لاہور (جدوجہد رپورٹ) عوامی ورکرز پارٹی ہنزہ کی طرف سے جاری ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ہنزہ میں سیاحوں کی تعداد میں آئے روز اضافے کے ساتھ ساتھ یہاں کی زمینوں کی قدر بڑھتی جا رہی ہے۔ پورے ملک میں زمینوں کی سرکاری قیمت مارکیٹ قیمت سے زیادہ ہے، تاہم گلگت بلتستان میں، جہاں غیر مقامی کو خریدنے کا حق ہی نہیں، اس وجہ سے سر کاری قیمتیں مارکیٹ کی قیمتوں سے انتہائی کم ہیں۔ سرکاری طور پر زمینیں حاصل کرنے پر بعض اوقات جابرانہ دینے کی بات کی جاتی ہے، لیکن سرکاری قیمت کے ساتھ جابرانہ ملا کر بھی مارکیٹ کی قیمت سے نصف قیمت کا تعین بھی نہیں کیا جاتا ہے۔
آخون بایے اطہرکی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سرکاری ادارے، چاہے وہ دفاعی ہو یا سول، کو جب بھی زمین کی ضرورت پڑتی ہے، وہ اسے مفت یا بہت کم قیمت پر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ علی آباد میں ڈپٹی کمشنر سیکرٹریٹ کیلئے کسی کی ملکیتی زمین پر قبضہ کی کوشش، پھسو میں سی پیک پولیس اسٹیشن اور عسکری ادارے کی طرف سے ایک ارب روپے سے زائد مالیت کی 200 کنال اراضی صرف 6 کروڑ روپے میں ہتھیانے، عطا آباد جھیل پر دفعہ 144 عائد کر کے مقامی آبادی کو تعمیرات سے روکنے اور جھیل قبضے کی کوششوں سمیت دیگر اس طرح کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔
پریس ریلیز کے مطابق معدنیات کے لائسنس چند ہزار روپے کی فیسوں کے عوض من پسند سرمایہ داروں کو عنایت کئے جاتے ہیں، جو نہ ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ کے اصول کو مانتے ہیں اور نہ ہی مقامی لوگوں کو حصہ دینا گوارہ کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ ناصر آباد ماربل، خیبر ماربل، چپورسن ملوں ڈین ریزروائر کے معاملے میں جاری ہے اور کئی جگہوں پر پلیسر گولڈ کے معاملے میں بھی متعلقہ گاؤں کے عوام پہ دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ سرمایہ دار کی شرائط پہ کان کنی کی اجازت دیں۔ کئی لیز ابھی پائپ لائن میں ہیں اور فی الحال رکے ہوئے ہیں، لیکن یہ پابندی ختم ہوتے ہی جبری قبضے کا یہ سلسلہ پھر سے شروع ہونے کا خدشہ ہے۔
پریس ریلیز میں گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ جس حد تک ممکن ہو معدنیات کی کان کنی کر کے اس کی آمدن کو صوبے کی آمدن میں شامل کیا جائے۔ ماحولیاتی تحفظ کے تمام اصولوں پر کار بند رہیں اور ہر کمپنی کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ متعلقہ گاؤں کے لوگوں کی مرضی کے خلاف کام نہ کریں۔ انہیں اس بات کا بھی پابند کیا جائے کہ وہ کان کنی کی آمدن سے ایک معقول حصہ گاؤں کو دیں تاکہ وہاں مقامی سطح کے ترقیاتی کام کئے جا سکیں۔
یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ جبراً زمینوں پر قبضوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔ زمینوں کے سرکاری نرخ مارکیٹ ریٹ سے زیادہ کئے جائیں اور کسی بھی پراجیکٹ کیلئے اراضی درکار ہو تو باقاعدہ پیشگی معاوضہ ادا کرنے کے بعد اسے اپنے استعمال میں لیا جائے۔ کسی بھی غیر مقامی کو زمین خریدنے کی اجازت نہ دی جائے۔