لاہور (جدوجہد رپورٹ) طالبان نے کابل کے بعد ہرات شہر میں بھی خواتین کے 10 ریستوران بند کر دیئے ہیں۔ قبل ازیں کابل شہر میں طالبان نے خواتین کے ریستوران بند کرنے کا حکم دیا تھا۔
رواں ماہ مئی میں ہی طالبان نے ریستورانوں میں مرد و خواتین کے اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
سابق یوتھ پارلیمنٹ ممبر اور انسانی حقوق کی کارکن وزمہ توخی نے اپنے ٹویٹ میں یہ بتایا کہ ”خواتین کے ریستوران، جو واحد عوامی جگہ رہ گئی تھی جہاں خواتین کام کر سکتی تھیں، اب ان سے چھین لی گئی ہے۔ طالبان نے افغانستان کے ہیرات صوبہ میں خواتین کی طرف سے چلائے جانے والے 10 ریستوران جبری طور پر بند کر دیئے ہیں۔
’طلوع‘ نیوز کے مطابق کابل شہر میں خواتین کے ملکیتی کاروبار، خاص طور پر ریستوران اور کیفے گزشتہ ایک ماہ سے بند ہیں۔ نکی تبسم نے تین سال قبل کابل میں ایک کیفے کھولنے کیلئے 10 لاکھ روپے خرچ کئے تھے۔ انکا کہنا تھا کہ ان کے کیفے کا عملہ تمام خواتین پر مشتمل تھا، تاہم اب وہ ملازمتوں سے محروم ہو چکی ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ وہ کیفے سے روزانہ تقریباً 20 ہزار افغانی کما رہی تھیں۔ تاہم کیفے بند ہونے کے بعد وہ اور ان کی ساتھی ملازمتیں کھو چکی ہیں۔ اب اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کیلئے خواتین کام کرنے اور پیسے کمانے کے طریقے تلاش کر رہی ہیں۔
طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد افغان تاجر خواتین کو لاکھوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ کابل ورکرز یونین کے سربراہ نورالحق عمری نے کہا کہ ’خواتین کی قیادت میں سرمایہ کاری بدقسمتی سے رک گئی ہے۔ وہ اپنی ملازمتیں اور سرمایہ کھو بیٹھی ہیں۔ کچھ معاملات میں خواتین نے اپنی کمپنیوں کی مہنگی چیزیں انتہائی کم قیمت پر فروخت کر دی ہیں۔
درجنوں افغان کاروباری خواتین نے گزشتہ چند سالوں میں ملک بھر میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا شروع کی تھی اور اب یہ سلسلہ رک گیا ہے۔