لاہور (حارث قدیر) ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش کے انتخابات میں مقبولیت کم ہونے کے باوجود واضح برتری حاصل ہو گئی ہے۔ پنجاب میں کانگریس کو عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اتراکھنڈ، منی پور اور گووا کی ریاستوں میں بھی بی جی پی کو کامیابی ملی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق عام آدمی پارٹی کو پنجاب میں فاتح قرار دیا گیا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے 92 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اتر پردیش میں بی جی پی کو ماضی کی نسبت نشستوں میں کمی کے باوجود 250 سے زائد نشستیں حاصل ہو ئی ہیں۔ اسطرح یوگی آدتیہ ناتھ مسلسل دوسری بار یو پی کے وزیر اعلیٰ بننے کیلئے سادہ اکثریت حاصل کر چکے ہیں۔
بی جے پی نے گوا میں 40 میں سے 20 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اترا کھنڈ اسمبلی کی 70 میں سے 47 نشستوں پر بی جے پی کو کامیابی ملی ہے۔ تاہم اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی اپنی نشست ہار گئے ہیں۔
شمال مشرقی ریاست منی پور میں بی جے پی نے 60 میں سے 32 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
5 بھارتی ریاستوں میں مجموعی طور پر 690 نشستوں کے ووٹوں کی گنتی گزشتہ روز 10 مارچ کی صبح 8 بجے شروع ہوئی تھی۔ پنجاب، اتر پردیش، اترا کھنڈ، گووا اور منی پورکے انتخابات 10 فروری کو شرع ہوئے تھے۔ اتر پردیش کے انتخابات سات مرحلوں پر مشتمل تھے اور 7 مارچ کو اختتام پذیر ہوئے۔ منی پور میں دو مرحلوں میں 28 فروری اور 5 مارچ کو انتخابات ہوئے۔ پنجاب میں 20 فروری، جبکہ اتراکھنڈ اور گووا میں 14 فروری کو انتخابات کیلئے پولنگ ہوئی تھی۔
انتخابات کے نتائج کو جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندوتوا کی سیاست کی مقبولیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، وہیں کانگریس سمیت مقامی اپوزیشن جماعتوں اور بائیں بازو کی محض سیکولرازم اور شناختی سیاست پر مبنی پالیسیوں کے باعث متبادل کے فقدان کو بھی ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذمہ داران نے انتخابات میں مسلم مخالف بیان بازی اور تشدد کو ہوا دینے کی بھرپور کوشش بھی کی ہے۔ ترقی، وکاس اور روزگار کے نعروں پر اقتدار میں آنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کی کورونا وبا کے دوران ناقص پالیسیوں، نیو لبرل معاشی پالیسیوں کے نفاذ، کسان مخالف قانون سازی اور بڑے پیمانے پر نجکاری کے ذریعے سرمایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کی پالیسیوں کی وجہ سے بے روزگاری، مہنگائی اور سماجی و معاشی مسائل میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
تاہم حقیقی مسائل کو معاشرے پر فسطائیت کے تسلط، ہندو قوم پرستی کے ابھار، مسلم مخالف متشدد سیاست اور ریاستی جبر کے ذریعے دبانے کی پالیسی کو انتہائی کامیابی سے اپنایا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے بھارتی سماج تقسیم در تقسیم کا شکار ہو چکا ہے۔ تاہم سنجیدہ متبادل قیادت کے شدید بحران اور کانگریس سمیت بائیں بازو کی جماعتوں کی مبہم اور مصالحانہ پالیسیوں نے ہندو توا کے معاشی اور سیاسی جبر کو بھارتی سماج پر قائم رکھنے میں مدد فراہم کی ہے۔
اتر پردیش میں اپوزیشن سماج وادی پارٹی کی جانب سے سیکولر مہم نے مختلف چھوٹی ذاتوں اور مسلم کمیونٹی کے ووٹروں کو ان کی جانب راغب ضرور کیا، تاہم وہ بی جے پی کو واضح نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ یو پی کے کسان بھی ایک بااثر ووٹ بینک کی حیثیت رکھتے ہیں اور کسانوں نے بی جے پی حکومت کے زرعی قوانین کے خلاف سخت مزاحمت کی۔ تاہم وہ بی جے پی کی شکست کویقینی بنانے میں ناکام رہے ہیں۔
دوسری جانب کانگریس پنجاب جیسی اہم ریاست میں اقتدار کے باوجود عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہو گئی ہے۔ عام آدمی پارٹی نے 117 میں سے 92 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
کانگریس کے اترا کھنڈ اور گووا جیسی ریاستوں میں بی جے پی سے سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی تھی۔ تاہم وہاں بھی کانگریس کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بھارت کے محنت کشوں کو سیکولر اور ہندو قوم پرست سیاست کی پولرائزیشن میں تقسیم کرتے ہوئے نیو لبرل پالیسیوں کے اطلاق کے ذریعے حکمران طبقات کی لوٹ مار کا یہ سلسلہ صرف بی جے پی کو شکست دینے سے نہیں بلکہ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کی بساط کو لپیٹتے ہوئے ایک سوشلسٹ ہندوستان کی تعمیر سے ہی روکا جا سکتا ہے۔