ہتھیاروں کی فراہمی کے لئے درکار اپنی فضائی حدود فراہم کرنے سے انکار کر چکا ہے اور روس کی نظر میں یہ کیفیت برقرار رہے گی۔ تاہم جیسے جیسے امریکہ کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے باقی یورپی طاقتیں وائٹ ہاؤس کی صف میں آتی جا رہی ہیں۔

7: یہ بھی واضح رہے کہ یوکرائن کی بورژوا حکومت کئی سالوں سے انتہائی سماج دشمن نیو لبرل پالیسیوں پر عمل درآمد کر رہی ہے جس کی وجہ سے محنت کش عوام کی اکثریت غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنس گئی ہے۔ ایسی صورتحال میں یوکرائنی حکام کی جانب سے یوکرائنی عوام کے حب الوطنی کے جذبات کو ابھارنے اور روسی قبضے کے خلاف لڑنے کی اپیل کو درحقیقت ایک پوشیدہ مزاحمت کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن یہ مزاحمت زیادہ تر یوکرائن کے جنوب اور مشرق کی طرف سے ہے جہاں روسی سامراج اپنے لئے ایک اڈہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور ”روسی زبان بولنے والوں کے تحفظ“ کے نعرے کا استعمال کر رہا ہے۔ بلاشبہ اس وقت ہم ”روسی زبان بولنے والوں کے تحفظ“ کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ صرف یوکرائن کے خلاف سامراجی جارحیت کے بہانے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

8: بدقسمتی سے سابق سوویت یونین میں بائیں بازو کے بہت سے حصے روس کے (بائیں بازو کے) اس بیانئے کے زیر اثر ہیں کہ محنت کشوں کو صرف ”اپنی سرمایہ داری“ کے خلاف لڑنا چاہیے اور روس کی بیرونی سامراجی جارحیت کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ تاہم یہ پوزیشن محض روسی سامراجی بورژوازی کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہے۔ ”زمروالڈ لیفٹ“ (1915ء میں ہونے والی زمروالڈ کانفرنس میں شریک بایاں بازو) کے انٹرنیشنلسٹوں کا 1915ء کا تجربہ ہمیں بہت واضح طور پر بتاتا ہے کہ جنگ میں شامل ملکوں کے سوشلسٹوں کی اپنی اپنی بورژوازی کے خلاف جدوجہد پر توجہ دینے کی پالیسی سامراجی ممالک کے سوشلسٹوں کے لئے تھی۔ اس پالیسی کو ایک میکانکی انداز میں یوکرائن کے سوشلسٹوں پر نافذ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ روسی سامراجی جارحیت پر کوئی دھیان نہ دیں اور اس کا مقابلہ کرنے کی تمام کوششیں ترک کر دیں۔

9: انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ دنیا بھر کے محنت کشوں اور خصوصاً روسی محنت کشوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اپنی حکومت کی جانب سے یوکرائن پر قبضے کی مخالفت کریں اور اسے سامراجی طاقتوں کا اکھاڑا بننے سے روکیں۔ ہم بخوبی سمجھتے ہیں کہ یوکرائن دنیا کی بڑی سامراجی طاقتوں کے کھیل میں یرغمال بن چکا ہے۔ ہم امریکہ اور مغربی سامراج کے گھٹیا پن اور کمینگی کی انتہاؤں سے بخوبی واقف ہیں جو اس وقت بین الاقوامی برادری کے سامنے ”یوکرائن کے محافظوں“ کے طور پر خود کو پیش کر رہے ہیں۔ انہیں صرف یہ خوف ہے کہ وہ کہیں یوکرائن کی کمزور اور مطیع سرمایہ دارانہ معیشت پر اپنا کنٹرول نہ کھو دیں۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ سامراجی کیمپ میں کوئی بھی یوکرائنی عوام کے مفادات کا دفاع نہیں کرتا بلکہ سب اپنے اپنے جیوپولیٹیکل مفادات کا دفاع کرتے ہیں۔ یوکرائنی محنت کشوں کو ان سامراجی ”دوستوں“ کے حوالے سے کوئی خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان کے حقیقی عزائم کا ادراک ہونا چاہیے اور پورے مشرقی یورپ سے نیٹو کے انخلا کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

10: یوکرائنی اور عالمی سیاست میں صرف ایک بائیں بازو کا ریڈیکل سوشلسٹ رجحان ہی محنت کشوں کو اپنی تقدیریں اپنے ہاتھ میں لینے کی بنیادیں فراہم کر سکتا ہے۔ ایسے حالات میں کہ جب عالمی سرمایہ داری اپنے سامراجی عہد میں ہے‘ بیرونی فوج کشی کے خطرات نہ صرف برقرار رہیں گے بلکہ ان میں اضافہ ہو گا۔ لیکن موجودہ صورتحال میں سب سے اہم کام یوکرائن پر ممکنہ روسی فوج کشی کا مقابلہ کرنا ہے جو کہ ایک سامراجی مفادات کی جنگ کا روپ دھار سکتی ہے۔

موجودہ حالات میں ہمارے سوشلسٹ نعرے

• یوکرائن کے خلاف روسی سامراجی جارحیت نامنظور!

• نیٹو اور مغربی سامراج کا مشرقی یورپ سے فوری انخلا!

• یوکرائن کے ڈونیٹسک اور لوہانسک کے علاقوں کے ساتھ ساتھ کریمیا سے بھی روسی فوجیوں کا فوری انخلا۔ تاکہ ان علاقوں میں خود ارادیت کے عمل کی راہ ہموار ہو!

• روسی محنت کشو! یوکرائن کے خلاف سامراجی جارحیت کا راستہ روکنے کے لئے بین الاقوامی جدوجہد میں شامل ہو جاؤ اور اپنی حکومت کا مقابلہ کرو!

• یوکرائنی محنت کشو! روسی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہو جاؤ اور خود پر حکمرانی کرنے والے امریکی سامراج کے گماشتوں کو اکھاڑ پھینکو!

• آئیے ہم اپنے محنت کش یوکرائنی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ پوری دنیا کے محنت کش طبقے کی بین الاقوامی یکجہتی کو مضبوط کریں! آئیے سامراجی مفادات کی خاطر پرولتاریہ کا خون بہانے کی کوششوں کو رد کریں!

Roznama Jeddojehad
+ posts