حارث قدیر
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے ضلع بھمبر اور ضلع میرپور کے تحصیل صدر مقام ڈڈیال میں واقع دو کتابوں کی دکانیں ممنوعہ کتب رکھنے کے الزام میں انتظامیہ کی طرف سے سیل کی گئی ہیں۔ حکام کی جانب سے پابندی زدہ کتابوں کی فروخت کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ آپریشن کے دوران کتابوں کی دکانوں پر پابندی زدہ کتب پائے جانے پر انہیں سیل کرنے اور جرمانے کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
جمعرات 16 مارچ کو ڈڈیال میں واقع چغتائی بک ڈپو کو سیل کر کے ممنوعہ کتب ضبط کر لی گئی تھیں۔ چغتائی بک ڈپو کے مالک کا کہنا ہے کہ ان کی دکان پر دو اایسی کتابیں موجود تھیں، جن پر مبینہ طور پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ یہ کتابیں ’جموں کشمیر بک آف نالج‘ اور ’نالج آف جموں اینڈ کشمیر (سوالاً جواباً)‘ تھیں۔ اسسٹنٹ کمشنر ڈڈیال کی سربراہی میں پولیس اور انتظامیہ کے افسران نے کارروائی کی اور دکان سیل کر کے کتابیں ضبط کر لیں۔
تاہم ایک انتظامی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس دکان میں کچھ انگریزی اور کچھ اردو زبان کی وہ کتابیں موجود تھیں، جن پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوٹیفکیشن ڈپٹی کمشنر میرپور کی جانب سے ارسال کرتے ہوئے ممنوعہ کتب رکھنے والے دکان داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا تھا، جس کی تعمیل کی گئی ہے۔
بعد ازاں شہریوں کے احتجاج کے بعد اتوار کے روز مذکورہ دکان کو کھول دیا گیا، تاہم کتابیں واپس نہیں کی گئی ہیں۔
جمعہ 17 مارچ کو بھمبر میں واقع ’نونی کتاب گھر‘ کو بھی سیل کیا گیا۔ مذکورہ دکان کے مالک چوہدری آصف محمود کا کہنا تھا کہ ’کشمیریات‘ نام کی کتاب ہماری دکان پر موجود تھی۔ وہ کتاب معمول کے مطابق دکانوں پر فروخت کی جاتی ہے، ہمیں پابندی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی۔ دکان سیل کر کے کتاب ضبط کی گئی تو ہم نے انتظامیہ کو یقین دہانی کروائی کہ آئندہ یہ کتاب فروخت نہیں کی جائے گی۔ انتظامیہ نے یقین دہانی کے بعد دکان کھولنے کی اجازت دے دی۔
28 کتابوں پر پابندی عائد ہے
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں جموں کشمیر کی تاریخ سے متعلق لکھی جانے والی 28 کتابوں کو ممنوعہ قرار دیکر فروخت کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس پابندی سے متعلق دو حکم نامے انتظامیہ کے پاس موجود ہیں۔ ایک انسپکٹر جنرل پولیس کی جانب سے ایس ایس پی مظفرآباد کو لکھا گیا مکتوب ہے، جس میں کتابیں ضبط کرنے اور کارروائی کرنے کی ہدایت بھی جاری کی گئی ہے۔ دوسرا نوٹیفکیشن محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔
آئی جی پولیس کی جانب سے ایس ایس پی مظفر آباد کے نام لکھے گئے مکتوب محررہ 27 جون 2015ء کے مطابق 12 ممنوعہ کتابوں کے نام لکھے گئے ہیں اور فروخت کرنے والے دکانداروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔
مذکورہ کتابوں میں سعید اسد کی تحریر کردہ کشمیریات (پارٹ 1)، منگلا ڈیم خطرناک توسیع منصوبہ، شعور فردا، ملامت جموں و کشمیر اور دیوانوں پر کیا گزری شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عامرہ نور کی تصنیف ’بارہ مولہ‘، ڈاکٹر شبیر چوہدری کی تصنیف ’عارف شاہد کیوں قتل ہوا تھا‘، کرشنا مہتا کی تصنیف’ایک ماں کی سچی کہانی‘، صحافی نقی اشرف کے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین پر مشتمل کتاب ’حرف ضمیر‘، معروف صحافی عبدالحکیم کشمیری کی تصنیف ’تنازعہ کشمیر حقیقت کے آئینہ میں‘، جموں کشمیر کی طلبہ تحریک کے پس منظر پر لکھا گیا قمر رحیم کا ناول ’آزادی کا سفر‘ اور معروف انقلابی دانشور ڈاکٹر لال خان (مرحوم) کی تصنیف ’چین کدھر‘ بھی پابندی زدہ کتب میں شامل کی گئی ہیں۔
محکمہ داخلہ کی جانب سے 24 فروری 2016ء کو جاری کئے جانے والے ایک نوٹیفکیشن میں مزید 16 کتابوں کو ممنوعہ قرار دیتے ہوئے ان کی خرید و فروخت، درآمد اور نمائش پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
نوٹیفکیشن کے مطابق جن کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں محمد سعید اسد کی تصانیف ’جموں کشمیر بک آف نالج (انگریزی)، واؤنڈڈ میموری (انگریزی)، ’جموں کشمیر بک آف نالج (اردو)، کشمیریات پارٹون (اردو)، ’نالج آف جموں و کشمیرسوالاً جواباً (اردو)، ’گائیڈ میپ آف پونچھ ڈویژن (انگریزی)‘ اور ’میپ آف جموں کشمیر سٹیٹ (انگریزی)‘ ڈاکٹر شبیر چوہدری کی تصانیف ’کشمیر اینڈ دی پارٹیشن آف انڈیا (انگریزی)‘ اور ’مسئلہ کشمیر تلخ حقائق (اردو)‘، شہید کشمیر مقبول بٹ شہید کی تصانیف ’سری نگر جیل سے فرار کی کہانی (اردو)‘ اور ’میں کون ہوں (اردو)‘، محب الحسن کی تصنیف ’کشمیر سلاطین کے عہد میں (اردو)‘، شمس رحمان کی تصنیف ’مقبول بٹ دی لائف اینڈ سٹریگل (اردو)‘، پروفیسر محمد عارف خان کی تصانیف ’مسئلہ جموں اینڈ کشمیر (اردو)‘ اور ’کشمیر تاریخ کے آئینے میں (اردو)‘، بال کے گپتا کی تصنیف کا اردو ترجمہ’میرپور جب قیامت ٹوٹ پڑی‘ شامل ہیں۔
سعید اسد کی سب سے زیادہ کتابیں پابندی کا شکار
جن کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، ان میں زیادہ کتابیں محمد سعید اسد کی تحریر یا مرتب کردہ ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی کتابوں کی تعدادبھی کافی ہے، جن کی اشاعت محمد سعید اسد کے اشاعتی ادارے ’نکس‘ کے زیر اہتمام کی گئی ہے۔
محمد سعید اسد محکمہ سوشل ویلفیئر کے افسر ہیں اور ایک لمبے عرصہ سے جموں کشمیر کی تاریخ کے حوالے سے تحریری اور اشاعتی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ انہیں اس وجہ سے متعدد مرتبہ ملازمت سے بھی معطل کیا گیا ہے۔ ملازمت سے برطرفی کی کارروائی بھی کی گئی ہے، تاہم عدالتوں کی جانب سے انہیں ریلیف دیا جاتا رہا ہے۔
وہ جس بھی کتاب میلے میں اپنے اشاعتی ادارے کی کتب کا سٹال لگاتے ہیں، وہاں سرکاری حکام ممنوعہ کتابوں کیخلاف کارروائی کے نام پر ان کی اکثر کتابیں ضبط کر دیتے ہیں۔
تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ محمد سعید اسد کی مرتب کردہ کتب کی پبلک سروس کمیشن سمیت دیگر ریاستی سطح کے امتحانات کی تیاری کیلئے مانگ بہت زیادہ ہے۔
’جدوجہد‘ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد سعید اسد کا کہنا تھا کہ ’جن کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، انہیں کسی نے پڑھنا بھی گوارہ نہیں کیا گیا ہے۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’جن کتابوں کی وجہ سے دکانیں سیل کی گئی ہیں، وہ کتابیں میرپوریونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (مسٹ)، کوٹلی یونیورسٹی اور کوٹلی کے ایک سرکاری کالج کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔ جو کتابیں نصاب میں شامل ہیں ان پر پابندی عائد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’ریاستی سطح کے مقابلے کے جتنے بھی امتحانات ہوتے ہیں۔ پبلک سروس میں جانے والے افسران ہوں، یا اہلکار ہوں وہ سب میری مرتب کردہ ’کشمیریات‘، ’جموں کشمیر بک آف نالج‘ اور ’معلومات جموں کشمیر سوالاً جواباً‘ سمیت دیگر کتب سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’ریاستی ادارے ان کتابوں اور تاریخ سے نوجوان نسل کو دورکرنا چاہتے ہیں۔ سب سے زیادہ کوشش یہی ہے کہ پبلک سروس میں آنے والے افسران اس تاریخ سے روشناس نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کچھ عرصہ بعد تاریخ کی ان کتابوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا جاتا ہے۔ تاہم جب جب یہ آپریشن کیا جاتا ہے ان کتابوں کی فروخت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب بھی ڈڈیال میں لوگوں نے احتجاج کے طور پر عوامی سطح پر کیمپ لگا کر کتابوں کی فروخت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔‘
کتابوں پر پابندی عائد کرنے اور ممنوعہ قرار دی گئی کتابیں فروخت کرنے والی دکانوں کو سیل کئے جانے کے اقدام کے خلاف اندرون و بیرون ریاست شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر صارفین اس اقدام کی مذمت کر رہے ہیں اور اسے اظہار رائے کی آزادی سمیت تاریخ تک رسائی پر پابندی قرار دے رہے ہیں۔