پاکستان

کرکٹ کو تبلیغ سے علیحدہ کیا جائے

فاروق سلہریا

کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میں جس طرح سے برطانیہ کی ٹیم کھیلی اس سے واضح تھا کہ وہ نہ صرف پروفیشنل تھے بلکہ ایک حکمت عملی بنا کر کھیل رہے تھے۔

میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں چھکے نہیں لگتے لہٰذا انہوں نے کوئی اونچا شارٹ نہیں کھیلا۔ پاکستانی باولنگ نے انہیں پریشان کیا لیکن ان کے بلے بازوں کے اوسان خطا نہیں ہوئے۔ صاف ظاہر تھا کہ نہ صرف ان کی ٹیم مسلسل پچھلے کئی سالوں سے ٹی ٹونٹی کی تیاری کر رہی ہے بلکہ وہ فائنل کی تیاری بھی کر کے آئے تھے۔ گراؤنڈ، موسم اور مخالف ٹیم (پاکستان) کو دیکھ کر گیم پلان بنایا گیا تھا۔

اُدہر، اگر میڈیا رپورٹس درست ہیں تو ایک طرف ٹیم روزے رکھ رہی تھی (کیونکہ بانوے کا ورلڈ کپ ماہ رمضان میں ہوا تھا) اور نمازیں پڑھ رہی تھی۔ اِدہر پوری قوم بانوے سے مماثلتیں تلاش کر رہی تھی: بانوے میں بھی ہم نے نیوزی لینڈ کو فائنل میں ہرایا تھا، بانوے میں بھی ہم نے پہلے بیٹنگ کی تھی، بانوے میں بھی میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں فائنل ہوا تھا۔

جب ملک کی آکسفورڈ کیمبرج سے پڑھی ہوئی قیادت روحانی یونیورسٹیاں بنا کر توہم پرستی کو ’سائنس‘ کا درجہ دے رہی ہو اور ملکی سیاست و معیشت کے فیصلے استغارے اور دم درود سے ہوتے ہوں تو ’ملک و قوم‘ کو زیادہ مورد الزام نہیں ٹھرانا چاہئے۔

پاکستانی کرکٹ کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اس پر تبلیغی جماعت کا قبضہ ہو چکا ہے۔ اس قبضے کے باوجود اگر کرکٹ ٹیم گاہے بگاہے اچھی کارکردگی دکھا لیتی ہے تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کرکٹ میں پاکستان کے پاس کافی ٹیلنٹ ہے۔ وجہ اس ٹیلنٹ کی یہ ہے کہ بائیس کروڑ کے ملک میں اگر دن رات کرکٹ ہی کھیلی جائے گی تو تین چار اچھے کرکٹر مل ہی جائیں گے۔

دوم کرکٹ کلونیل انگلش دنیا سے باہر کھیلی نہیں جاتی۔ اگر یہ فٹ بال جیسی عالمی سپورٹس ہوتی تو شائد پاکستان کے لئے ورلڈ کپ میں کوالیفائی کرنا بھی مشکل ہو چکا ہوتا۔

مزید براں، اگر کرکٹ اسی تبلیغی ڈگر پر چلتا رہا تو اس کا حال بھی پاکستان ہاکی جیسا ہو جائے گا۔ تفصیلی تجزیہ کبھی آئندہ پیش کیا جائے گا۔ اس مضمون میں چند دلائل دئیے جائیں گے جن کی بنیاد پر یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ کرکٹ کو تبلیغی جماعت سے علیحدہ کیا جائے۔

اؤل: تبلیغی جماعت یا کسی بھی ایک سیاسی و مذہبی گروہ کی کرکٹ پر اجارہ داری کا واضح مطلب ہے کہ اقربا پروری سے کام لیا جائے گا۔ میرٹ پر تعیناتی نہیں ہو گی۔ اب حالت یہ ہے کہ کرکٹ ٹیم کا مینیجر، کوچ یا سلیکشن کمیٹی کا رکن اپنی تعیناتی کے لئے طارق جمیل کے اشارہ ابرو کا محتاج ہو چکا ہے۔ اسی طرح، اگر کوئی کرکٹر طارق جمیل کا چیلا نہ بنے، اس کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔ ماضی میں بعض کرکٹرز اس کا دبے لفظوں میں اظہار کر چکے ہیں۔

دوم: پہلے ہی جس ”قومی ٹیم“ میں سندھیوں اور بلوچوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، اس پر تبلیغی ٹیم کے قبضے کا مطلب ہے کہ قومی ٹیم کا قومی کردار اور محدود ہو جائے گا۔ نہ صرف میرٹ متاثر ہو گا بلکہ پاکستان کے مخصوص حالات میں جس طرح کی قومی ٹیم تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور مجوزہ نمائندہ ٹیم کے لئے جس طرح کے انفرا سٹرکچر کی ضرورت ہے، اس کی راہ میں تبلیغی جماعت ایک اور رکاوٹ بن کر کھڑی ہو گئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچی، سرائیکی اور سندھی زبان بولنے والے علاقوں میں کرکٹ (اور دیگر کھیلوں) کا انفرا سٹرکچر تعمیر کیا جائے۔ ان علاقوں کے لوگوں کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔ قومی ٹیم کو تمام اکائیوں کی نمائندگی کرنی چاہئے۔ تبلیغی جماعت کا نظریاتی مسئلہ یہ ہے کہ وہ قومی اکائیوں کو مانتی ہی نہیں۔ اس کے نزدیک قوم نہیں امہ اہم ہے۔

سوم: اب مصیبت یہ ہے کہ امہ کے دو مزید ارکان بھی عالمی کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ بنگلہ دیش اور افغانستان کے خلاف کھیلتے ہوئے معلوم نہیں ہماری تبلیغی کرکٹ ٹیم کیا دعائیں مانگتی ہے لیکن ان کی حالت ان پاکستانی سپاہیوں جیسی ضرور ہوتی ہو گی جو ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ میں جب نعرہ تکبیر لگاتے تو اللہ اکبر کاجواب طالبان کی طرف سے آتا ہے۔

چہارم: چوتھے نقطے کو نظریاتی اور نفسیاتی سطح پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم: اس نقطے کو مارکس کے فلسفہ بیگانگی کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کر نی چاہئے۔ فلسفہ بیگانگی سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا مظہر جس کی انسان نے خود تخلیق کی ہو اور پھر وہ اسی کو پوجنے لگے، اس کے سامنے خود کو کمزور سمجھنے لگے اور طاقت کا سر چشمہ اس مظہر کو سمجھنے لگے جس کو ابتدائی طور پر اس نے خود تخلیق کیا ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال وہ بت ہیں جنہیں پوجا جاتا ہے۔ مارکس کا مزید تجزیہ ہے کہ ایک پجاری جتنا بت کو پوجتا ہے اتنا ہی معبود بڑا اور طاقتور ہوتا جاتا ہے جبکہ پجاری اسی حساب سے تہی دامن۔ مارکس سرما یہ داری کو بھی اسی طرح دیکھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ قدر زائد مزدور طبقہ پیدا کرتا ہے مگر جوں جوں قدر زائد میں اضافہ ہونے لگتا ہے، توں توں مزدور سرمائے کے سامنے بے بس اور مجبور ہوتا جاتا ہے۔ طارق جمیل یا تبلیغی جماعت قومی کرکٹ ٹیم کا بت اور ’سرمایہ‘ہیں۔ ہمارے کرکٹ سٹار یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا سٹارڈم اور ان کی کامیابیاں طارق جمیل کی دعاؤں کی مرہون منت ہیں۔ وہ جتنا طارق جمیل کی اطاعت کرتے ہیں طارق جمیل اسی حساب سے بڑا ہوتا جاتا ہے جبکہ کرکٹرز اسی حساب سے ’خالی‘ ہونے لگتے ہیں۔ وہ اپنی پروفیشنل ازم، ایجنسی (صلاحیت)، ٹیلنٹ اور سائنسی ٹرینگ کی بجائے بیان، دعا، چالیس روزہ، سہ روزہ، شلوار کے سائز اور سب سے بڑھ کر کسی معجزے، غیبی مدد اور بانوے کے ورلڈ کپ سے مماثلتیں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ جادو کا علم بھی مماثلت کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ یرقان ہو گیا ہے جس میں آنکھیں پیلی ہو جاتی ہیں تو سونے کا تعویذ باندھ لیا جائے۔ اگر انگلینڈ کے بیٹسمین آؤٹ نہیں ہو رہے تھے تو دو ویسی معجزاتی گیندوں کا انتظار کیا جائے جو وسیم اکرم نے پھینکیں تھیں۔ دماغ کا فوری استعمال، کپتان یا کوچ کی جانب سے کوئی مداخلت، باولر کا اپنے اوپر بھروسہ، کوئی چال، کوئی حکمت عملی…ان کی کیا ضرورت ہے۔ معجزے کے لئے دماغ کی نہیں، دعا کی ضرورت ہوتی ہے۔

پنجم: سرمایہ داری نے سرمایہ دارانہ پروڈکشن کی طرح کھیل کو بھی ایفی شینسی (کارکردگی) سے جوڑ دیا ہے۔ پروفیشنل ازم اس ایفی شینسی کے حصول کا نام ہے۔ سرمایہ داری نے جس طرح مزدور کی ایفی شینسی بڑھانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے علاوہ ٹیلر ازم اور فورڈ ازم کو متعارف کرایا، عین اسی طرح سرمایہ داری نے کھیل میں پروفیشنل ازم کو متعارف کرایا۔ جدید ٹیکنالوجی، فزیشن، فزیکل ٹرینرز، کوچنگ، ڈائیٹ، نفسیاتی کوچنگ، میڈیسن…نہ جانے کیا کیا کچھ کھیل کا حصہ بن چکا ہے۔

جوں جوں صنعت ایفی شینسی کی طرف بڑھتی ہے، توں توں ان پڑھ اور غیر ہنر مند مزدور بے روزگار ہونے لگتے ہیں۔ کوئی پیر، دھاگہ تعویز، دم درود غیر ہنر مند یا ان پڑھ مزدوروں کو بے روزگاری سے نہیں بچا سکتا۔ یہی حال ہر اس تبلیغی کرکٹ ٹیم کا ہو گا جو ایفی شینسی کے حصول کی بجائے دم درود پر توجہ دے گی۔

یہاں یہ مختصر سی یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ سوشلزم کھیل کو یکسر بدل کر رکھ دے گا۔ کھیل میں لوگ حصہ لیں گے، صرف تماشائی بن کر نہیں دیکھیں گے۔ کھیل نفرت کی بجائے امن کا باعث ہو گا۔ سب سے اہم: کھیل مقابلے کی بجائے تعاون کو فروغ دے گا۔ علاوہ ازیں، نئے نئے کھیل وجود میں آئیں گے۔ سوویت یونین کی ابتدائی تاریخ اس بات کا ایک تاریخی ثبوت ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔