نقطہ نظر

’طالبان پاکستان میں چاہئیں نہ افغانستان میں: ورنہ دہشت گردی ختم نہیں ہو گی‘

حارث قدیر

ڈاکٹر نورین نصیرکہتی ہیں کہ ”کنفیوز پالیسی کی بنیاد پر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ ماضی کی طرح افغانستان میں امریکہ کیلئے روس کے خلاف ان کو استعمال کرنے کی پالیسی یا دہشت گردی مخالف جنگ سے اب صورتحال بہت زیادہ پیچیدہ ہو چکی ہے۔ سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز ضرورت کے تحت دہشت گردی کو بڑھاوا دیتے اور پچھلی صفوں پر لے جاتے ہیں۔ تاہم دہشت گرد یہاں سے کبھی گئے ہی نہیں وہ ہمیشہ سے یہاں موجود رہے ہیں۔ پولیس فرسٹ لائن ڈیفنس کا درجہ رکھتی ہے اور دہشت گردی کے خلاف خیبرپختونخوا پولیس نے تاریخ ساز مزاحمت کی ہے، یہی وجہ ہے کہ پولیس دہشت گردوں کا پہلا نشانہ ہے تاکہ انہیں کمزور کیا جائے اور دہشت کو پھیلایا جا سکے“۔

ڈاکٹر نورین نصیر یونیورسٹی آف پشاورکے شعبہ سیاسیات میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کام کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر نورین کی تمام تر تحقیق پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں پر مبنی ہے۔ پشاورمیں دہشت گردی کے حالیہ واقعہ اور گزشتہ عرصہ میں خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی نئی لہر کے ابھار سے متعلق ’جدوجہد‘ نے ڈاکٹر نورین کا ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی نئی لہر کے پیچھے آپ کی نظر میں کیا محرکات ہیں اور افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد اس میں کس حد تک اضافہ ہوا ہے؟

ڈاکٹر نورین: میرے خیال میں طالبان کبھی غائب ہوئے ہی نہیں تھے۔ وہ سلیپر سیلز کی شکل میں خیبرپختونخوا میں حالیہ ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں تھے اور ہیں۔ ان کو سرپرستی اس پالیسی نے دی ہے، جو پاکستان کی افغانستان سے متعلق گزشتہ 50سالوں کے دوران رہی ہے۔ اس پالیسی کے نتائج ہم دیکھ رہے ہیں۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ طالبان کے افغانستان میں آنے کے بعد سے یہ دوبارہ نظر آنا شروع ہوئے ہیں اور زیادہ مضبوط ہوئے ہیں، تو میں سمجھتی ہوں کہ یہ کبھی کمزور نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی غائب ہوئے تھے۔

ہمیشہ سے جب بھی فنڈنگ ختم ہو جاتی ہے، یا ان کو مختلف سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز کی طرف سے مدد ملنا بند ہو جاتی ہے تو یہ دوبارہ سرگرم ہو جاتے ہیں۔ ایک نظریاتی انڈرسٹینڈنگ ہے، جس سے ان کو دوام ملتا رہتا ہے۔ آن اینڈ آف یہ آتے ہیں، ایک لہر اٹھتی ہے اور واپس چلے جاتے ہیں۔ جب بھی ضرورت پڑتی ہے، یہ دوبارہ سے سرگرم ہو جاتے ہیں۔

کیا کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ریاست کے مذاکرات کی ناکامی نئی دہشت گردی کی لہر کا موجب ہے، یا اس کے کوئی اور بھی محرکات ہیں؟

ڈاکٹر نورین: آپ کو پتہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی کلچر نہیں ہے کہ تھنک ٹینک ہوں یا ایسے لوگ جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، انہیں کسی بھی ڈائیلاگ یا ریاستی پالیسی میں بطور سٹیک ہولڈر شامل کیا جائے۔ اس لئے یہ مذاکرات بھی ہمیں اخباروں سے ہی پتہ چلے کہ چل رہے ہیں، یا ناکام ہو گئے۔ ہم نے یہ ضرور دیکھا کہ سابق کور کمانڈر(جنرل (ر)فیض حمید) نے مختلف قبائلی علاقوں، جو حالیہ صوبہ میں ضم ہونے والے اضلاع ہیں، کے دورے کئے تھے۔ وہ ان دوروں کے دوران خواتین کے علاوہ ہر طرح کے نوجوانوں اور سول سوسائٹی اراکین سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ وہ ان ملاقاتوں میں رائے بھی لے رہے تھے اور مشورے بھی کر رہے تھے۔

مجھے پتہ چلا کہ جنوبی وزیرستان میں نوجوانوں کے ساتھ ایک بیٹھک ہوئی تو سابق کور کمانڈر نے نوجوانوں سے پوچھا کہ ہم طالبان کے ساتھ کیا کریں؟ بہت سے نوجوانوں نے انہیں کہا کہ ہمیں آپ ان جنگوں کا حصہ نہ بنائیں، نہ ہی اس ڈائیلاگ کا حصہ بنائیں۔ انکا کہنا تھا کہ نہ ہمارے پاس ہتھیار ہیں، نہ پالیسی بنانے کا کوئی اختیار ہے، آپ ہمیں امن سے رہنے دیں، جو کچھ کرنا ہے وہ کریں اور انہیں روکیں۔ آپ کے پاس ہتھیار بھی ہیں، اختیار و طاقت بھی ہے، آپ پالیسی بنانے والے ہیں۔ آپ لوکل لوگوں کو ان کے ساتھ نہ الجھائیں، ہم ان سے الجھنا نہیں چاہتے۔ میرے ایک شاگرد بھی وہاں بیٹھے تھے، جنہوں نے یہ تفصیل بتائی۔ قبائلی بزرگ بھی وہاں موجود تھے، لیکن نوجوان زیادہ واضح تھے۔ نوجوانوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات وغیرہ میں وہ بیٹھنا نہیں چاہتے، ریاست انہیں نکالے۔

تو اس کیفیت میں بات چیت کی ناکامی سے یہ متحرک ہوئے یا اس کی کوئی اور وجہ ہے، اس کی پہلے سے پیش گوئی کرنا میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ البتہ میں یہ صورتحال بتاسکتی ہوں کہ سابق کور کمانڈڑ قبائلی لوگوں سے اس معاملے پر بات چیت کرتے رہے ہیں۔

ایک وقت تک ریاست نے دہشت گردی کی معاونت کی ہے اور اسے تذویراتی گہرائی کی پالیسی کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کیا اب بھی ریاست کے کسی دھڑے کی پشت پناہی حاصل ہے؟

ڈاکٹر نورین: ریاست کی پالیسی چاہے وہ طالبان کی حمایت میں رہی ہو یا گڈ اور بیڈ طالبان کے طور پر رہی ہو، ہمیشہ کنفیوز ہی رہی ہے۔ ہماری ریاست وقت کے ساتھ اپڈیٹ نہیں ہو رہی، سوشل کنٹریکٹ مختلف اداروں کے ساتھ اسی طرح ہے۔ سکیورٹی کے حوالے سے جو پالیسی ہے وہ اسی روایتی انداز میں چل رہی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہم اس پر بات ہی نہیں کرنا چاہتے، ہم یہ تو کہتے ہیں کہ پالیسی تبدیل ہونی چاہیے، لیکن کوئی متبادل بھی نہیں دے رہے ہیں۔

جس طرح کے معاشی حالات ہیں، میرے خیال میں امن قائم کرنے کیلئے ہمیں پالیسی کی تبدیلی ایسے کرنا ہوگی کہ سکیورٹی خدشات کو معاشی خدشات کے ساتھ تبدیل کر دیا جائے۔ ہماری پوری بحث اور مذاکرات چاہے طالبان کے ساتھ ہوں، چاہے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ، میرے خیال میں ہمیں ابھی سکیورٹی خدشات کو معاشی خدشات کے ساتھ تبدیل کرنا چاہیے۔

ہم کہہ رہے ہیں کہ گڈ اور بیڈ طالبان ریاستی پالیسی ہے، تاہم اس کو پشت پناہی صرف ریاست کی نہیں ہے۔ ریاست نے جو گزشتہ75سال میں بیانیہ تعمیر کیا ہے، اس میں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہر گھر میں ایک طالب موجود ہے۔ اگر ریاست سپورٹ نہیں کر رہی تو صرف خیبرپختونخوا میں نہیں، جتنے بھی صوبے ہیں، ہر گھر میں یہ بیانیہ تیار کیا گیا ہے۔ مذہبی نظریات اور خیالات کا غلط استعمال کیا گیا ہے، اس سے ہم ایک اور مرحلے پر پہنچ گئے ہیں۔ اس پالیسی کو ریورس کرنے کیلئے بھی ہمیں ایک لمبا عرصہ یعنی 4سے 5دہائیاں چاہیے ہونگی۔ بیانیہ تعمیر کرنا جتنا مشکل ہوتا ہے، اتنا ہی اسے توڑنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ ابھی یہ چیلنج کرنا کہ یہ جو لوگ مسجدوں، امام بارگاہوں، سکولوں اور کالجوں میں کر رہے ہیں، یہ مسلمان نہیں ہیں، یہ بھی مشکل ہے۔ اس لئے یہ صرف ریاست کی پشت پناہی نہیں ہے، ہمارے ہاں ایسے مذہبی آؤٹ فٹس بھی ہیں، جن کو ریاست نے کسی خاص مقصد کیلئے پالا تھا، اب وہ بھی عسکریت پسندوں کے پارٹنر ہیں۔ اپنی سہولت اور ضرورت کو دیکھتے ہوئے وہ ان آؤٹ فٹس ان عسکریت پسندوں کو بھی سپورٹ کرنا شروع کر دیتی ہیں، جو ریاست کے خلاف بھی ہیں۔

ریاست کو جب بھی ان نان سٹیٹ ایکٹرز کی ضرورت پڑی، انہوں نے بھی استعمال کیا ہے۔ اب یہ پنڈورا باکس کھل گیا ہے، اب اس میں سے طرح طرح کی کہانیاں نکل کر آرہی ہیں۔ ایک جگہ سے اگر ان کو ریاست آپریشن کے ذریعے روکنا چاہے بھی تو اس صورت میں بہت بڑی آبادی کو بے گھر کر دیتی ہے۔ اس طرح دوگنا نقصان ہو جاتا ہے۔میں تو یہ نہیں سمجھتی کہ اب ریاست کی پالیسی ہو گی کہ ان کی پشت پناہی کریں، لیکن جب سے یہ ریاست بنی ہے، اس سب کو جسٹیفائی کرنے کے چکر میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ ریاست کو مختلف بنیادوں پر بھی جسٹیفائی کیا جا سکتا تھا۔ تاہم ریاست نے جو 75یا 50سالوں میں کیا، اس کی وجہ سے عسکریت پسندوں کو بہت سی جگہوں سے پشت پناہی حاصل ہے۔

میرے خیال میں بہت سے نان اسٹیٹ ایکٹرز ہیں، بہت سے مذہبی آؤٹ فٹس ہیں، بہت سے مدارس ہیں، بہت سے ایسے لوگ ہیں، جن کے ان سے فائدے ہیں، وہ بھی ان کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ اب صورتحال بہت پیچیدہ ہے۔ اب صرف اتنا آسان نہیں ہے کہ ریاست نے افغانستان میں امریکہ کیلئے روس کے خلاف استعمال کیا، یا وار آن ٹیرر میں حصہ لیا۔ اب یہ صورتحال اتنی آسان نہیں ہے،یہ سب کچھ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔

کیا پاکستان میں رجیم چینج کے ساتھ بھی دہشت گردی کے واقعات کا کوئی تعلق جوڑا جا سکتا ہے؟اگر ہاں تو کیسے؟

ڈاکٹر نورین: میں نہیں سمجھتی کہ رجیم چینج سے کوئی فرق پڑا ہے۔ سیاسی عدم استحکام معاشی عدم استحکام کو بڑھاتا ہے۔تاہم میرے خیال میں خیبرپختونخوا اور حالیہ ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں کبھی امن آیا ہی نہیں تھا۔ چاہے پیپلزپارٹی کی حکومت ہو، ن لیگ، پی ٹی آئی کی یا حالیہ پی ڈی ایم کی حکومت ہو، ہم نے کبھی امن نہیں دیکھا، نہ سکیورٹی دیکھی۔ ہر وقت کسی نہ کسی طرح کے چھوٹے چھوٹے ذیلی تنازعات رہے ہیں۔ 17سے زیادہ آپریشن خیبرپختونخوا اور ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں ہوئے ہیں۔ 10لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہوئے، کچھ مستقل بے گھر ہیں۔ تیراہ میں ابھی بھی بحالی اور آبادکاری نہیں ہو پائی ہے۔

بعض اوقات حملے کرنے کی شدت بڑھ جاتی ہے اور بعض اوقات کم ہو جاتی ہے۔ ضم ہونے والے اضلاع اور سرحد کے ساتھ لگنے والے علاقوں میں زیادہ تر یہ لوگ سرگرم ہی رہے ہیں۔ بڑے شہروں پشاور، چارسدہ، مردان وغیرہ میں بھی کچھ نہ کچھ ہوتا رہا ہے۔ آرمی پبلک سکول کا واقعہ کوئی چھوٹا واقعہ نہیں تھا۔ اتنی بڑی تعداد میں بچے شاید ہی کبھی مارے گئے ہونگے، یہ واقعہ بھی پی ٹی آئی کی (صوبائی)حکومت کے دوران ہی ہوا تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ دہشت گردی کبھی ختم ہوئی ہی نہیں، یہ شاید کبھی کبھی ترجیحات تبدیل ہو جاتی ہیں۔

جب وار آن ٹیرر چل رہا تھا اور فنڈنگ آرہی تھی تو ہم پورا کنفلکٹ دکھا رہے تھے، جب امریکہ نکل گیا اور انہوں نے سمجھا کہ ان کے لئے وار آن ٹیرر ختم ہو گیا ہے، لیکن یہاں سے یہ کبھی گیا ہی نہیں تھا۔

ایک تسلسل کے ساتھ پولیس یا سویلین فورسز، عام شہریوں کو دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کیا یہ کوئی حکمت عملی ہے کہ فرنٹ لائن ڈیفنس کو ڈی مورلائز کیا جائے یا صرف آسان ٹارگٹ کی تلاش میں ایسے کیا جا رہا ہے؟

ڈاکٹر نورین:خیبرپختونخوا میں پولیس شہروں کی ’فرسٹ لائن آف ڈیفنس‘ ہے۔ میں بہت فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ خیبرپختونخوا پولیس نے 2007ء سے آج تک ان عسکریت پسندوں کے خلاف باقاعدہ سٹریٹ وار کی ہے۔ افغانستان سے یاقبائلی اضلاع سے جو بھی شہروں میں عسکریت ہوتی رہی ہے، انہوں نے شہروں کی حفاظت کی ہے۔ قبائلی علاقوں کے انضمام سے قبل وہاں پولیس سسٹم نہیں تھا، بلکہ لوکل خاصہ دار سسٹم ہوتا تھا۔ 2018ء کے بعد اب پولیس گئی ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں بھی اب پولیس بہت ڈٹ کر ان کا مقابلہ کر رہی ہے۔

ابھی تو پشاورکا بہت بڑا واقعہ ہوا ہے، لیکن پچھلے ڈیڑھ سال سے پولیس کو مختلف طریقوں سے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا پولیس نے نہ ہی استعفے دیئے ہیں، نہ ہی انہوں نے پولیس تھانے چھوڑے ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ وہ اب زیادہ موثر انداز میں ماضی کی نسبت ایک ریگولر آرمی فورس سے زیادہ بہتر طریقے سے دہشت گردی کے واقعات سے نپٹے ہیں۔ اسی لئے دہشت گرد پولیس کو ٹارگٹ بھی کر رہے ہیں، کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ یہ پولیس بغیر وسائل کے ان سے لڑنے کیلئے تیار ہے، یہ زیادہ اچھی طرح سٹریٹ وار کر سکتی ہے۔ یہ ایک کمزور کرنے کا حربہ تو ہے ہی، لیکن انہیں پتہ ہے کہ پہلے پولیس کو ختم کرنا ہوگا، تب ہی جا کر ہم یہاں دہشت پھیلا سکیں گے۔ دہشت گردوں کو پولیس کے ریکارڈ کا بھی بہتر پتہ ہے۔اسی لئے ان کو پہلے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے تاکہ یہ کمزور پڑ جائیں اور شہریوں کو حفاظت کیلئے کوئی میسر نہ ہو۔

بھتہ خوری کا جو سلسلہ گزشتہ عرصہ میں شروع ہوا تھا، اس سلسلے میں ریاست کی جانب سے کسی شہری کو تحفظ بھی فراہم کیا گیا ہے، کوئی بھتہ خوری کرنے والا گرفتار ہوا ہو؟

ڈاکٹر نورین:بھتہ خوروں کے گرفتار ہونے کی اطلاعات تو ہیں، لیکن یہ اخبارات میں نہیں ہیں۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے یہ واقعات بڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔ بہت سے حاضر سروس افسروں کیساتھ غیر رسمی گفتگو میں یہ پتہ چلا ہے کہ بہت سے بھتہ خور گرفتار ہوئے ہیں۔ بہت سے ایسے لوگ جو منشیات اور ہتھیاروں کی تجارت میں ملوث تھے، سمگلرز وغیرہ کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم یہ ایک ایسا نیٹ ورک ہے، جو پشاور سے لیکر کراچی تک پھیلا ہوا ہے۔ جو کراچی میں بیٹھا سربراہ ہے، وہ ان کو سپروائز کر رہا ہے۔ وہاں بھتہ خوروں سے نپٹنا سندھ پولیس کا کام ہے، وہ کے پی پولیس نہیں کر سکتی۔ اس لئے ضروری ہے کہ جتنی بھی پولیس فورسز ہیں، وہ ایک ہم آہنگ حکمت عملی بنائیں، تب ہی ان نیٹ ورکس کو پکڑا جا سکتا ہے۔ کراچی یا دبئی میں بیٹھ کر اگر کوئی وہاں سے کنٹرول کر رہا ہے تو وہ کے پی پولیس کیلئے بہت مشکل کام ہے۔

ریاست کی جانب سے حالیہ دہشت گردی کے ابھار کے خلاف کوئی حکمت عملی بنائی بھی گئی ہے، یا صرف ابھی انتظار کیا جا رہا ہے؟

ڈاکٹر نورین:جب ریاست ہی کنفیوز ہے تو ہم ان کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں۔ ریاست میں جو پالیسی بنانے والے ہیں، چاہے وہ ملٹری سطح پر ہوں، سیاسی یا تھنک ٹینک، کسی کو کچھ نہیں پتہ کہ کیاکر رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں ہم مذاکرات کر رہے ہیں، کبھی کہتے ہیں نہیں کر رہے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ علاج کیلئے انہیں اجازت دی گئی ہے، کبھی فیملی سے ملنے کیلئے اجازت دی گئی ہے۔ کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آرہی ہے۔ ہمیں گراؤنڈ پر کچھ نظر نہیں آتا کہ عسکریت پسندوں کی طرف ریاست کی کیا پالیسی ہے۔

ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ریاست کے پاس اتنی سہولتیں ہیں کہ وہ ایک منظم طریقے سے ان کے حوالے سے کوئی حکمت عملی بنا کر ان سے نپٹ سکے۔ تاہم جو بڑی کمی ہے وہ یہ کہ ہم آہنگی بھی نہیں ہے۔ نہ سیاسی جماعتوں میں، نہ ملٹری قیادت میں، نہ ہی سول سوسائٹی کے مابین کوئی ہم آہنگی ہے کہ طالبان یا عسکریت پسندوں سے متعلق کیا پالیسی ہونی چاہیے۔ یہ ایک المیہ ہے، جس نے ریاست کو بھی کنفیوز کیا ہوا ہے، جو ریاست میں رہنے والے ہیں، ان کی زندگیوں کو بھی غیر محفوظ بنایا ہوا ہے۔

گزشتہ عرصہ میں مالاکنڈ ڈویژن سمیت قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردی کی نئی لہر کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی ابھار اور تحرک نظر آیا ہے، لیکن پشاور میں ابھی تک اس طرح کا کچھ نہیں ہو سکا۔ کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ ترقی پسند اور قوم پرست قوتیں عوامی رد عمل کے حوالے سے کوئی حکمت عملی بنائیں گی؟

ڈاکٹر نورین: میرے خیال میں پشاور نہ تو پورا شہر ہے، نہ تو پورا گاؤ ں ہے۔ نہ یہاں ایک قبیلہ رہتا ہے اور نہ ہی ایک کمیونٹی۔ یہ بہت تقسیم شدہ شہر ہے۔ مرکز میں یا شہر میں جائیں تو آپ کو وہاں مختلف سیاسی و مذہبی خیالات نظر آئیں گے۔ نواحی علاقوں میں جائیں تو ایسے علاقے نظر آئیں گے جہاں عسکریت پسندوں کے سلیپر سیلز بھی ہیں، وہاں پر لوگ بہت مطمئن ہیں۔ جب طالبان کی حکومت افغانستان میں آئی تو ہم پشاور کے نواح میں ایک گاؤں کے دورے پر گئے، ہم نے جگہ جگہ طالبان کے جھنڈے لہراتے ہوئے دیکھے۔ پشاور میں مختلف کمیونٹیز آباد ہیں، ان کی ترجیحات بھی مختلف ہیں، ان کی مذہبی وابستگیاں بھی مختلف ہیں۔

جیسے مالاکنڈ، سوات یا قبائلی اضلاع میں آپ کو اتحاد نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ایک کمیونٹی، یا ایک قبیلہ آباد ہے، ایک جیسے لوگ آباد ہیں۔ ان کی ایک ہی ترجیحات ہیں۔ میں یہ نہیں کہوں گی کہ اس دہشت گردی میں پشاور نے کم سفر کیا ہے۔ پورے پاکستان میں پشاور سب سے زیادہ متاثرہ شہر ہے، لیکن یہاں کا تنوع کبھی اتفاق کو جنم نہیں لینے دیتا۔ یہ کبھی اتفاق نہیں کرینگے کہ انہیں عسکریت پسندوں کے خلاف نکلنا چاہیے یا نہیں نکلنا چاہیے۔ یہ شہری علاقوں کی طرح ایک ان ڈفرنٹ بھی ہے اور دیہی علاقوں کی طرح پشاور کے نواح میں عسکریت پسندوں کو مذہبی حمایت بھی نظر آئے گی۔

آپ کے خیال میں دہشت گردی کی اس نئی لہر کو روکنے کیلئے کس طرح کے فوری اقدامات کی ضرورت ہے؟

ڈاکٹر نورین: میرے خیال میں دہشت گردی کو روکنے کیلئے ہم لوگوں کو ایک اتحاد چاہیے۔ ہم اتفاق کریں کہ طالبان نہ ہمیں اپنے لئے چاہئیں، نہ افغانستان میں چاہئیں۔ سب سے بڑی جو ہماری ضرورت ہے، وہ یہ کہ سکیورٹی خدشات کو معاشی خدشات سے تبدیل کیا جانا چاہیے۔ ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے چاہئیں۔ افغانستان میں فرینڈلی حکومت نہ ڈھونڈیں بلکہ جو بھی حکومت ہو ایک معاشی معاہدہ کریں تاکہ ہمارے اور ان کے معاشی خدشات ایک ہوں۔ ہم غریب ممالک ہیں، ترقی پذیر معیشتیں ہیں، ہماری توجہ معاشی مسائل کی طرف ہونی چاہیے۔ ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کون سی حکومت آئیگی، جو فرینڈلی ہو گی اور بھارت کے ساتھ تصادم آرائی میں جائے گی۔ میرے خیال میں بھارت کے ساتھ بھی معاشی بنیادوں پر مقابلہ ہونا چاہیے۔ ہمارے آس پاس جو بھی ریجن ہیں ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہونے چاہئیں۔ جیسا کہ ہم سب کو پتہ ہے کہ تاجکستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبے ادھورے پڑے ہیں، ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن بھی ادھوری ہے۔ پاکستا ن میں توانائی کا بحران ہے، پانی کا بحران ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں کا چیلنج بھی ہے۔

میرے خیال میں سکیورٹی خدشات کی پالیسی والے سب لوگوں کو فارغ کیا جائے اور ان کی جگہ اچھے معیشت دانوں کو لایا جائے۔ وہ تجارت پر بات کریں، نئے طریقوں پر بات کریں کہ معیشت کیسے بہتر ہوگی۔ وہ اس پر بات کریں کہ تعلقات معاشی بنیادوں پر کیسے استوار ہونگے۔ یہ طریقہ ختم ہونا چاہیے کہ یہ مسلمان بھائی ہے تو تعلقات رکھیں گے، یہ مسلمان نہیں ہے، اس کے ساتھ تعلقات نہیں رکھیں گے۔ یہ پالیسیاں ترک ہونی چاہئیں، نیا کچھ سوچنا ہوگا۔

افغانستان کیلئے بھی مختلف طریقے سے سوچنا ہوگا۔ وہاں جو بھی رجیم بیٹھی ہے، اس کے ساتھ معیشت پر بات کرنی چاہیے۔ یہ پورا خطہ اتنا وسائل سے مالا مال ہے کہ مل کر ان وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس نئی سوچ اور سمجھ کو اپنانا اور اس پر اتفاق کرنا ہوگا، اس سے غربت بھی ختم ہو گی، کیونکہ غربت بھی ایک بڑی وجہ ہے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ عسکریت کی طرف جاتے ہیں۔ اسی طرح مذہبی کمیونٹیز کے خدشات کو بھی ایڈریس کیا جا سکتا ہے۔ اب کچھ نیا سوچنا ہوگا، جس پر ہم اپنے تعلقات بنائیں۔

جتنی بھی جابرانہ طاقتیں ہیں، یا آؤٹ فٹس ہیں، انہیں پالیسی فارمولیشن کا حصہ نہ بنایا جائے، وہ ہمیں ہمیشہ مہنگا پڑتا ہے۔ وہی آؤٹ فٹس جنہیں ہم ملکی مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں، بعد میں پھر ہمارے لئے ہی تھریٹ ثابت ہوتے ہیں۔ معاشی خدشات کے بارے میں سوچی، فرینڈلی پالیسی بنائیں، غیر مداخلت کی پالیسی بنائیں، کبھی بھی مداخلت نہ کریں تاکہ کسی کو بھی مداخلت کا بہانہ یا ضرورت محسوس نہ ہو۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔