لاہور (جدوجہد رپورٹ) فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بلند سطح کی ذمہ داران میں آج بھی امریکہ دنیا میں سب بڑا ملک ہے۔
’رائٹرز‘ پر جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ اور چین دونوں تاریکی اور موجودہ مطلق اخراج کے لحاظ سے سب سے اوپر ہیں لیکن اگر فی کس اخراج کو دیکھیں تو چین درجہ بندی میں کافی نیچے آ جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ صرف سائنسی اعداد و شمار کا نہیں بلکہ پیسے کا بھی سوال ہے۔ غریب ممالک کا کہنا ہے کہ امیر ممالک کو اپنی توانائی کی منتقلی کیلئے ادائیگی کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔
انکا یہ بھی کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک، جنہوں نے اپنی معیشتوں کو بڑھانے کیلئے تقریباً 200 سال ایندھن جلانے میں گزارے ہیں، انہیں پہلے فوسل فیول چھوڑنا چاہیے اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کو گرین توانائی میں سرمایہ کاری کرنے میں مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ اسی راستے پر چلنے سے گریز کریں۔
ابھی تک امیر ممالک نے غریب ممالک کو ماحولیاتی امداد فراہم کرنے کے اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا ہے۔
یہ سوالات اسکاٹ لینڈ کے گلاسگو میں ہونے والی COP26 سربراہی کانفرنس سمیت ماحولیات کے حوالے سے ہونے والی بات چیت کا ایک اہم نکتہ بن چکے ہیں۔
مجموعی نقطہ نظر سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ ممالک، جو فی الحال بہت زیادہ گرین ہاؤس گیسیں خارج کرتے ہیں، ان پر تاریخی بڑے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والے ملکوں کے مقابلے میں ماحولیاتی تبدیلی کی مجموعی ذمہ داری نسبتاً کم ہے۔
صنعتی انقلاب کے بعد مجموعی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سب سے زیادہ مقدار خارج کرنے والے ممالک کی فہرست میں امریکہ سرفہرست ہے۔ صنعتی انقلاب سے اب تک چین کے اخراج کی تعداد امریکہ کے مقابلے میں صرف نصف ہے۔
کسی ملک کے سالانہ اخراج کے بارے میں پوچھنا اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کرنے کا ایک عام طریقہ ہے کہ سب سے بڑا اخراج کرنے والا کون ہے۔ اس زاویے سے چین دوسرے تمام ملکوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور امریکہ دوسرے نمبر پر ہے۔ بھارت 2020ء میں عالمی CO2 کے 7 فیصد اخراج کے ساتھ تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔
تاہم اگر ہم کسی ملک کے فی شخص موجودہ اخراج کے بارے میں پوچھیں تو فہرست میں تبدیلی آ جاتی ہے اور قطر سب سے اوپر پہنچ جاتا ہے۔ امریکہ 13 ویں نمبر پر پہنچ جاتا ہے اور چین اس فہرست میں 41 ویں نمبر پر ہے۔
بھارت مطلق سالانہ اخراج کے لحاظ سے ایک بڑا آلودگی پھیلانے والا ملک ہے۔ تاہم وسیع آبادی کی وجہ سے فی شخص اخراج میں 131 ویں نمبر پر آتا ہے۔ بھارت میں بہت سے لوگوں کو بجلی تک بھی رسائی نہیں ہے۔
اس سے فرق پڑتا ہے کہ سب سے بڑے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والے کا سوال کس طریقہ سے پوچھا جاتا ہے، کیونکہ جیسے جیسے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات زیادہ نظر آتے ہیں، اسی طرح الزام کے سوالات بھی ہوتے ہیں۔
دریں اثنا ماحولیات سے متعلق سخت پالیسیوں کی ضرورت اور اخراج کو کم کرنے اور نئی ماحولیات کے مطابق ڈھالنے کیلئے درکار رقم کی اجرائیگی میں بہت زیادہ جلدی کی جانا مقصود ہو جاتی ہے۔