لاہور (جدوجہد رپورٹ) بھارت نے امریکی دباؤ کے باوجود روس سے سستا تیل خریدا ہے۔ ماسکو نئی دہلی کو مزید تیل کی پیشکش کر رہا ہے، جو کہ تنازع سے پہلے کی قیمتوں سے بھی 35 امریکی ڈالر فی بیرل تک کی رعایتی قیمت پر فراہم کیا جائے گا۔ عالمی مارکیٹ میں اس وقت خام تیل 100 ڈالر فی بیرل سے بلند سطح پر ہے۔
’ٹیلی سور‘ کے مطابق یوکرین کے بحران کے بعد ماسکو کی طرف سے پیش کردہ بھاری رعایتی قیمتوں کے پیش نظر بھارت نے 24 فروری سے روس سے کم از کم 13 ملین بیرل تیل خریدا ہے۔ 2021ء میں پورے سال میں بھارت نے روس سے تقریباً 16 ملین بیرل تیل خریدا تھا۔
بھارت تیل کا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا صارف ہے اور 80 فیصد سے زیادہ دوسرے ملکوں سے درآمد کرتا ہے۔ گزشتہ سال بھارت کی تیل کی سپلائی کی اکثریت مشرق وسطیٰ، امریکہ اور نائجیریا سے آئی تھی۔ 2021ء میں بھارت کی درآمدات میں روس کا صرف 2 فیصد حصہ تھا۔
روس تیل کی برآمدات کیلئے قیمتوں میں چھوٹ دے کر نئی منڈیوں کی تلاش میں ہے۔ بھارتی کمپنیوں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روس سے درآمدات میں اضافہ کیا ہے۔ تاہم روسی بینکوں پر پابندیوں کے تناظر میں ان کمپنیوں کو ایک چیلنج کا سامنا ہے کہ ان رعایتی خریداریوں کیلئے ادائیگی کیسے کی جائے۔
بھارت اور روس روپیہ اور روبل کا تجارتی نظام قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دونوں ممالک کے مالیاتی حکام کے درمیان بات چیت جاری ہے۔ تمام ممکنہ ادائیگی کے طریقہ کار کیلئے دیگر اختیارات بھی تلاش کئے جا رہے ہیں۔
امریکی عہدیداروں کے دورہ بھارت کے بعد روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے نئی دہلی کا دورہ کیا تھا۔ امریکی عہدیداروں نے بھارت کو روس کے ساتھ کاروبار نہ کرنے کیلئے راضی کرنی کی کوشش کی تھی۔
تاہم بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کا کہنا ہے کہ ”میں اپنی توانائی کی حفاظت کو سب سے پہلے رکھوں گا۔ اگر ایندھن رعایتی قیمت پر دستیاب ہے تو میں اسے کیوں نہ خریدوں؟ ہمیں کافی تعداد میں تیل ملا ہے۔ بھارت کے مجموعی مفاد کو ذہن میں رکھاگیا ہے۔“
انکا کہنا تھا کہ ماسکو نئی دہلی کو مزید تیل کی پیشکش کر رہا ہے، جو کہ تنازع سے پہلے کی قیمتوں سے بھی 35 امریکی ڈالر فی بیرل تک رعایت پر ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈسکاؤنٹ پر خام تیل خریدنے سے بھارت کو کسی حد تک اپنی مارکیٹ میں قیمتیں کم رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
دوسری طرف امریکہ بھارت کو اپنے حصار میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وائٹ ہاؤس پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کو روس سے تیل کی خریداری میں اضافہ کرنے نہیں دینا چاہتا۔ وائٹ ہاؤس نے کہا کہ وہ نئی دہلی کی توانائی کی درآمدات کو متنوع بنانے میں مدد کرنے کیلئے تیار ہے۔
وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جین پی ایس نے کہا کہ ”ہم نہیں سمجھتے کہ بھارت کو روسی توانائی اور دیگر اشیا کی درآمد میں تیزی سے اضافہ کرنا چاہیے، حالانکہ ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ انفرادی ممالک کرتے ہیں۔“