لاہور (جدوجہد رپورٹ) فاروق طارق کا کہنا ہے کہ لیبر ریلیف کمپئین کے زیر اہتمام 3 روزہ کیمپ میں ہم نے 6 لاکھ کے قریب رقوم جمع کی ہیں، جو بلوچستان میں سیلاب متاثرین میں راشن کی صورت تقسیم کی جائیں گی ”تاہم اس یکجہتی مہم سے سیلاب متاثرین کے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ حکومت آئی ایم ایف سمیت تمام سامراجی اداروں کے قرضوں کی ادائیگی روک کر حاصل ہونے والی رقوم سیلاب متاثرین پر خرچ کرے۔ بحالی اور آباد کاری کا سلسلہ تیز کرتے ہوئے لوگوں کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے“۔
فاروق طارق بائیں بازو کے ایک متحرک رہنما ہیں، وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں اور حقوق خلق پارٹی کے رہنما ہیں۔ بلوچستان سمیت دیگر علاقوں کے سیلا ب متاثرین کی مدد کیلئے لاہور میں بائیں بازو کی تنظیموں کے زیر اہتمام منعقدہ لیبر ریلیف کمپئین میں انہوں نے ہر اؤل کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ روز ’جدوجہد‘ نے ان کا اسی سلسلہ میں ایک مختصر انٹرویو کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
لاہور میں بلوچستان کے سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے مہم شروع کرنے کا خیال کیسے آیا، پس منظر کیا ہے؟
فاروق طارق: چند روز قبل ایک ساتھی نے ایک تنظیمی گروپ میں اس بارے میں بات کی اور نقصانات کی تفصیل کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سے متعلق کچھ کرنا چاہیے۔ ماضی میں بھی ہم ہنگامی حالات کے موقع پر اس طرح کی ریلیف کمپئین کرتے رہے ہیں۔ جب 2005ء میں تباہ کن زلزلہ آیا تھا، اس وقت بھی ہم نے لیبر ریلیف کمپئین کے نام سے کیمپ لگایا تھا اور متاثرہ علاقوں میں محنت کش ساتھیوں کی مدد کی کوشش کی تھی، ایسا ہی 2010ء اور 2012ء کے سیلاب کے دوران بھی کیا گیا تھا۔ اسی طرح بس اس مرتبہ بھی ہم نے فوری یہ طے کیا اور اگلے ہی روز لاہور کے ریگل چوک پر ہم نے لیبر ریلیف کیمپ کا آغاز کر لیا۔ ہمارا خیال تھا کہ جماعت اسلامی والے پہلے سے وہاں کیمپ لگا کر بیٹھے ہونگے، لیکن خلاف توقع ایسا کچھ نہیں تھا۔ کیمپ میں نوجوانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ یہی وجہ ہے کہ 2 روز تک کیمپ کا اعلان کرنے کے باوجود ہم نے تین روز تک یہ کیمپ لگائے رکھا۔
لوگوں کا اس مہم کی طرف رویہ اور رسپانس کس طرح کا تھا، کتنی رقوم اب تک جمع کر پائے ہیں؟
فاروق طارق: لاہور کے لوگوں نے ہماری توقعات سے بڑھ کر رسپانس دیا ہے۔ ہمیں خدشہ تھا کہ شاید کوئی زیادہ رقوم ہم جمع نہ کر پائیں، لیکن ہم حیران ہو گئے کہ موٹر سائیکل، رکشہ اور چھوٹی گاڑیوں والوں نے بہت اچھا رسپانس دیا۔ خاص کر جن گاڑیوں میں عورتیں اور بچے موجود تھے انہوں نے زیادہ بڑھ چڑھ کر چندہ دیا۔ بڑی گاڑیوں پر سوار لوگوں نے بہت کم رسپانس دیا، لیکن زیادہ تر لوگوں نے پیسے دیئے۔ ابھی تک ہمارے پاس کیمپ میں چندہ کرنے کے علاوہ آن لائن جمع ہونے والی رقوم کل ملا کر 6 لاکھ کے قریب ہیں۔
جمع ہونے والی رقوم سے کس طرح کی امداد پہنچانے کا ارادہ ہے؟
فاروق طارق: بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے نواحی علاقوں میں رہنے والے متاثرہ محنت کشوں تک راشن پہنچانے کی منصوبہ بندی ہے۔ اس سلسلہ میں ہماری ٹیم کوئٹہ میں مزمل کاکڑ کی قیادت میں تیاریاں کر رہی ہے۔ فی خاندان 4500 روپے کا راشن پیکٹ تیار کیا جا رہا ہے۔ کل سے ہم یہ راشن لوگوں تک پہنچانا شروع کر دیں گے۔
کیمپ کے دوران کچھ ایسے واقعات جنہوں نے آپ کے ذہن پر نقوش چھوڑے ہوں؟
فاروق طارق: اس طرح کے بے شمار واقعات ہوئے ہیں، جنہوں نے کیمپ میں شامل سارے ہی لوگو ں کو حیران کیا ہے۔ ایک روز کیمپ بند کر کے ہم گھروں کو جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ ایک خاتون آئیں اور انہوں نے کہا کہ وہ 500 روپے چندہ دینے آئی ہیں، انہوں نے بتایا کہ وہ کیمپ دیکھ کر گئی تھیں، لیکن اس وقت ان کے پاس پیسے نہیں تھا، اس لئے گھر جا کر پیسے لے آئی ہیں۔ ایک اور شخص ایسا آیا جس نے ایک ہزار روپے چندہ دیا اور ہمیں کہا کہ اس میں سے 200 روپے مجھے واپس کر دیں، تاکہ میں گھر تک پہنچنے کا کرایہ ادا کر سکوں۔
ایک رکشہ والے نے 1500 روپے چندہ دیا۔ اسی طرح ایک مشہور آئس کریم برانڈ چمن آئس کریم کے ملازمین نے 600 روپے چندہ دیا، ایک برگر شاپ کے ملازمین نے بھی ایک ہزار روپے چندہ آپس میں جمع کر کے ہمیں دیا۔ مجموعی طور پر یہ ایک بہت اچھا تجربہ تھا۔ میری عمر زیادہ ہے، اس لئے لوگ حیران ہو رہے تھے کہ اس عمر میں بھی میں لوگوں سے باکس اٹھا کر چندہ جمع کر رہا ہوں۔ میری ایک ایسی ہی تصویر ٹویٹر پر لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں۔ اس ایک تصویر کی وجہ سے آن لائن بھی بہت سارے لوگوں نے رابطہ کر کے ہمیں چندہ دیا ہے۔ بنیادی طور پر ہمارا مقصد بھی یہی تھا کہ ہم لاہور کے محنت کشوں تک بلوچستان کے دکھ اور درد کو پہنچا سکیں اور بلوچستان سمیت دیگر علاقوں کے سیلاب متاثرین کو یکجہتی کا ایک پیغام دے سکیں۔
ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ لاہور کے لوگ بلوچستان سے متعلق بہت کم جانتے ہیں، کیا اس مہم میں ایسا کوئی تاثر آپ نے بھی محسوس کیا؟
فارق طارق: ایسا کوئی تجربہ تو نہیں ہوا، سب لوگ ہی جانتے تھے کہ بارشوں کی وجہ سے بہت نقصانات ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس میں میڈیا کا بھی بڑا اثر و کردار ہے، کیونکہ میڈیا میں سیلاب سے متعلق خبریں چلتی رہی ہیں۔ ہمیں تو ہر شخص نے بہت اچھی تاثرات دیئے، پیسے بھی دے کر جاتے رہے۔ ہم چوک کا سگنل بند ہونے پر فنانس اپیل کرتے تھے اور رکی ہوئی گاڑیوں کے پاس جاتے تھے۔ ایسا کوئی بھی تجربہ نہیں ہوا کہ کسی نے انجان بننے کی کوشش کی ہو، یا پھر ہمیں برا بھلا کہا ہو۔ اس مہم میں مختلف تنظیمیں شامل تھیں، جن میں حقوق خلق پارٹی، کسان رابطہ کمیٹی، لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن، فولیو بکس، پراگریسیو اسٹوڈنٹس کلیکٹو اور دیگر۔
چندہ جمع کرنے کا سلسلہ مزید جاری رکھنے کا پروگرام ہے، یا اب امداد پہنچانے کی سرگرمی ہی ہو گی؟
فاروق طارق: ہم نے جیسے پہلے بتایا کہ دو دن کا اعلان کیا تھا، تین دن تک کیمپ لگائے رکھا ہے۔ ہم ایک چھوٹی تنظیم ہیں، اس سے زیادہ ہم کر بھی نہیں سکتے۔ کل سے کوئٹہ میں راشن کی تقسیم کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ بہر حال یہ ایک اچھی روایت تھی جو ماضی میں بھی بائیں بازو کے لوگ کرتے رہے ہیں۔ پارٹی فنڈنگ بھی ایسے ہی کی جاتی رہی ہے اور ہنگامی حالات میں متاثر ہونے والے محنت کشوں کی مدد کیلئے بھی چندہ جمع کرنے کا یہ عمل یکجہتی کیلئے کیا جاتا رہا ہے۔ اس کیمپ کا مقصد بھی بلوچ، سرائیکی اور پشتون محنت کشوں کیلئے یکجہتی کا ایک پیغام دینا تھا، تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ لاہور کی ترقی پسند قوتیں محکوم قوموں اور پسماندہ علاقوں کے محنت کشوں کے ساتھ اس مشکل کی گھڑی میں نہ صرف کھڑی ہیں اور یکجہتی کر رہی ہیں بلکہ ان کے دکھوں میں برابر کی شریک ہیں۔
آپ کی اس کمپئین سے نقصانات کا ازالہ تو ممکن نہیں ہے، اس سلسلے میں حکومت کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
فاروق طارق: بالکل ٹھیک بات ہے کہ ہمارا یہ عمل یکجہتی کیلئے ایک علامت تھا۔ ہم چند سو خاندانوں کی ہی مدد کر پائیں گے اور وہ مدد بھی بہت معمولی اور وقتی ہی ہو سکتی ہے۔ اصل کام ریاست کا ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ ریلیف کے کام کو اہم کاموں میں سے ایک سمجھے، ایس ڈی ایم اے سمیت دیگر اداروں سے سابق جرنیلوں کی سربراہی ختم کر کے سویلین سربراہان کا تقرر کیا جائے۔ ریاست کو چاہیے کہ متاثرین کو بحال کرے، ریاستی خزانے کامنہ بلوچستان، سرائیکی وسیب اور کے پی سمیت دیگر متاثرہ علاقوں کی طرف موڑنا چاہیے۔ اس وقت ایک ہنگامی صورتحال موجود ہے، جس کیلئے اندرون و بیرون ملک مہم کی ضرورت ہے۔ تمام تر قرضے فوری طور پر معطل کئے جائیں اور رقوم کو متاثرین کی بحالی اور آبادکاری پر خرچ کیا جائے۔ اس کے علاوہ یہ بارشوں کا سلسلہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی موسمیاتی بگاڑ کا شاخسانہ ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے اندر ریکارڈ ساز بارشیں ہوئی ہیں۔ رواں سال مارچ میں ہی گرمی کی شدت اتنی بڑھ چکی تھی، جتنی ماضی میں مئی جون میں بھی نہیں ہوتی تھی۔ اس لئے کلائمیٹ جسٹس کیلئے بھی ریاست اور حکمرانوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور کلائمیٹ جسٹس کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔