لاہور (جدوجہد رپورٹ) پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ اور پشتون کونسل سے تعلق رکھنے والے طلبہ پر اسلامی جمعیت طلبہ کے مسلح کارکنوں نے حملہ کیا، جس میں 5 طلبہ زخمی ہوئے، جبکہ پولیس نے حملے کا شکار طلبہ رہنماؤں کو ہی گرفتار کر لیا۔
بعد ازاں گرفتار طلبہ کے ساتھ یکجہتی کرنے اور ملاقات کرنے کیلئے جانے والے دو طالبعلموں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ تاہم انہیں رات پولیس اسٹیشن میں رکھنے کے بعد جمعہ کی صبح بغیر کسی کارروائی کے رہا کر دیا گیا تھا۔
’ہم نیوز‘ کے مطابق پنجاب یونیورسٹی میں دو طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم ہوا، جس میں 5 طلبہ زخمی ہوئے اور پولیس نے 11 طلبہ کو گرفتار کر لیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے الیکٹریکل ڈپاٹمنٹ کے گراؤنڈ میں ایک طلبہ تنظیموں کے درمیان پہلے جھگڑا ہوا اور پھر جب ایک تنظیم نے ریلی نکالی تو تصادم ہوا۔
جنرل سیکرٹری پاکستان کسان رابطہ کمیٹی اور رہنما حقوق خلق پارٹی فاروق طارق کے مطابق جمعرات کے روز پنجاب یونیورسٹی میں پشتون اور بلوچ طلبہ کا معمولی بات پر جھگڑا ہوا۔ بعد ازاں انتظامیہ نے موقع پر دونوں گروہوں کی صلح بھی کروا دی۔ تاہم کچھ دیر بعد پشتون سٹوڈنٹس موومنٹ کے چیئرمین ریاض خان پنجاب یونیورسٹی کیمیکل انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ سے گزر رہے تھے تو ان پر اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں نے حملہ کر دیا، اس دوران ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔ پولیس موقع پر موجود رہنے کے باوجود خاموش تماشائی بنی رہی، جبکہ حملہ کا شکار ہونے والے ریاض خان سمیت باقی طلبہ کو ہی گرفتار کر لیا گیا۔
انکا کہنا تھا کہ لڑائی کے دوران دونوں اطراف کے طلبہ زخمی ہوئے لیکن پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس فیڈریشن کے زخمی طلبہ کا میڈیکل بھی نہیں بنایا جا رہا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے صدر قیصر جاوید اورنائب صدر علی رضا طلبہ کیلئے بات کرنے گئے تو پولیس نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی اور انہیں لاک اپ میں بند کر دیا۔
انہوں نے پولیس گردی کی مذمت کرتے ہوئے گرفتار رہنماؤں کی فی الفور رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔
آر ایس ایف کے مرکزی آرگنائزر اویس قرنی نے اپنے ایک بیان میں جمعیت کو ایک شکست خوردہ وحشت قرار دیتے ہوئے گرفتار طلبہ کو فوری رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ’جمعیت ایک شکست خوردہ وحشت ہے۔ طلبہ کی مشترکہ جدوجہد ہی اس کو ہمیشہ کے لیے دفن کر سکتی ہے۔ اس کا کھوکھلا پن ہی اس کے پرتشدد ہونے کی دلیل ہے۔ یہ صرف انتظامیہ اور ریاستی سرپرستی کے باعث اپنا وجود قائم کیے ہوئے ہے۔ پنجاب یونیورسٹی اور لاہور پولیس کی جانب سے چیئرمین پشتون کونسل پنجاب یونیورسٹی ریاض خان سمیت 25 طلبہ کی گرفتاری نے انتظامیہ جمعیت گٹھ جوڑ کا پردہ فاش کر دیا ہے۔ جمعیت کی ریاستی و انتظامی سرپرستی بند کی جائے اور اس کو کالعدم قرار دیا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کی غنڈہ گردی کی مذمت کرتے ہیں اور طلبہ سے مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔
پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹو کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں بتایا گیا کہ پی ایس سی کے صدر قیصر جاوید اور نائب صدر علی رضا کو جمعہ کی صبح بغیر کارروائی کے رہا کر دیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ’پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کا امن قائم کرنے کا یہ انوکھا طریقہ ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے مشتعل حملہ آور آزاد گھوم رہے ہیں اور حملے کا شکار ہونے والے طلبہ سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ سی ایس او پنجاب یونیورسٹی اور وائس چانسلر طلبہ کے حفاظت میں بار بار ناکام رہتے ہیں۔‘
بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے جنرل سیکرٹری آصف بلوچ نے ٹویٹر پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ اور پشتون طلبہ کو جمعیت نے تشدد کا نشانہ بنایااور بعد میں انتظامیہ نے انہیں ہی جیل بھیج دیا۔ جمعیت کو ضلعی اور یونیورسٹی انتظامیہ کے طرف سے مکمل تحفظ حاصل ہے۔ اس طرح کے ہتھکنڈے بلوچ اور پشتون طلبہ پر ایک منظم ظلم ہے۔‘