راولاکوٹ (حارث قدیر) پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں تحریک انصاف کے حکومتی اراکین نے اپنے ہی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر کے سینئر وزیر کو وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ حکومتی اراکین کے اس اقدام نے تحریک عدم اعتماد کی تیاری میں مصروف اپوزیشن جماعتوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔
سپیکر قانون ساز اسمبلی چوہدری انوار الحق نے جمعہ 15 اپریل کو ساڑھے 10 بجے اسمبلی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔
منگل کے روز وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی کے خلاف تحریک عدم اعتماد وزیر خزانہ عبدالماجد خان کے ہمراہ مشیر حکومت اکبر ابراہیم اور ممبر اسمبلی علی شان سونے کی جانب سے اسمبلی میں پیش کی گئی ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک میں سینئر وزیر اور معروف کاروباری شخصیت تنویر الیاس کو وزیر اعظم نامزد کیا گیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد پر 25 اراکین اسمبلی کے نام اور دستخط بھی درج ہیں۔ تحریک عدم اعتماد پر اکثریتی وزرا حکومت کے دستخط موجود ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کے مندرجات میں لکھا گیا ہے کہ وزیر اعظم پارلیمانی پارٹی کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے منشور پر عملدرآمد نہیں کر سکے۔ اقربا پروری، میرٹ کی پامالی اور گڈ گورننس کے فقدان، مسئلہ کشمیر کو اجاگر نہ کرنے کی بنا پر اکثریت کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔ لہٰذا ان کے متبادل کے طور پر تنویر الیاس ممبر قانون ساز اسمبلی کو بطور جانشین تجویز کیاجاتا ہے۔
عبوری آئین ایکٹ 74ء کے آرٹیکل 18 کے تحت پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد پر کم سے کم 3 اور زیادہ سے زیادہ 7 روز کے اندر ووٹنگ کروانا ضروری ہے۔ ایوان کے اراکین کی مجموعی تعداد کے نصف سے زائد ووٹ لینے کی صورت تحریک عدم اعتماد کامیاب اور تجویز کردہ جانشین نیا وزیر اعظم منتخب قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کی صورت 6 ماہ تک وزیر اعظم کے خلاف کسی قسم کی تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے پر آئینی پابندی ہو گی۔
آئین میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں دوسری تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے متعلق مدت کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔
تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والے اراکین میں سے ایک وزیر حکومت خواجہ فاروق نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی منظوری سے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی سازش ناکام بنانے کیلئے یہ تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہے۔
تاہم وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی نے میڈیا سے گفتگو کے دوران چیئرمین تحریک انصاف کی منظوری سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تحریک عدم اعتماد میں بیرونی سازش نہیں بلکہ اندرونی لوگوں کا ہی ہاتھ ہے۔
وزیر اعظم کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ استعفیٰ دینے اور تحریک کا سامنا کرنے کے دو آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔ جلد اس بابت فیصلہ کر لیا جائے گا۔ تاہم اندرونی ذرائع کا دعویٰ یہ ہے کہ وزیر اعظم اپوزیشن جماعتوں اور ایک اتحادی جماعت سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان بھی کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ابھی تک اس حکومتی چال کے جواب میں کوئی واضح لائحہ عمل ترتیب نہیں دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنماؤں کے مطابق وزیر اعظم کے مستعفی ہونے یاتحریک عدم اعتماد کے ساتھ اپوزیشن کی تحریک بھی جمع کروا کر اپوزیشن کے نامزد کردہ وزیر اعظم کو منتخب کروانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے فوری بعد نئی تحریک لائی جا سکتی ہے۔
دونوں صورتوں میں یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ 2006ء سے 2011ء تک کی اسمبلی کی طرز پر اقتدار کی ’میوزیکل چیئر‘ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور یہ اسمبلی توڑے جانے یا مدت کی تکمیل تک جاری رہنے کے قوی امکانات موجود ہیں۔
آئینی ماہرین کے مطابق وزیر اعظم کے عدم اعتماد کا سامنا کرنے کی بجائے استعفیٰ دے دینے کی صورت میں تحریک عدم اعتماد غیر اہم ہو جائے گی اوراسمبلی نئے وزیر اعظم کا انتخاب کرے گی، جس میں اپوزیشن اپنا امیدوار بھی نامزد کر کے اسے کامیاب کروا سکتی ہے۔
تاہم کچھ آئینی ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ جمع شدہ تحریک عدم اعتماد میں بھی اپوزیشن اپنا امیدوار دے سکتی ہے۔ تاہم آئین (ایکٹ74ء) اس حوالے سے خاموش ہے۔ آئین میں یہ وضاحت ہی موجود ہے کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کی صورت میں 6 ماہ تک دوبارہ پیش نہیں کی جا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے تحریک عدم اعتماد کی تیاری مکمل کر رکھی تھی۔ تحریک انصاف کے سابق صدر اور موجود ریاستی صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اپنے گروپ کے ہمراہ اپوزیشن کے ساتھ معاملات طے کر چکے تھے۔ ایک یا دو روز میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جانی تھی۔
اس حوالے سے بیرسٹر سلطان کے قریبی ذرائع کا دعویٰ تھا کہ تمام تر معاملات طے ہو چکے ہیں اور بیرسٹر سلطان بطور صدر عہدے پر برقرار رہیں گے، جبکہ وزیر اعظم کا عہدہ پیپلزپارٹی کو دیا جائے گا۔
تاہم پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بیرسٹر سلطان محمود کی بطور صدر عہدے پر برقرار رہنے کی شرط پر ڈیڈ لاک قائم تھا۔ ابھی معاملات مکمل طور پر طے نہیں ہوئے تھے، سابق وزیر امور کشمیر علی امین گنڈہ پور کی لابنگ کے باعث تنویر الیاس اور بیرسٹر سلطان نے سیاسی دشمنی ترک کر کے اتحاد قائم کر لیا ہے۔
یاد رہے کہ سینئر وزیر تنویر الیاس پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت سے بھی مشاورت میں شامل رہے ہیں۔ وہ بطور وزیر اعظم سامنے آنے کیلئے تحریک عدم اعتماد میں پیپلزپارٹی کی حمایت چاہتے تھے۔ تاہم پاکستان کی قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہو جانے کے بعدان کیلئے یہ صورتحال دشوار ہو چکی تھی۔
یوں تو پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی پاکستان کی وفاقی حکومت کی طرف سے تیار کردہ ایک ’عبوری آئین‘کے تحت چلائی جاتی ہے۔ تاہم اسکا انتظام و انصرام آخری تجزیے میں پاکستان کے وفاق میں قائم حکومت کے پاس ہی ہوتا ہے۔ جب بھی پاکستان میں سیاسی بحران یا حکومت کی تبدیلی کا عمل سامنے آتا ہے، تو پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں حکومت کی تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔
مشرف حکومت کے خاتمے کے بعد یہاں منتخب مسلم کانفرنس کی حکومت کے خلاف تین مرتبہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والے اراکین کی اکثریت ایک ہی لوگوں پر مشتمل تھی۔ موجودہ حکومت میں بطور وزیر خزانہ شامل اورمہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کی نشست پر منتخب ہونے والے عبدالماجد خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اس قانون ساز اسمبلی میں پیش ہونے والی چاروں عدم اعتماد کی تحریکوں کے بنیادی محرک رہے ہیں۔
گزشتہ سال انتخابات میں برسراقتدار آنے والی تحریک انصاف کی حکومت کے حوالے سے اسی وقت یہ پیش گوئی کی جا رہی تھی کہ اس کا مستقبل بھی 2006ء میں منتخب ہونے والی مسلم کانفرنس کی حکومت کی طرز کا ہی ہونے والا ہے۔ تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے کیلئے ابتدائی مدت مکمل ہونے کے فوری بعد تحریک عدم اعتماد کی تیاریاں شروع کر دی گئی تھیں۔
تاہم حکومت کی جانب سے حالیہ اقدام نے اپوزیشن کو بھی مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ حکمران اشرافیہ کی اقتدار کی اقتدار کی اس رسہ کشی کی وجہ سے ہی گزشتہ 7 ماہ کے دوران نئی منتخب ہونے والی حکومت کوئی ایک قانون سازی کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ مستقبل میں بھی اقتدار کی یہ رسہ کشی طوالت اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہے۔