تاریخ

عبداللہ بٹ کی جدوجہد جاری رہے گی

فاروق طارق

ٹریڈ یونین رہنما عبداللہ بٹ کو تین روز قبل لاہور کے نواحی علاقے مریدکے میں قتل کر دیا گیا۔ وہ صبح کی سیر سے واپسی پر ایک جھگڑے کو ختم کروانے کی کوشش کر رہے تھے، اس دوران ایک شخص نے گولی چلا دی، جو عبداللہ بٹ کو لگی اور وہ موقع پر ہی فوت ہو گئے۔

عبداللہ بٹ راوی ریان فیکٹری میں ملازم رہے ہیں۔ یہ فیکٹری اس وقت سرکاری فیکٹری تھی۔ عبداللہ بٹ وہاں ٹریڈ یونین رہنما تھے اور غلام دستگیر محبوب کے ساتھ کم کرتے تھے۔فیکٹری کی نجکاری کے خلاف تحریک کے دوران عبداللہ بٹ کے ساتھ ہمیں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ عبداللہ بٹ کے تین بیٹے ہیں۔ ان کے بیٹے حیدر علی بٹ حقوق خلق پارٹی کے نائب صدر اور پراگریسیو ڈیموکریٹک لائرز فورم کے مرکزی رہنما ہیں۔ وہ پچھلے عرصہ میں ملک بھر میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے چلنے والی مقبول طلبہ تحریک کے بھی مرکزی رہنما تھے۔ ان کے دوسرے بیٹے علی شیر بٹ پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو کے رہنما ہیں۔

مریدکے کے نواحی علاقے میں رونما ہونے والا یہ ایک اچانک واقعہ تھا، جو ہم سب کو دکھی کر گیا ہے۔ عبداللہ بٹ ایک ایسے رہنما تھے جو پورے کمیونٹی میں اثر و رسوخ رکھتے تھے اور علاقے کے مسائل حل کرواتے تھے۔ وہ اپنے علاقے کے ایک مقبول رہنما تھے۔ ان کی نماز جنازہ میں بارش کے باوجود ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور انتہائی رنج و غم کی حالت میں انہیں الوداع کہا۔ حیدر بٹ اور ان کے دونوں بھائی بھی غمگین حالت میں اپنے والد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آنے والوں کی مہمان نوازی کر رہے تھے۔

راوی ریان فیکٹری کو نوازشریف کے دور میں 1992میں پرائیویٹائز کر دیا گیا تھا۔ اس سے قبل پیپلزپارٹی کے دور میں نجکاری کے خلاف ایک زبردست احتجاجی مہم چلی تھی۔ اس دور میں کالا شا کاکو کے اندر اتحاد کیمیکل، راوی ریان اور دیگر پبلک سیکٹر فیکٹریوں کی نجکاری کے خلاف ہم نے ایک مہم شروع کی تھی۔ راقم اس وقت اینٹی ڈی نیشنلائزیشن ایکشن کمیٹی(ایڈنیک) کا جنرل سیکرٹری تھا۔ یہ نجکاری کے خلاف پاکستان میں بننے والی پہلی بڑی تحریک تھی، جو جدوجہد گروپ نے شروع کی تھی۔

اس دور میں ہم راوی ریان باقاعدگی سے جاتے تھے اور عبداللہ بٹ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر نجکاری مخالف مہم چلاتے تھے۔ اتحاد کیمیکل اور راوی ریان فیکٹریوں کے درمیان سڑک پر نجکاری کے خلاف ایک بہت بڑا جلسہ بھی منعقد کیا گیا تھا، جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی تھی۔

اس فیکٹری کو پیپلزپارٹی کی پہلے دور حکومت میں قومی تحویل میں لیا گیا تھا۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی نے ہی اس کی نجکاری کا فیصلہ کیا، تاہم وہ یہ کام کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ اس کے بعد نوازشریف نے اس فیکٹری کو فروخت کیا۔ اس فیکٹری کو انتہائی ارزاں نرخوں فروخت کیا گیا تھا اور اب اس کے مالک اربوں روپے کما رہے ہیں۔

عبداللہ بٹ اس تحریک کے مرکزی رہنما تھے، تاہم فیکٹری پرائیویٹائز ہونے کے بعد انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ اس کے بعد وہ سماجی کاموں میں مصروف ہو گئے تھے۔ علاقے میں جو بھی مسائل ہوتے، وہ ان کے حل کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ حیدر بٹ کے ہی ایک ایونٹ میں راقم کی عبداللہ بٹ سے ملاقات ہوئی۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں، تو انہوں نے بتایا کہ میں حیدر بٹ کا والد ہوں۔ ابھی حیدر بٹ کی شادی میں بھی ان سے ملاقات ہوئی تھی۔

وہ حقوق خلق پارٹی کے جلسوں میں آتے تھے۔ چونگی امر سدھو میں حقوق خلق پارٹی کا ایک بڑا جلوس اور جنرل ہسپتال کے قریب فیروزپور روڈ پر جلسہ منعقد کیا تھا۔ عبداللہ بٹ اور الطاف بلوچ بھی اس جلسے میں موجود تھے۔ عبداللہ بٹ نے ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے سرمایہ داری کے خلاف اور سوشلزم اور انقلاب کے حق میں بہت پرجوش انداز میں نعرے لگائے۔ یوں لگ رہا تھا کہ عبداللہ بٹ کی جوانی واپس آگئی ہے۔ سب لوگ انہیں کہہ رہے تھے کہ وہ پرجوش نعرے بازی میں آج بھی حیدر بٹ سے کہیں آگے ہیں۔ یہ وہ توانائی تھی جو عبداللہ بٹ میں کبھی کبھار نظر آتی تھی۔ وہ جب بھی ملتے مسکراتے ہوئے ملتے تھے۔ ان کا اچانک قتل پاکستان کی ٹریڈ یونین تحریک کے لیے ایک زبردست دھچکا ہے۔ پارٹی اور حیدر علی بٹ کے خاندان کو بھی اس اچانک موت کا بہت نقصان پہنچا ہے۔ ہم ان کے خاندان اور ساتھیوں سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں، اور یہ وعدہ کرتے ہیں کہ عبداللہ بٹ نے پاکستان میں تبدیلی اور انقلاب کا جو خواب دیکھا تھا، اس مشن کو ہم جاری و ساری رکھیں گے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔