پاکستان

تحریک انصاف کو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے عام انتخابات کی توقع

فاروق طارق

پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی سمری ارسال کر دی گئی ہے، تاہم ابھی تک گورنر پنجاب نے اس سمری پر دستخط نہیں کئے، جو ایک یا دو روز تک ہو جائیں گے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اپنی ہی حکومتوں سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی جو حکمت عملی تحریک انصاف نے اپنائی، اس کی راہ میں مسلم لیگ ن نے کچھ روڑے ضرور اٹکائے لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔

اصل سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی یہ حکمت عملی امیدوں کے مطابق عام انتخابات کے اعلان پر وفاقی حکومت کو مجبور کر سکے گی یا نہیں؟ کیونکہ یہ حکمت عملی اپنانے کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ پی ڈی ایم اتحاد کی مرکزی حکومت کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کریں۔ عمران خان کا خیال ہے کہ وہ اس وقت عوام میں بہت زیادہ مقبول ہیں اور یہ دو اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بعد حکومت کو مجبور ہونا پڑے گا کہ وہ ملک بھر میں عام انتخابات کروائے، جن میں تحریک انصاف لینڈ سلائیڈ فتح حاصل کر لے گی۔

فی الوقت عمران خان کی یہ امیدیں پوری ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہی ہیں۔ ابھی جو انتخابات صوبائی اسمبلیوں میں ہونگے، ان میں بھی کافی داؤ پیچ لگائے جائیں گے۔ عام انتخابات کا عمران خان کی خواہش کے مطابق فوری انعقاد نظر نہیں آ رہا۔ خاص طور پر ان دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کسی صورت قومی اسمبلی کی تحلیل کے مترادف نہیں ہو سکتی۔

عمران خان کی حکمت عملی کو ناکام بنانے کیلئے مسلم لیگ ن اور پی ٹی ایم اتحاد اپنی کوششیں بھرپور طریقے سے جاری رکھیں گے۔ موجودہ صورتحال ایک عجیب تماشہ ہے، کہ اپنی ہی دو صوبائی حکومتوں کو گرا کر انہی دو حکومتوں کو دوبارہ بنانے کیلئے انتخابات میں حصہ لیا جا رہا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ امید یہ لگائی جا رہی ہے کہ اس عمل سے وہ ایک اور الیکشن کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

اس ساری حکمت عملی کا واحد مقصد یہی نظر آرہا ہے کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ ایک عدم استحکام کا سلسلہ قائم رہے۔ ن لیگ اور اتحادیوں کے اقتدار کیلئے ایک غیر یقینی کی صورتحال برقرار رہے۔ بیرونی امداد، قرضے اور فنڈز دینے والے بھی پاکستان کے حالات سے گھبرا ئیں کہ یہاں بہت زیادہ عدم استحکام ہے۔ اس سب سے پی ڈی ایم اتحاد اور بالخصوص نواز لیگ کو دوبارہ مقبولیت حاصل کرنے کے امکانات محدود ہوتے جائیں گے۔ فی الحال اس حکمت عملی میں عمران خان اور تحریک انصاف کسی حد تک کامیاب بھی ہیں۔

تاہم جو سیلاب اور بارشوں نے پاکستان کے اندر صورتحال بنائی ہے، اس کے بعد عالمی سطح پر پاکستان کو اس نظر سے نہیں دیکھا جا رہا، جس نظر سے عمران خان دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان ایک سیاسی اپرچیونٹی کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن دنیا پاکستان کی طرف فی الحال ایک ہمدردانہ روایہ بھی رکھ رہی ہے۔ اس کا اظہار مختلف مواقع پر نظر بھی آیا ہے۔ ابھی جنیوا میں 10 ارب ڈالر کے معاہدے ہوئے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی کچھ چھوٹ اور مراعات دینے کیلئے بات کر رہے ہیں۔

یہاں بھی یہی سوال ہے کہ کیا ن لیگ سیلاب متاثرین کیلئے آنے والی اس رقم کو قرضوں کی واپسی اور آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کیلئے استعمال کرے گی، یا پھر یہ رقم سیلاب زدگان کی بحالی اور تعمیر نو کیلئے استعمال کی جائیگی۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے، لیکن قومی امید یہی ہے کہ یہ معاشی بحران کو دور کرنے کیلئے اس رقم کے آنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ بالکل ایک غلط حکمت عملی ہے۔ اس رقم سے اگر یہ تعمیر نو کا کام کرینگے تو اس سے ان کی مقبولیت اور عوامی بنیادیں بھی بہتر ہو سکتی ہیں اور کسی حد تک سیلاب متاثرین کے دکھوں کا بھی مداوا ہو سکتا ہے۔ تاہم پی ڈی ایم اتحاد کی حکومت قائم ہونے کے بعد اور انہی پارٹیوں کی ماضی کی روایات کو سامنے رکھا جائے تو ایسی توقع دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہے۔

اس وقت مسلم لیگ ن کی یہ اتحادی حکومت نے تاریخی مہنگائی کر کے یہ باور کروانے کی کوشش کر رہی ہے کہ شاید وہ پاکستان کو بچا رہے ہیں۔ وزرا حکومت بار بار یہ کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو بھیانک خواب سے بچا لیا ہے، یعنی دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے۔ تاہم دیوالیہ ہونے سے انہوں نے صرف سرمایہ دار طبقے اور ریاست کو بچایا ہے، عام لوگ تو اسی روز دیوالیہ ہو گئے تھے، جن انہوں نے پٹرول کی قیمت میں یکمشت 100 روپے سے زائد کا اضافہ کیا تھا۔

پاکستان میں دو معیشتیں ہیں، ایک سرمایہ داروں کی معیشت ہے اور دوسری عام لوگوں کی معیشت ہے۔ عام لوگوں کی معیشت سے اس حکمران طبقے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن اسی کا خمیازہ بھی بھگت رہی ہے کہ ایک غیر مقبول حکومت کے خاتمے کے بعد تحریک انصاف کو دوبارہ مقبول ہونے کا موقع انہوں نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر کے دیا ہے۔ مفتع اسماعیل نے تو آنکھیں بند کر کے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پنجاب ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ پنجاب کا اپوزیشن کے پاس چلے جانا مسلم لیگ ن کیلئے بہت بڑی ناکامی تھی۔

اب صورتحال یہ ہے کہ عمران خان کو امید ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات میں انہیں لینڈسلائیڈ وکٹری ملے گی۔ اس امید کی راہ میں رکاوٹیں بھی موجود ہیں۔ 2018ء میں جو 186 کے قریب نشستیں تحریک انصاف کو ملی تھیں، وہ فوجی اشرافیہ کی حمایت کی وجہ سے ملی تھیں اور اب وہ حمایت موجود نہیں ہے۔ اس وقت حالات بھی مختلف تھے، اب تحریک انصاف کا اپنا ووٹ بینک بھی کافی بڑھ چکا ہے۔ اب معروضی طور پر بھی ایک مختلف صورتحال کا سامنا ہے، جس میں ایک ابھرتی ہوئی دائیں بازو کی پارٹی لوگوں کو جعلی انقلابی نعرے بازی، اسٹیبلشمنٹ اور امریکی سامراج کے خلاف بات کر کے یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ اس طریقے سے لوگوں کی حمایت حاصل کر سکتی ہے۔ تاہم تحریک انصاف کی عوامی حمایت کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے، یہ زیادہ جذباتی بنیادوں پر موجود ہے۔

دوسری طرف مسلم لیگ ن بھی اس عوامی حمایت کو ختم کرنے کیلئے مریم نواز یا نوازشریف کا کارڈ استعمال کرتے ہوئے اپنی کوشش کرے گی۔ تاہم حتمی طو رپر یہ دو سرمایہ دار گروہوں کا مقابلہ ہے۔ دونوں کے پاس بہت بڑی دولت ہے۔ اب جو بھی انتخابات ہونگے، ان میں دولت کا ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ استعمال ہو گا۔

سرمایہ دار گروہوں اور طبقات کے مابین ہونے والی اس چپقلش میں عام عوام مارے گئے ہیں۔ ان کی آپسی لڑائی کے دوران بھی عام لوگ ہی مارے جاتے ہیں۔ کسی ایک کی فتح سے بھی یہ نقصانات کو پورا کرنے اور اپنے مفادات کیلئے تمام تر بحران کا بوجھ عام لوگوں پر ڈالتے ہیں، اس طرح عام لوگوں کا مزید نقصان ہو جاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی موجودہ لڑائیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے آزادانہ انقلابی آواز کو بلند کیا جائے، ایک انقلابی تحریک کی تعمیرکی جائے، اسے آگے بڑھایا جائے اور سوشلسٹ سماج کے قیام کیلئے جدوجہد کی جائے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ عبوری مطالبات کے گرد منظم مہم چلائی جائے۔ بائیں بازو کیلئے ضروری ہے کہ وہ ماحولیاتی انصاف کے نعرے کو بلند کریں، قرضوں کی معطلی اور خاتمے کامطالبہ کریں، سیلاب زدگان کی تعمیر نو و بحالی کا مطالبہ کریں، کم از کم تنخواہ 50 ہزار مقرر کرنے کا مطالبہ کریں۔ اسی طرح دیگر مطالبات پر عملدرآمد کروانے کی حکمت عملی بائیں بازو کی سوچ کو آگے برھانے میں مدد دے سکتی ہے۔

سرمایہ دار گروہ لڑ رہے ہیں، دائیں بازو کی سوچ آگے بڑھ رہی ہے، یہ ایک رد انقلابی دور ہے، کوئی انقلابی دور نہیں ہے۔ اس میں بائیں بازو کو آگے بڑھانا یوں ہی ممکن ہے کہ ماحولیاتی انصاف کی تحریک کو تعمیر کرنے کے علاوہ پبلک و پرائیویٹ سیکٹر کے محنت کشوں کے ساتھ جڑأت قائم کرتے ہوئے ان کی حمایت سے نیو لبرل پالیسیوں اور نجکاری کے خلاف تحریک کو تعمیر کیا جائے۔

موجودہ صورتحال میں تحریک انصاف جیت جائے یا پی ڈی ایم اتحاد میں شامل کوئی بھی جماعت جیت جائے، سب اس بات پر متفق ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

ان سب کی پالیسیاں ایک ہی ہیں۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں نئے غریب پیدا ہو رہے ہیں، بے تحاشہ طبقاتی تفریق نے جنم لیا ہے۔ اس تفریق کی ذمہ داری موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے موجودہ معاشی بحران پر عائد ہوتی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے عام لوگ بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہیں۔ سوشلسٹ مستقبل کی تعمیر کے علاوہ اس ملک کے محنت کشوں کی نجات کا اب کوئی راستہ باقی نہیں ہے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔