خبریں/تبصرے

پاکستان: جی ڈی پی کا 40 فیصد سمگلنگ کی معیشت، ٹیکس چوری کا حصہ 6 فیصد

لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں سمگلنگ یا غیر قانونی تجارت کی وجہ سے پیدا ہونے والی شیڈو اکانومی کا حصہ جی ڈی پی کے تقریباً 40 فیصد کے برابر ہے، جبکہ جی ڈی پی کا 6 فیصد ہر سال ٹیکس کی مد میں چوری ہو رہا ہے۔ چائے، تمباکو، ٹائر، آٹو لبریکنٹس، فارماسیوٹیکلز اور رئیل اسٹیٹ سمیت پانچ دیگر شعبوں میں ہونے والی ٹیکس چوری جی ڈی پی کے 6 فیصد کے برابر ہے۔

’ڈان‘ کے مطابق آئی پی ایس او ایس کی طرف سے کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جی ڈی پی کا 6 فیصد حصہ چوری ہو رہا ہے، جو ایک قابل ذکر رقم ہے، جسے پاکستان کی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر ترقی دیکر لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

تحقیق میں کہا گیا ہے کہ 5 شعبوں میں ٹیکس چوری کا سالانہ حجم تقریباً 310 ارب روپے ہے۔ چائے کی غیر قانونی تجارت سے 35 ارب روپے، تمباکو سے 80 ارب روپے، ٹائروں اور آٹو لبریکنٹس سے 90 ارب، ادویات سے 45 ارب اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے سالانہ 60 ارب روپے ٹیکس چوری ہوتا ہے۔

اسی طرح ہارورڈ کے ماہرین اقتصادیات اور وزارت تجارت کے اعلیٰ حکام کی ایک ٹیم کی مرتب کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں سمگل کی جانے والی اشیا سالانہ 3.3 ارب ڈالر تک کماتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فروخت ہونے والے 74 فیصد موبائل فون ملک میں سمگل کئے گئے۔ ملک میں فروخت ہونے والا 53 فیصد ڈیزل، 43 فیصد انجن آئل، 40 فیصد ٹائر اور 16 فیصد آٹو پارٹس، 20 فیصد سگریٹ اور 23 فیصد چائے سمگل کی گئی، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اور ریگولیٹری ادارے پاکستان میں سمگل ہونے والے سامان کا صرف 5 فیصد ہی ضبط کر پاتے ہیں۔

پاکستان میں ٹائروں کی سالانہ کھپت 14 ملین ہے اور تقریباً 15 سے 18 فیصد ٹائر مقامی سطح پر تیار کئے جاتے ہیں، جبکہ 50 فیصد سے زائد ضرورت سمگل شدہ ٹائر سے پوری کی جاتی ہے۔ صرف 35 فیصد ٹائر قانونی طریقے سے درآمد کئے جاتے ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts