تاریخ

صحافت کا پہلا اور آخری سبق: ڈاکٹر مہدی حسن کی یاد میں

قیصر عباس

ستر کی دہائی میں ہم کچھ دوستوں نے گورنمنٹ کالج راولپنڈی سے بی اے کے بعد پنجاب یونیورسٹی جانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے شعبہ صحافت میں داخلے کی درخواست داخل کی اور اس طرح پنجاب کا صدر مقام لاہور ہماری زندگی کا صدر مقام بھی ٹھہرا۔

یہاں کئی اساتذہ صحافت کی درس و تدریس میں مصروف تھے اور سب ہی اپنی جگہ ایک الگ مقام رکھتے تھے۔ لیکن دو پروفیسر صاحبان، ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اورپروفیسر مہدی حسن (جو اس زمانے میں ڈاکٹر نہیں تھے) کی قابلیت اورتدریسی صلاحیتوں سے ہم بہت متاثر تھے۔

صدرِ شعبہ ڈاکٹر عبدالسلام خورشیدسینارٹی کے لحاظ سے بہت رعب اور دبدبہ رکھتے تھے اور اپنے لیکچر کی باقاعدہ تیاری کر کے آتے تھے۔ ان کا ایک منفرد انداز یہ تھا کہ لیکچر کے نوٹس کاغذ کے بجائے گریٹنگ کارڈ یا عید کارڈ پر لکھ کر لاتے تھے۔ گریٹنگ کارڈ کا یہ استعمال بعد میں ہمارے خوب کام آیا اگرچہ یہ علمی مقاصد کے لئے نہیں کچھ اور مشاغل کے لئے تھا۔ شاید یہ ہمارے لئے صحافت کا پہلا سبق تھا!

پروفیسر مہدی حسن جو ہمارے لئے اب سر مہدی تھے اسی زمانے میں شعبے میں نئے نئے وارد ہوئے تھے بلکہ یوں کہیے کہ دوبارہ وارد ہوئے تھے۔ سنا تھا کہ شعبے نے ان کی ملازمت ختم کر دی تھی اور وہ عدالتی فیصلے کے ذریعے دوبارہ اپنے عہدے پر بحال کر دئے گئے تھے۔ مگریہ سب تو ہمیں بعد میں معلوم ہوا۔

جوں جوں ہم اس شعبے سے واقف ہوتے چلے گئے ہمیں ہر کلاس کے قواعد اور روایات سے واقفیت ہوتی گئی۔ کلاس روم میں سر مہدی کا ایک الگ ہی انداز تھا۔ دراز قامت اور دبلے پتلے سے اس پروفیسر کو پڑھانے کا فن بخوبی آتا تھا۔ نہ صرف وہ ہر موضوع کو تحقیق کے حوالے سے ایک منطقی انداز میں بیان کرتے بلکہ روائتی طریقہ کار کو کلاس سے باہر چھوڑ آتے اور میڈیا کے نئے رجحانات اور نئے تحقیقی موضوعات پر لیکچر دیتے۔ جدید میڈیا کے تحقیقی پہلوؤں سے پہلی بار ہم ان ہی کے ذریعے واقف ہوئے تھے۔

رفتہ رفتہ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ شعبے کے واحد ترقی پسند پروفیسر تھے۔ اس وقت تک ہمار ا بھی ترقی پسند دوستوں کا ایک گروپ بن چکاتھا اور اس طرح نظریاتی ہم آہنگی نے ہمیں سر مہدی کے اور قریب کر دیا۔ وہ چاہے موجو د ہوں یا کوئی کلاس پڑھا رہے ہوں ان کے آفس میں ہم لوگ اکژ پائے جانے لگے تھے کیوں کہ یہاں چائے بنانے کے تمام لوازمات بھی موجود ہوتے۔

وہ معلم سے زیادہ ہمارے دوست تھے۔ لیکن کلاس میں وہ ہمارے لئے سخت ترین استاد تھے بلکہ ہمارے امتحانات اور پیپرز میں ہمیں دوسروں سے کم نمبرات ہی ملتے جس کی ہمیں ان سے ہمیشہ شکایت رہتی۔ ان کا اصول تھا کہ تعلیم کی پہلی شرط یہ ہے کہ سب شاگردوں کو برابر کا درجہ دیا جائے۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا لیکن میں ضرورت سے زیادہ شرارتی واقع ہواتھا، کلاس میں اکژ ان کے عتاب کا شکار میں ہی رہتا تھااور بیشتر مرتبہ کلاس سے باہر جانے کا حکم میرے لئے ہی صادر ہوتا تھا۔

میں نے سرمہدی ہی کی نگرانی میں ایم اے کا تحقیقی مقالہ بھی تحریر کیا تھا جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اخبارات کی رپورٹنگ کے موضوع پر تھا۔ اس دوران تحقیقی طریقہ کار اور انداز تحریر پر ان کی گرفت اور رہنمائی میرے ساتھ ہر قدم پر رہی۔ کسے معلوم تھا کہ بعد میں خود بھی میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو جاؤں گا اور یہ ہنر ساری زندگی میرے کام آئے گا۔

سنا ہے کہ اس دور میں لکھے گئے کسی تحقیقی مقالے کی کاپی شعبے میں (جو اب سکول آف میڈیا سٹڈیز بن چکاہے) موجود نہیں ہے۔ یہ بھی شنید ہے کہ جگہ کی کمی کے باعث ایک خاص عرصے کے دوران، لکھے گئے تمام تحقیقی مقالوں کو تلف کر دیا گیا تھا۔ یقین تو نہیں آتا کہ علم کے ایک قدیم گہوارے میں ایسا بھی ہو سکتا ہے۔

یونیورسٹی سے فارغ ہو کر ہم سب دوست اپنی اپنی راہوں کو ہو لئے مگر سر مہدی سے میرا تعلق کم سہی مگر کسی نہ کسی صورت ضرور رہا۔ پی ٹی وی نیوز میں ملازمت کے بعد میں امریکہ چلا آیا اور پی ایچ ڈی کے بعد یہیں کا ہو رہا۔ سر مہدی اس دوران ڈاکٹر مہدی حسن ہو گئے اور کئی کتابوں کے مصنف بھی۔ ملکی امور اور میڈیا کے ماہر ہونے کے علاوہ ان کی شناخت ایک مقرر کی حیثیت سے بھی ہونے لگی تھی۔ پراثر انداز اور دھیمے لہجے میں وہ اس طرح دلائل دیتے کہ سننے والا قائل ہو جاتا۔ ملکی اور غیر ملکی اخبارات، بی بی سی اور دوسرے عالمی ذرائع ابلاغ میں ملکی اور علمی امور پر ان کے تبصرے بے باک اور دوٹوک ہوتے۔ یو ٹیوب پر ان کی تقاریر، ٹی وی مذاکرے اور تبصروں میں ان کا یہ انداز ان کی پہچان کے طور پر نظر آتا ہے۔

بلا کی یادداشت تھی سر مہدی کی۔ تمام شاگردوں کا نام اور ان کے حالات انہیں ازبر ہوتے۔ فون اور ای میل کے ذریعے ان سے تعلق ہمیشہ رہا۔ جنوری 2008ء میں میرے مجموعہ کلام کی تقریب اجرا لاہور پریس کلب میں رکھی گئی تھی جس میں انہوں نے تقریر کرتے ہوئے مجھے نصیحت کی کہ واپس آ کر وطن کی خدمت کروں۔ یہ ان سے دو بدو ملاقات کا آخری موقع تھا اور میں انہیں یہ نہیں بتا سکاکہ تمام کوششوں کے باوجود میں کیوں وطن واپس نہیں آ سکا۔

پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بیکن ہاؤس یونیورسٹی میں میڈیا کے ڈین ہو گئے تھے اور یہ ان کی آخری ملازمت تھی۔ اس دوران ان سے فون پر بات ہوئی تو اس عمر میں بھی ان کا ارادہ ریٹائر ہونے کا نہیں تھا اور ہوا بھی یہی۔ کئی اداروں میں ملازمت کی اور تقریبات میں مقر ر کی حیثیت سے بلائے جاتے رہے۔

ان کی پوری زندگی جراتِ اظہار، تحمل اورپیشہ وارانہ دیانتداری کا نمونہ تھی۔ جراتِ اظہار ایسی کہ ہر آمر کے سامنے نعرہ حق بلند کیا اور اس کے لئے سختیاں تک برداشت کیں، جیل بھی گئے اور ملازمت سے ہاتھ بھی دھوئے۔ وہ سچ کو صحافت کی پہلی شرط قرار دیتے تھے۔ تحمل ایسا کہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں تمام زیادتیوں اور حریفوں کے استحصال کو پامردی سے برداشت کیا۔ ہم نے انہیں کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔ جب کبھی غصہ آتا چہرہ سرخ ہو جاتا اور خاموش نظر آتے۔

ان کے آخری دنوں میں اکثر ان سے فیس بک اور ای میل پر رابطہ رہا مگر ان کی تصاویر سے اندازہ ہونے لگا تھا کہ ان کی صحت اب وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔ اسی دوران انہوں نے میرے سپرد ایک اہم کام کیا۔ پھرمعلوم ہوا کہ وہ وہ ہسپتا ل داخل ہو گئے ہیں۔ بیماری کی حالت میں بھی اپنے صاحب زادے کے ذریعے مجھے کہلوایا کہ اس کام کو پوری دیانتداری سے سرانجام دوں۔ پھر ایک دن طلاع آئی کہ وہ اب اس دنیامیں نہیں رہے۔ شایدایک شاگرد کے لئے ان کا یہ آخری سبق تھا جو مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ خدا حافظ سر مہدی!

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔