تحریر: بہمن آجنگ
ترجمہ: حارث قدیر
نوٹ: فرانس میں مقیم ایرانی ایکٹوسٹ بہمن آجنگ نے یہ مضمون انگریزی زبان میں انٹرنیشنل ویو پوائنٹ کیلئے لکھا ہے، جسے جدوجہد کے قارئین کیلئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
ایران میں جمعہ 16 ستمبر کو ایک 22 سالہ کرد خاتون مہسا جینا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ مہسا کو اخلاقی پولیس نے منگل 13 ستمبر کو اسلامی جمہوریہ کے ضابطہ تعزیرات کے آرٹیکل 638 کے اطلاق کے تحت اسلامی لباس کی خلاف ورزی کرنے اور مبینہ طور پر ’غیر مہذب‘ بالوں کے چند حصوں کیلئے گرفتار کیا تھا۔
خواتین حجاب کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، سرعام اپنے بال کاٹ کر اور اسکارف کو جلاتے ہوئے پہلے مظاہروں میں سب سے آگے تھیں۔ 2017-18ء کے انفرادی اقدامات کے برعکس اس مرتبہ سر سے اسکارف اتارنے کا عمل اجتماعی طور پر کیا جا رہا ہے، جس سے حکام کے ساتھ براۂ راست تصادم ہو رہے ہیں۔
خواتین کی بغاوت جو دور سے آئی ہے
لازمی نقاب پہننا اس پدرانہ اور تھیوکریٹک حکومت کی نظریاتی بنیادوں میں سے ایک ہے۔ 1979ء میں خواتین کے اس لازمی نقاب کے خلاف زبردست تحرک کے باوجود اسے طاقت کے ذریعے مسلط کیا گیا۔ 43 سال کے احتجاج کے بعد حقوق نسواں کے مطالبات اب مظاہروں میں پیش کئے جانے والے سیاسی اور سماجی مطالبات کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔
خواتین کے موجودہ انکار کی گہرائی کا ایک حصہ یہ ہے کہ وہ سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی کے تمام شعبوں میں موجود ہیں۔ ان میں سے تقریباً سبھی پڑھی لکھی اور تعلیم کی سطح کم از کم مردوں کے برابر ہے۔ اس کے باوجود انہیں نوکری کی تلاش کرنے میں بڑی مشکلات کا سامنا ہے اور اس لئے وہ گھر تک محدود ہیں۔
فی عورت بچوں کی اوسط تعداد 1.6 ہے۔ اس کے رد عمل میں 15 نومبر 2021ء کا قانون اسقاط حمل کو جرم قرار دیتا ہے۔ یہ مانع حمل اور نس بندی تک رسائی کو بھی کافی حد تک محدود کرتا ہے۔ اسی وقت حکومت 15 سال کی عمر سے پہلے کم عمری کی شادی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
پچھلے 10 سالوں سے خواتین انٹرنیٹ کمیونیکیشن میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ ان کے پاس بلاگز اور آن لائن ویڈیوز بہت زیادہ ہیں۔ مہسا امینی کی موت سے پہلے کے مہینوں میں خواتین حجاب مخالف احتجاجی ہیش ٹیگز پر اکٹھی ہوئیں، اپنے سروں کو بے پردہ کر کے چلنے یا سڑک پر ہراساں کئے جانے کی ویڈیوز پوسٹ کر رہی تھیں۔
جبر کے خلاف کرد مزاحمت کی طاقت
18 ستمبر سے ہی مہسا امینی کے آبائی ایرانی کردستان کے علاقے میں مظاہرے پھوٹ پڑے، پیر 19 ستمبر سے عام ہڑتالیں کی گئیں۔ حکومت کے خلاف دشمنی روایتی طور پر اس حصے میں مضبوط ہے، جہاں آبادی خاص طور پر مظلوم ہے۔ خود مختاری اور جمہوریت کی خواہش لئے وہ اسلامی حکومت کی مخالفت کرنے والی پہلی قوتوں میں شامل تھے۔ وہاں جبر خاص طور پر شدید ہے۔ ایران میں سیاسی قیدیوں کا ایک بڑا حصہ وہیں سے آتا ہے۔
تحریک کی سماجی اور جغرافیائی توسیع
خواتین سے شروع ہونے والی یہ تحریک بہت تیزی سے طلبہ میں پھیل گئی ہے۔ یہ شہر کے دوسرے نوجوان شہریوں اور یہاں تک کہ بوڑھوں تک میں بھی پھیل چکی ہے۔
حکومت کی طرف سے تسلیم شدہ تمام یونینوں اور ایسوسی ایشنوں نے تحریک کی کھل کر حمایت کی۔ مثال کے طور پر 17 ستمبر کو تہران اور مضافاتی بس ورکرز یونین (VAHED) نے اعلان کیا کہ وہ ”اس جرم کی پر زور مذمت کرتے ہیں“ اور ”مطالبہ کرتے ہیں کہ مہسا امینی کے قتل کے تمام ذمہ داروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی، عوامی ٹرائل کر کے سزا دی جائے۔ ملک میں لڑکیوں اور خواتین کے خلاف سٹرکچرل، ادارہ جاتی اور پدرانہ امتیازی سلوک ختم ہونا چاہیے۔“
یہ احتجاج تیزی سے ملک بھر میں مظاہروں میں اضافے کا باعث بنا، یہ مظاہرے ایک ہفتے کے اندر اندر تمام بڑے شہروں سمیت 100 سے زائد شہروں تک پھیل گئے۔ ریاستی جبر کے نتیجے میں اب تک ملک بھر میں 50 سے زائد ہلاکتیں ہو چکیں، سیکڑوں زخمی اور ہزاروں گرفتار ہو چکے ہیں۔
تحریک کا تیزی سے سیاسی ہونا
ابتدائی نعرے، جو عام طور پر اخلاقی پولیس کے خلاف لگائے جا رہے تھے، بڑے پیمانے پر سیاسی نعروں سے بہت تیزی سے تقویت پا گئے، جیسے کہ ”آمر مردہ باد“، ”اسلامی جمہوریہ مردہ باد“، ”کوئی شاہ نہیں، کوئی سپریم گائیڈ نہیں“، ”عورت زندگی، آزادی“، یا ”روٹی، کام، آزادی“۔ اس تحریک کو شروع سے ہی بہت زیادہ سیاسی بنایا گیا تھا اور اب یہ خالصتاً احتجاجی تحریک نہیں رہی۔
حکومت اور اس کی نیو لبرل پالیسیوں کے خلاف دیرینہ مزاحمت
موجوہ تحریک کا تیزی سے سیاسی ہونا حیران کن نہیں ہے۔ درحقیقت حکومت اور عوام کے درمیان ٹوٹ پھوٹ مکمل ہے۔ ریاستی اداروں کے سروے کے مطابق صرف 12 سے 14 فیصد آبادی حکومت کے حق میں ہے۔ حکومت کا خیال تھا کہ وہ سابق صدور خاتمی اور روحانی کے ’اصلاح پسند‘ رجحانات کو ایک طرف رکھ کراپنے اقتدار کو مستحکم کر سکتی ہے۔ انہوں نے ابراہیم رئیسی کو نامزد کیا، جنہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب تصور کرتی ہیں۔ ملکی مسائل کو حل کرنے کی بجائے، ان (رئیسی) کی پالیسیوں نے ایک بے مثال سماجی بحران کو جنم دیا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، بڑے پیمانے پر بیروزگاری، بڑھتا ہوا عدم تحفظ اور آبادی کی اکثریت غربت کا شکار ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایران کی 50 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
کئی سالوں سے ایران کو مختلف درجوں کی عوامی بغاوتوں نے باقاعدگی سے ہلا کر رکھ دیا ہے، تاہم اکثر سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی تقاضوں کی بنیاد پر ایسا ہوا ہے۔ یہ تحریکیں ایران عراق جنگ (1980-1988ء) کے خاتمے کے بعد سے اسلامی جمہوریہ کی تمام متواتر حکومتوں کی طرف سے نافذ کردہ نیو لبرل پالیسیوں کے خلاف ہیں۔
صرف چند ایک کا ذکر کریں تو 2017ء اور 2019ء کی بغاوتیں پرتشدد طریقے سے خون میں ڈبوئی گئیں۔ کچھ ذرائع کے مطابق 2019ء میں 1500 سے زائد لوگ مارے گئے ہیں۔ ٹریڈ یونین، طلبہ اور حقوق نسواں کی تحریکوں میں بغیر کسی تجویز کے کارکنوں کی گرفتاریاں اور مسلسل ہراساں کرنا حکومت کا واحد رد عمل رہا ہے۔ یہ جبر گزشتہ سال مزدوروں، اساتذہ اور دیگر ملازمین کے ساتھ ساتھ پنشنرز کی 4122 احتجاجی تحریکوں اور کارروائیوں، ہڑتالوں، دھرنوں کو ہونے سے نہیں روک سکا۔ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کی تاریخ کا ایک ریکارڈ ہے۔ یہ صدر رئیسی کی حکمرانی پر مزدوروں کی تحریک کا رد عمل ہے۔ اس رد عملی کا سب سے اعلیٰ درجہ گزشتہ موسم گرما میں تیل اور پیٹرو کیمیکلز کی صنعت کے کارکنوں کی بڑی ہڑتال تھی، جب اس شعبے کے ایک لاکھ سے زائد کارکنوں نے احتجاج میں حصہ لیا۔
ایران میں آبی بغاوتوں کا بھی ایک منظر نامہ رہا ہے، خاص طور پر خوزستان (2021ء)، اصفہان اور شہر کورد (2022ء)، جنہوں نے تیزی سے سیاسی رخ اختیار کیا، تاہم انہیں دبا دیا گیا۔
شاہ کی آمریت کیلئے پرانی یادوں کے ہتھکنڈے
ریاست کے اندر اصلاح پسندی کی مکمل ناکامی اور آبادی کی اکثریت میں اس کی بدنامی کے بعد، بیرون ملک بڑے میڈیا کی طرف سے ایک مہم چلائی گئی، جن میں سے کچھ کو خلیجی بادشاہتوں اور امریکہ نے براۂ راست حمایت اور مالی اعانت فراہم کی۔ سپانسرز نے پچھلی دو بغاوتوں کے دوران لگائے گئے چند الگ تھلگ نعروں کا استعمال کرتے ہوئے شاہ کے بیٹے (1979ء کے انقلاب میں معزول) کو ’عوامی اتحاد کی علامت‘ کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے اسے ’ایران کی بادشاہی جڑوں کی طرف واپسی‘ کے مجسم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ ان کی مہم کو ان کے مواصلات کے بڑے پیمانے پر ذرائع کی طاقت سے اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی کارروائیوں کے ذریعے وسعت ملی۔
تاہم 25 ستمبر تک، ملک گیر بغاوت کے 9 دن کے بعد، کسی بھی وقت مظاہروں میں متحرک شہریوں میں یا اجتماعی کارروائیوں کے منتظمین اور بڑے اداروں کے درمیان ایساکوئی رنگ سنا یا دیکھانہیں گیا۔ مزید یہ کہ لگائے گئے نعرے اس طرح کی واقفیت کی عدم موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ ایران میں زندہ ترقی پسند قوتوں کی فتح ہے۔
یہ جاری بغاوت ایران کی خواتین اور مردوں کی جمہوریت اور سماجی انصاف کیلئے جدوجہد کا ایک اعلیٰ مرحلہ ہے۔ کوئی شاہ نہیں، کوئی سپریم لیڈر نہیں!