لاہور (جدوجہد رپورٹ) بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں ایک ہندو بینک منیجر اور قبل ازیں ایک اسکول ٹیچر کے قتل کے بعد خوف و ہراس پھیلنے کے بعد 100 سے زیادہ ہندو خاندان کشمیر سے فرار ہو گئے ہیں۔
’رائٹرز‘ کے مطابق عسکریت پسندوں نے جمعرات کے روز ایک ہندو بینک منیجر کو قتل کر دیا۔ وجے کمار پر عسکریت پسند نے جنوبی کشمیر کے کولگام میں علاقائی دیہاتی بینک کی ایک شاخ کے اندر حملہ کیا گیا۔ اسی علاقہ میں منگل کے روز ایک سکول ٹیچر رجنی بالا کو بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ وجے کمار کا تعلق مغربی بھارتی ریاست راجستھان سے تھا۔
رواں سال کے ابتدائی 5 ماہ کے دوران کم از کم 16 افراد کو ٹارگٹ حملوں میں مارا گیا ہے۔ مارے جانے والے افراد میں ہندو، مسلمان اور مرد و خواتین دونوں شامل ہیں۔
’کشمیر فریڈم فائٹرز‘ نامی ایک غیر معروف عسکریت پسند گروپنے سوشل میڈیا پر یہ غیر ملکی لوگوں سے کہا کہ وہ وادی کشمیر میں آباد نہ ہوں۔
اس بیان میں کہا گیا کہ ’کشمیر کی آبادیاتی تبدیلی میں جو بھی ملوث ہے، وہ یہی انجام پائے گا۔‘تاہم اس بیان کی تصدیق کہیں سے نہیں ہو پا رہی ہے۔
شمالی کشمیر کے بارہمولہ میں ایک ہندو کشمیری پنڈت کالونے کے صدر اوتار کرشن بھٹ نے بتایا کہ اس علاقے میں رہنے والے 300 خاندانوں میں سے نصف منگل سے فرار ہو چکے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ ’کل (منگل) کے قتل کے بعد وہ خوفزدہ تھے۔ ہم بھی کل تک وہاں سے چلے جائیں گے کیونکہ ہم حکومتی جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ ہمیں کشمیر سے باہر منتقل کرے۔‘
مقامی رہائشیوں کے مطابق پولیس نے سری نگر میں ایک ہندو علاقے کو سیل کر دیا ہے اور ان جگہوں کے ارد گرد سکیورٹی بڑھا دی ہے، جہاں کشمیری پنڈت سرکاری ملازمین رہتے ہیں۔
مقامی انتظامیہ نے فوری طور پر فرار ہونے والے خاندانوں پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا، لیکن خطے کے اعلیٰ سرکاری اہلکار، لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے گزشتہ ماہ کشمیری پنڈتوں کو یقین دلایا تھا کہ ان کی حفاظت کیلئے اقدامات کئے جائیں۔
یاد رہے کہ 1989ء میں عسکری بغاوت کے آغاز پر ہندوؤں کی ہلاکتوں میں اضافے کی وجہ سے مبینہ طور پر تقریباً اڑھائی لاک کشمیری پنڈت کشمیر چھوڑ گئے تھے۔
موجودہ حکمران جماعت بی جے پی اس عسکری بغاوت کو ہندو پنڈتوں کی نسل کشی قرار دے کر تمام حکومتوں کو ان کی حفاظت اور دوبارہ آبادکاری نہ کرنے کیلئے مورد الزام ٹھہراتی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ وادی چھوڑ کر جانے والے پنڈتوں کو بھی واپس اپنے آبائی علاقوں میں آباد کرینگے۔
تاہم موجودہ حکومت کے فیصلوں، جموں کشمیرمیں فوجی جبر کو جاری رکھنے اور آبادیاتی تبدیلیوں کی پالیسیوں نے ایک نئی طرز کی عسکریت کو جنم دیا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران متعدد ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
گزشتہ ماہ مقامی حکومت کیلئے کام کرنے والے ایک کشمیری پنڈت کو اس کے دفتر کے اندر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پولیس ہر قتل کے بعد یہ دعویٰ کرتی ہے کہ انہوں نے ملوث عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ تاہم ہر چند روز بعد ایک نیا واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔
سابق بھارتی انٹیلی جنس چیف اے ایس دولت نے اس سلسلے کو مقامی عسکریت کے ایک نئے دور کا آغاز قرار دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اب مقامی عسکریت کو نہ صرف سماجی حمایت حاصل ہے بلکہ انتظامیہ اور پولیس کے اندر سے بھی ان کی حمایت موجود ہے۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں یہ اعتراف بھی کیا کہ بھارتی انٹیلی جنس اس نئی عسکریت کو سمجھنے میں تاحال مکمل طور پر ناکام ہے۔ کشمیری نوجوانوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ اب وہ اپنی جان سستے میں نہیں قربان کرینگے۔