پرویز امیر علی ہود بھائی
مہذب ممالک جی جان سے قانون کی پاسداری کرتے ہیں اور ایسے معاشروں میں سرکاری اثاثوں کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح، ایسے ممالک میں تعلیمی اداروں، بالخصوص ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں، کو بلا کی اہمیت دی جاتی ہے۔
دوسری جانب، اخلاق باختہ اور ثقافتی پس ماندگی کا شکار معاشروں میں ایسے چھوٹے بڑے آمروں اور ڈاکووں کی مرضی چلتی ہے جنہیں عام لوگوں کی تعلیم،ان کی فلاح و بہبود اور آئندہ نسلوں کے مستقبل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ ایسے ممالک میں پبلک ادارے کمزور ہوتے ہیں کیونکہ ان اداروں کے سربراہوں کو ترقی یا عہدے کا لالچ دے کر یا رشوت کے ذریعے ساتھ ملانا معمول کی بات ہوتی ہے۔
شومئی قسمت، پاکستان میں عوامی بھلائی کے کسی بھی منصوبے کو پلک جھپٹتے ملیا میٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک بدترین مثال ہے قائد اعظم یونیورسٹی کی اراضی میں روز بروز ہوتی ہوئی کمی۔ گذشتہ مہینے یونیورسٹی کی زمین کا ایک بڑا حصہ اسلام آباد میں قانون لاگو کرنے والے سب سے طاقتور ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اٹھارٹی (سی ڈی اے) نے ناجائز طور پر ہتھیا لیا۔ اس قبضے سے چند ماہ پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے اس منصوبے کا از سر نو افتتاح کیا اور حکم دیا کہ منصوبہ ریکارڈ وقت میں مکمل کیا جائے۔ سال پہلے اس منصوبے کا اعلان عمران خان نے بطور وزیر اعظم بھی کیا تھا۔
سو ہوا یوں کہ چند روز پہلے سی ڈی اے کے بلڈوزر پہنچ گئے اور یونیورسٹی کی اراضی پر موجود اس جنگل کا صفایا کرنا شروع کر دیا جو انتہائی توجہ سے محفوظ رکھا گیا تھا۔ بلڈوزر زمین ہموار کرنے پر لگ گئے۔ منصوبہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کے اندر سے ایک سڑک گزاری جائے تا کہ مری جانے والی ٹریفک با آسانی مری پہنچ جائے۔ یہ سڑک تعمیر ہونے کے بعد کیمپس ہمیشہ کے لئے دوایسے حصوں میں بٹ جائے گا جن کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہو گا۔ جمالیاتی اور ماحولیاتی نقطہ نگاہ سے،پاکستان کے سب سے خوب صورت اور پر سکون کیمپس کو تباہ کرنا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ اس سڑک کا مطلب ہے پاکستان کے سب سے دلکش اور پر سکون کیمپس کی تباہی۔
زمین پر اس قبضے کا کسی صورت دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ ہر ملک میں حکومتیں اعلیٰ تعلیم کے بہترین اداروں کے لئے بڑی بڑی اراضیاں مختص کرتی ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی کی اراضی ہی اس کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ اس کی زمین پر سی ڈی اے کے قبضے کا مطلب ہے کہ مستقبل میں بنے والے شعبہ جات، لیبارٹریاں اور طلبہ کے ہاسٹل تعمیر نہ ہو سکیں گے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کی اراضی کے اہم ترین حصے پر ایک حکومتی ادارے نے قبضہ کر لیا ہے۔
قانونی لحاظ سے بھی سی ڈی اے کے اقدام کا دفاع ممکن نہیں۔ گو سی ڈی اے کا دعویٰ ہے کہ اس نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے اجازت لی ہے مگر متاثرہ فریق…اساتذہ، طلبہ اور عام شہری…اس فیصلے سے بے خبر تھے۔ اگر کوئی اور ملک ہوتا تو یونیورسٹی انتظامیہ اپنی یونیورسٹی کا مفاد دیکھتی نہ کہ قبضہ مافیا کا۔ یہاں البتہ وفاداری زیادہ مہنگی نہیں بکتی۔ حکومت کو خوش کرنے کے لئے انتظامیہ نے اس معاملے کو خفیہ رکھا تا آنکہ بلڈوزر آ پہنچے۔ یہ سازش اس لحاظ سے کامیاب رہی کہ بلڈوزروں کے آنے تک کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ اب جب کہ سب کو پتہ چل گیا ہے، کیمپس پر شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔
تکنیکی بنیادوں پر دیکھا جائے تو مری جانے والی اس ہائی وے کی تعمیر بے کار کی عیاشی ہے۔ ایک طرف تو پاکستان عالمی سطح پر سیلاب زدگان کے نام پر چندہ مانگ رہا ہے دوسری طرف ایک ایسے شہر میں مزید سڑکیں تعمیر کی جا رہی ہیں جہاں فی کس کی بنیاد پر پہلے ہی باقی ملک کی نسبت سب سے زیادہ سڑکیں موجود ہیں۔ ایک سستا حل یہ ہے کہ مری ایکپریس پر اوور ہیڈ پل تعمیر کر دیا جائے۔
ایسا کیوں نہیں کیا جا رہا؟
وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ سڑک کی دونوں جانب ناجائز دکانیں بنا کر بیٹھے وہ تاجر اس اوورہیڈ پل کی مخالفت کر رہے ہیں جن کی وجہ سے سڑک تنگ ہو گئی ہے لہٰذا اوور ہیڈ پل بنانے کی بجائے سی ڈی اے نے ہائی وے رابری (Highway Robbery) کا منصوبہ بنایا۔ تاجروں سے ٹکر لینے کی بجائے سی ڈی اے نے اسلام آباد کی سب سے پرانی پبلک یونیورسٹی کی زمین چھیننے کا منصوبہ تیار کیا۔ غیر مہذب ملکوں میں با اثر لوگوں سے چوری کی ہوئی دولت واگزار کرانا مشکل ہوتا ہے مگر سرکاری اثاثے ہڑپ کرنا انتہائی آسان۔
گو سی ڈی اے نے وعدہ کیا ہے کہ یونیورسٹی کو ”کہیں اور“ متبادل زمین فراہم کی جائے گی مگر یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کہاں کی جائے گی۔ یونیورسٹی کے اڑوس پڑوس میں تو کوئی خالی جگہ بچی نہیں جہاں متبادل اراضی فراہم کی جا سکے۔ اس سب پر مستزاد یہ کہ سی ڈی اے جو متبادل جگہ فراہم کرے گی، اس پر آباد لوگوں کو وہاں سے اٹھانا قائد اعظم یونیورسٹی کی ذمہ داری ہو گی۔ یہ نا ممکن سی بات ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں جو ہو رہا ہے اسے سمجھنے کے لئے ہمیں تاریخ کی مدد لینی پڑے گی۔
بہت سال پہلے، 1966-67ء میں اسلام آباد یونیورسٹی، جسے بعد میں قائد اعظم یونیورسٹی کا نام دیا گیا، راولپنڈی میں واقع تھی۔ جب جڑواں شہر اسلام آباد تیزی سے بننے لگا تو فیصلہ ہوا کہ یونیورسٹی کو بھی مارگلہ پہاڑیوں کے پاس منتقل کر دیا جائے۔
سی ڈی اے نے یونیورسٹی کے لئے 1,709 ایکڑ اراضی مختص کر دی۔ سرکاری نوعیت کے تقاضے پورے کرنے کے بعد یونیورسٹی بجٹ سے مجوزہ قیمت ادا کی گئی اور اس کی رسید بھی لی گئی۔ 26 جنوری 1967ء کو سی ڈی اے نے ایک نقشہ جاری کیا جس میں یونیورسٹی کی حدود کا سرکاری تعین کیا گیا۔
اب ذرا فاسٹ فارورڈ کرتے ہوئے 1996ء میں پہنچ جاتے ہیں۔ اب زمین کی قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی تھیں۔ بہت سے لوگ قائد اعظم یونیورسٹی کی زمین کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ان میں بے نظیر بھٹو بھی شامل تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ پارلیمنٹ میں موجود اپنے چمچوں کو کیمپس پر رہائشی پلاٹ فراہم کئے جائیں۔ یہ پلاٹ اونے پونے داموں دئیے جانے تھے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی قیمت اور بھی بڑھ جانی تھی۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین کی جانب سے ممکنہ مخالفت کا راستہ بند کرنے کئے منصوبہ بنایا گیا کہ انہیں بھی انتہائی سستے داموں پلاٹوں کی پیش کش کی جائے۔ اراکین پارلیمنٹ و اساتذہ نے جھٹ پٹ پہلی قسط بھی ادا کر دی تا کہ سودا پکا ہو جائے۔
قائد اعظم یونیورسٹی کی خوش قسمتی کہ زمینیں ہتھیانے کا جو منصوبہ بے نظیر بھٹو نے بنایا تھا وہ ناکام ہو گیا۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے بعض اساتذہ نے عدالت میں مفاد عام کے تحت مقدمہ کر دیا۔ عابد حسن منٹو نے رضاکارانہ طور پر بطور وکیل اس مقدمے کی پیروی کی۔ یوں یہ قبضہ ناکام ہو گیا۔ اساتذہ کو اسلام آباد میں ایک اور جگہ پلاٹ فراہم کئے گئے۔ دس سال بعد لینڈ مافیا پھر، خفیہ طور پر، حملہ آور ہوا۔
گو 1967ء میں سی ڈی اے نے تفصیلی نقشہ جاری کیا تھا (جس کی 24 جنوری 2017ء کو از سر نو تصدیق کی گئی)، پٹواریوں کے پاس موجود لینڈ ریکارڈ میں خرد برد کی گئی اور قائد اعظم یونیورسٹی کے رقبے میں 264 ایکڑ کی کمی ہو گئی۔ اس پر اسرار قبضے کے علاوہ بھی ناجائز تجاوزات کی شکل میں یونیورسٹی کی اراضی پر قبضہ بالکل واضح نظر آ تا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ 450 ایکڑ اراضی پر اب تک قبضہ ہو چکا ہے۔ یونیورسٹی انتظانیہ اس دوران آنکھیں موندے اونگھتی رہی۔
جنوری 2019ء میں، یہ جانتے ہوئے کہ سیاسی مخالفین کو قائد اعظم یونیورسٹی کی زمین پر قبضے کے الزام میں نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، عمران خان نے بلڈوزر بھیج کر یونیورسٹی کیمپس پر بنی پیپلز پارٹی کے ایک رہنما کی کوٹھی گرانے کی کوشش کی۔ ابھی چار دیواری ہی گرائی گئی تھی کہ ”اوپر سے“ پر اسرار ٹیلی فون کال آئی اور بلڈوزروں نے کام روک دیا۔ خان نے جلدی سے یو ٹرن لے لیا۔
ملک میں لینڈ مافیا نے بڑے بڑے قبضے کئے ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی کی اراضی ہتھیانا کوئی ایسا بڑا قبضہ نہیں۔ بات لیکن یہ ہے کہ یہ یونیورسٹی ایوان صدر، وزیر اعظم سیکریرٹیریٹ اور سپریم کورٹ سے صرف تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ یونیورسٹی ان عمارتوں سے بالکل سامنے دکھائی دیتی ہے۔ طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ بلا خوف جب سر عام جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں تو اس کا مطلب صرف یہی نکلتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مفاد عامہ کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس ملک کا مستقبل بہت تاریک ہے۔