فاروق سلہریا
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پچھلے تقریباً20سال کے اندر چین ایک عالمی طاقت بن کر ابھرا ہے، اور روس ایک بار پھر ایک بڑی طاقت بن کر ابھررہا ہے۔ عام طورپر یہ بات کی جا رہی ہے کہ امریکی سامراج کا زوال ہو چکا ہے ا ور ایک ملٹی پولر دنیا(کثیر قطبی دنیا) وجود میں آچکی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نہ صرف چین اور روس کی شکل میں دو بڑی طاقتیں ابھری ہیں، بلکہ بعض مڈ رینکنگ طاقتیں، جنہیں ہم سب امپیریل فورسز کہہ سکتے ہیں، بھی وجود میں آئی ہیں۔ ان طاقتوں میں بھارت، ترکی، برازیل، یا کسی حد تک جنوبی افریقہ اور میکسیکو کا ذکر بھی کر سکتے ہیں۔ ان سب کے پاس ایک جیسی فوجی قوت تو نہیں ہے، لیکن اگر ان کا موازنہ تیسری دنیا سے کیا جائے،تو ان کے پاس یقینا معاشی قوت کا بہت بڑا اظہار نظر آتا ہے۔
ملٹی پولر دنیا کے بارے میں عام طور پر بائیں بازو کا ایک حلقہ اور شاید جو بائیں بازو سے تعلق نہیں رکھتے، ان کا بھی ایک بڑا حلقہ مثبت رائے رکھتا ہے۔ اگر تنقیدی مارکسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ غلط فہمی ایک احمقانہ اور غیر منطقی بات ہوگی کہ ملٹی پولر دنیا محکوموں، مزدوروں، کسانوں اور مظلوم قوموں کے لیے کوئی اچھا شگون ہے۔
سب سے پہلے تو یہ دیکھتے ہیں کہ جو بائیں بازو کے لوگ ملٹی پولر دنیا کی حمایت میں نظر آرہے ہیں، وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟
ملٹی پولر دنیا کی حمایت کرنے والے یا اس کے وجود میں آنے پر بغلیں بجانے والے عام طور پر یا تو چین نواز ہیں اور چین کو ایک اچھا ماڈل تصور کرتے ہیں، یا وہ پیوٹن کے حامی ہیں اور یوکرین کی جنگ کو جسٹیفائی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یوکرین کی جنگ میں پیوٹن کی حمایت کرتے ہیں۔ ایک درست سوشلسٹ موقف اختیار کرنے کی بجائے وہ ملٹی پولر دنیا کی بحث میں معاملے کو الجھا کر چین اور روس کو حمایت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
آئیے پہلے دیکھتے ہیں کہ تاریخی طو ر پر ملٹی پولر دنیا کتنی اچھی ثابت ہوئی ہے؟
جب پہلی عالمی جنگ لگی تو اس وقت بھی اس کی وجہ ایک ملٹی پولر دنیا تھی۔ اس وقت امریکہ ایک ایسی ہی بڑی طاقت بن کر ابھر رہا تھا، جیسا کہ اب چین ابھر رہا ہے۔ اسی طرح جرمنی اور جاپان بھی عالمی طاقت بن کر اسی طرح ابھر رہے تھے، جیسے آج روس ایک بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ 20ویں صدی کے آغاز میں امریکہ، جاپان اور جرمنی جیسی تین بڑی طاقتیں ابھر رہی تھیں، جبکہ دوسری طرف برطانیہ، فرانس، یا سپین، پرتگال اور ہالینڈ جیسی پرانی سامراجی طاقتوں کا زوال ہو رہا تھا۔ اس کے نتیجے میں دنیا کی بندر بانٹ کے لیے ایک خوفناک عالمی جنگ دنیا پر مسلط ہو جاتی ہے۔
یہ تاریخ کا پہلا سبق تھا۔ یہی صورتحال ہمیں دوسری عالمی جنگ کے موقع پر بھی نظر آتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ بھی دنیا کی بندر بانٹ کے لیے ملٹی پولر دنیا کے درمیان ہوئی تھی۔ اس میں ایک نیا عنصر ضرور شامل ہو چکا تھا، کیونکہ 1917میں بالشویک انقلاب کے بعد ایک ایسی عالمی طاقت بھی وجود میں آچکی تھی، جو ایک طرح سے سامراجی عزائم تو نہیں رکھتی تھی، لیکن اس نے عالمی سیاست کو اتھل پتھل ضرور کر دیا تھا۔
ملٹی پولر دنیا کے حق میں بغلیں بجانے والے لوگ عام طور پر سرد جنگ کی بات کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب سرد جنگ میں ایک ملٹی پولر دنیا تھی تو دنیا کے محکوم ملکوں اور دنیا کے محکوم لوگ کو سوویت یونین یا نام نہاد کمیونسٹ بلاک سے مدد ملتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر اس وقت سوویت یونین کا وجود نہ ہوتا تو دنیا میں کلونیل ازم مخالف تحریکیں آگے نہ بڑھتیں۔ یہاں تک کہ کیوبا، ویتنام اور چین کے انقلابات جیسے اہم واقعات بھی کامیابی سے آگے نہ بڑھتے۔
تاہم اس ساری بحث میں اسے ملٹی پولر دنیا قرار دے کر ایک دانشورانہ بددیانتی کی جاتی ہے۔ یہ ملٹی پولر دنیا نہیں تھی۔ اس میں دو نقطے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ یہ بائی پولر دنیا تھی، جس میں دو عالمی طاقتیں تھیں۔ ایک طرف امریکہ اور ایک طرف سوویت روس۔ دوسرا یہ کہ اس بائی پولر دنیا میں سوویت روس ایک سامراجی طاقت نہیں تھا۔ سوویت روس کو امپائر ضرور قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن وہ امپیریل پاور نہیں تھا۔ سوویت روس ایک سرمایہ دارانہ ریاست نہیں تھی۔ سامراج کا مطلب سرمایہ دارانہ نظام کا عالمی سطح پر پھیل جانا ہوتا ہے۔ آج کی جو ملٹی پولر دنیا میں چین، روس، امریکہ یا اس کے حواری ایک ملٹی پولر فورس کے طور پر نمایاں ہیں۔ یہ سب کی سب سرمایہ دارانہ ریاستیں ہیں۔ چین پر ایک بحث موجود ہے کہ کیا وہ مکمل طور پر سرمایہ داری کی طرف جا چکا ہے، یا یہ سفر ابھی جاری ہے۔ تاہم یہ بات بالکل طے ہے کہ سرمایہ داری وہاں پر بحال ہو چکی ہے اور چین کا سفر ایک مکمل سرمایہ دارانہ بحالی کی طرف جاری ہے۔
ایک اور اہم نقطہ اس بحث میں زیر بحث نہیں لایا جاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس ملٹی پولر دنیا کے حمایتی بائیں بازو کے لوگ اور جو بائیں بازو سے تعلق نہیں بھی رکھتے،لیکن چین یا روس کی اس بنیاد پر حمایت کرتے ہیں کہ یہ امریکہ کے زور کو توڑ اور بدمعاشی کو روک دیں گے، وہ بالکل ایک غیر تنقیدی نقطہ نظر کے حامی ہیں۔
آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ عہد میں جو دو بڑے اور اہم واقعات ہوئے ان میں ان سامراج مخالف ملکوں، یعنی چین اور روس کا کیا کردار تھا۔ ابھی بدقسمتی سے ہماری آنکھوں کے سامنے غزہ میں نسل کشی ہوئی۔ یہ وہ نسل کشی تھی جو آن سکرین ہوئی اور سب کچھ پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس نسل کشی کو روکنے کے لیے چین اور روس کا کردار صفر کے برابر تھا۔ غزہ کے لوگوں کی مدد کے لیے نہ روس آگے آیا، نہ ہی چین آگے آیا۔
چین اسرائیل کے ساتھ 23ارب ڈالر کی تجارت کرتا ہے۔ چین کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات 80کی دہائی میں بحال ہونا شروع ہوئے۔ چین نے اسرائیل کی مدد سے 20ویں صدی کی80اور90کی دہائی اور حتیٰ کہ 21ویں صدی میں بھی وہ ٹیکنالوجی حاصل کی، جو مغرب چین کو دینے پر تیار نہیں تھا۔ اس میں عام طور پر فوجی ٹیکنالوجی شامل تھی۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس جنگ کے دوران روس بھی خاموش تھا۔ تھوڑی بہت منافقانہ بات چیت اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر یا بیان بازی کی حد تک کی گئی، وہ بھی یہ کہ ہم دو ریاستی حل کے حامی ہیں۔جب یہ بات کی جاتی ہے تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی قسم کا کوئی حل نہیں چاہتے۔ ہم اسرائیل کے ساتھ ہیں اور ہم فلسطین کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
شاید یہ بات بہت کم لوگوں کو بتائی جائے گی کہ روس اسرائیل کو تیل فراہم کرتا ہے۔ غزہ کی نسل کشی، قبضے اور فلسطیین بھر میں آبادکاری کے لیے تیل ایک ضروری عنصر ہے۔ بغیر توانائی کے کوئی ملک بھی اپنی جنگی مشین کو جاری نہیں رکھ سکتا۔ اس کے علاوہ بھی روس اور اسرائیل کے بہت اچھے سفارتی تعلقات ہیں، جنہیں انہوں نے فلسطین کے لیے کبھی خطرے میں نہیں ڈالا۔
شام میں عرب سپرنگ کے بعد جمہوریت کی جدوجہد میں جب اسد آمریت کا خاتمہ بالکل قریب پہنچ گیا تھا تو اس جدوجہد کو خانہ جنگی میں بدل دیا گیا۔ اس دوران ایران اور روس نے وہاں پر مداخلت کر کے اسد آمریت کو بچانے کی کوشش کی۔ اسد آمریت نے ان 10، 12سالوں کے دوران تقریباً5ملین شامی شہریوں کا قتل عام کیا، 30لاکھ سے زائد لوگ بے گھرہونے پر مجبور ہوئے۔ اس سارے المیے کے دوران روس وہاں کے عام لوگوں کا ساتھ نہیں دے رہا تھا، بلکہ بدترین آمریت کے ساتھ کھڑا تھا۔ روس نے وہاں اپنی ایئرفورس تعینات کر رکھی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسد آمریت کے دوران اور آمریت کے خاتمے کے فوری بعد اسرائیل نے شام پر متعدد حملے کیے۔ جب اسد آمریت کا خاتمہ ہوا تو اگلے دو تین دن کے دوران اسرائیل نے شام کی فضائیہ اور بحریہ کو مکمل طور پر تباہ کر کے رکھ دیا۔ اس دوران وہاں پر روس کی ایئرفورس موجود تھی۔ مجال ہے کہ ان 10، 12سالوں میں ایک بار بھی روس کے طیاروں نے اسرائیل کی اس دہشت گردی اور ملکی خودمختاری کے خلاف ورزی کو روکا ہو۔
یہ محض دو مثالیں یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ سامراجی قوتیں امریکہ کے حق میں ہوں یا خلاف ہوں، وہ محکوم لوگوں کے ساتھ نہیں ہوتیں، بلکہ اپنے مفادات کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ان کے مفادات جمہوری قوتوں کے ساتھ نہیں، بلکہ سرمایہ دارانہ نظام اور آمریتوں کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔
یہاں ذرا چین اور روس کے اپنے کردار کو بھی دیکھ لینا چاہیے کہ یہ کتنے سامراج مخالف، جمہوریت اور عوام دوست ہیں۔ اس وقت رمضان کا مہینہ چل رہا ہے۔ چین میں اویغورمسلمانوں کو روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم چین کو سامراج مخالف بنا کر پیش کرنے والے بائیں بازو کے چین نواز دوست اس پر بات نہیں کریں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایران، سعودی عرب، پاکستان اور افغانستان جیسی اسلامی ریاستیں بھی اس پر بات نہیں کریں گی۔ جب عمران خان سے پوچھا گیا کہ اویغور مسلمانوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جا رہا ہے، ان کے بارے میں آپ کیا کیا خیال ہے،تو انہوں نے کہا کہ مجھے تو نہیں پتہ کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ عمران خان جیسے طالبان خان اور بائیں بازو کے چین نواز دوستوں کے درمیان بعض اوقات کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اویغورمسلمان ہوں یا تبت کے بودھ ہوں، ان کے لیے اس ملٹی پولر دنیا میں نجات کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ یہی حالت روس کے اندر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
بلاشبہ آج پاکستان میں صرف بائیں بازو کا ایک حلقہ ہی نہیں، بلکہ عام شہریوں کی بھی ایک بڑی تعداد یوکرین کے مسئلے پر روس کی حامی نظر آتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس یوکرین کانقطہ نظر ہی نہیں پہنچا۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ مخالفت اور امریکہ دشمنی اس قدر پائی جاتی ہے کہ لوگ محض اس پروپیگنڈہ کی بنیاد پر جنگ میں یوکرین کی حمایت کرنے پر تیار نہیں کہ شاید یہ کوئی پراکسی وار ہے، جو امریکہ اور روس کے مابین جاری ہے۔ تاہم یہ یاد رہے کہ یہی پیوٹن اور روس تھے، جنہوں ں ے چیچنیا میں خوفناک نسل کشی کی تھی۔ جو حالت ابھی اسرائیل نے غزہ میں کی ہے، وہی حالت پیوٹن نے چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی کی کی تھی۔ آج تک چیچنیا اس المیے سے باہر نہیں آسکا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سامراج مخالف روس کے ہوتے ہوئے چیچنیا کی آزادی کہاں کھڑی ہے اور یوکرین کی آزادی کہاں کھڑی ہے؟ دنیا بھر کیا ندر اس وقت مظلوم قوموں، مزدور طبقے، محنت کش طبقے اور کسانوں کی بے شمار تحریکیں جاری ہیں۔ دنیا کے کون سے حصے میں چین یا روس نے وہ کردار ادا کیا، جو اینٹی کلونیل جدوجہدوں کے دوران، یا سرد جنگ کے دوران سوویت روس، یاچین نے اور بالخصوص کیوبا نے ادا کیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سرد جنگ کے دوران ہر وقت سوویت روس یا چین کا کردار بہت زیادہ ترقی پسندانہ نہیں تھا۔ ان کے مخصوص اندرونی ڈھانچوں اور موقع پرستیں کے پیش نظر اکثر اوقات بہت غلط موقف بھی اختیار کیا گیا۔ مثلاً اسرائیل کے قیام کے وقت سوویت روس نے اسرائیل کے قیام کی حمایت کی۔ تاہم 1917میں انقلاب نے جس قسم کی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد جس طرح کے حالات اور طاقتوں کا توازن عالمی سطح پر قائم ہوا، اس کے نتیجے میں عام طور پر اینٹی کلونیل جدوجہدوں اور جہاں ممکن ہو سکا سوشلسٹ انقلابات آئے، ان کی مدد ضرور میسر تھی۔ کسی حد تک ان تمام انقلابات اور اینٹی کلونیل جدوجہدوں کی کامیابی میں سوویت روس کے وجود نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ تاہم اس طرح کا کوئی کردار ہمیں ملٹی پولر دنیا میں چین یا روس کی طرف سے نظر نہیں آتا، بلکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ برکس کے دیگر ممالک کا کردار بھی عام طور پر ہمیں بہت مثبت نظر نہیں آتا(یہ ایک علیحدہ بحث ہے، جب برکس پر کبھی بات ہو گی تو ہم اس پر تفصیل سے بات کریں گے)۔
یہ بات بالکل طے ہے کہ ملٹی پولر دنیا کے بننے سے دنیا کے مظلوم طبقوں کو کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے، الٹا تیسری جنگ کے خطرات کی باتیں ہونے لگی ہیں۔
آخر میں سوال یہ ہے کہ اگر ملٹی پولر دنیا کی حمایت نہیں کر سکتے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ایک سوشلسٹ نقطہ نظر کیا ہونا چاہیے؟
سوشلزم عالمی سطح پر ایک گراس روٹ یکجہتی کی بات کرتا ہے۔ مظلوم طبقے پیوٹن جیسی آمریتوں اور چین جیسی آمریتوں پر انحصار نہیں کر سکتے۔ یہ لوگ اپنے ملک میں محنت کشوں کے حقوق کو تسلیم نہیں کرتے تو یہ عالمی سطح پر محنت کشوں کے حقوق کی بات کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ اپنے ملک کے اندر محنت کشوں کا بدترین استحصال کرتے ہیں۔ یہ قومی بنیادوں پر تبت سے لے کر چیچنیا تک ایک زبردست ظلم کے روادار ہیں۔ ان سے آپ کسی قسم کی مظلوم دوستی کی توقع نہیں رکھ سکتے۔ اسی طرح ان سے کسی قسم کے ابہامات اور خوش فہمیوں کو جنم دینا درحقیقت محنت کشوں اور مظلوم طبقوں کی تحریکوں کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
محنت کشوں کو ایک اپنی انٹرنیشنل تعمیر کرنی ہوگی۔ وہی کچھ کرنا ہوگا جو 19ویں صدی کے آخر میں فرسٹ انٹرنیشنل، سیکنڈ انٹرنیشنل اور بعد ازاں تھرڈ اور فورتھ انٹرنیشنل نے کیا۔ فورتھ انٹرنیشنل آج بھی متحرک ہے۔ اس کے پلیٹ فارم سے یا اس طرح کے دیگر نئے پلیٹ فارم تشکیل دے کر، یا موجود پلیٹ فارمز کو توسیع دے کر بین الاقوامی یکجہتی قائم کرتے ہوئے، عالمی تحریکوں کو منظم کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ ایسی عالمی تحریکیں جو نہ تو چین اور روس پر خوش فہمی رکھیں، نہ امریکہ اور یورپ پر، بلکہ وہ خود سے ایک طاقت بنیں۔ اسی طرح کی ایک طاقت جیسی 20ویں صدی کے آغاز میں سیکنڈ انٹرنیشنل ایک طاقت تھی، یا پھر جیسے ایک وقت میں تھرڈ انٹرنیشنل تھی، تب ہی جا کر ہم نجات پا سکتے ہیں۔ نجات پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر قسم کے سامراج کو شکست دیں۔ یہ سامراج امریکہ کی شکل میں ہو، یورپ کی شکل میں، یا روس اور چین کی شکل میں ہو۔ یہ سامراج لبرل ماسک پہن کر آئے، جیسا کہ پچھلے 60، 70سال سے یورپ اور امریکہ کے سامراج نے پہنا ہوا ہے، یا یہ سامراج نیو فاشزم کا ماسک پہن کر آجائے، جو ہمیں ٹرمپ کی شکل میں ابھی امریکہ کے اندر نظر آرہا ہے، یا پھر پیوٹن اور شی جن پنگ کی شکل میں کوئی ماسک پہن کر آجائے۔ ہمیں کسی قسم کے سامراج کی کوئی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔