تاریخ

فادر آف ماڈرن لاہور

ڈاکٹر مظہر عباس

سر گنگا رام کی برسی ہر سال بالخصوص لاہوریوں اور بالعموم پنجابیوں کی طرف سے بغیر کسی یادگار کے گزر جاتی ہے۔ اس کی ممکنہ وجہ اگست 1947ء میں برِصغیر کی تقسیم کو قرار دیا جا سکتا ہے، جس نے بھارت اور پاکستان میں ایک مخصوص عقیدے کو جگہ دی اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیرو، مخیر حضرات، نیک طبع افراداور انسان دوست شخصیات کو مسترد کر دیا۔

عقیدے کے غلبے اور ہیرا پھیری کے حوالے سے میرا مؤقف ہے کہ ”متضاد نظریاتی رُجحانات نے بہت سے باصلاحیت اور قابل لوگوں کو ریاست اور قوم کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے سے محروم کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر، جوگیندر ناتھ منڈل، جو کہ عقیدے کے لحاظ سے ایک ہندو تھے اور سر محمد ظفر اللہ خان، ایک احمدی، جنہیں بعد میں غیر مسلم قرار دیا گیا، کی خدمات کو مسترد کر دیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ عقیدے کے غلبے اور مسابقتی نظریات نے ہمیں نہ صرف لوگوں کی انمول خدمات فراموش کرنے پر مجبور کیا ہے بلکہ ان کے عقیدے کی بنیاد پر ان سے مزید خدمات اور دیرپا تعاون لینے سے بھی انکاری بنا دیا ہے۔“

مثال کے طور پر، سر گنگا رام (ایک ہندو سول انجینئر اور آرکیٹیکٹ) اس دردناک اور بے رحم میراث کا شکار ہو گئے ہیں۔ گنگا رام نے جنرل پوسٹ آفس، ایچی سن کالج، میو سکول آف آرٹس (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس)، اور لاہور میوزیم کو ڈیزائن اور تعمیر کرنے پر”فادر آف ماڈرن لاہور“ کا خطاب حاصل کیا۔ مزید برآں، انہوں نے شہر کے پہلے صفائی کے نظام، واٹر ورکس، اور گلبرگ اور ماڈل ٹاؤن کے مضافاتی علاقوں کی منصوبہ بندی اور تعمیر بھی کی جو حال ہی میں لاہور کی بڑھتی ہوئی سماجی اقتصادی اشرافیہ کے ثقافتی مراکز میں تبدیل ہو گئے ہیں۔

اُنہوں نے لاہور کے لوگوں کے لئے سر گنگا رام ہسپتال، لیڈی میکلاگن گرلز ہائی سکول، گورنمنٹ کالج لاہور (موجودہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور) کا کیمسٹری بلاک، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر ونگ، سر گنگا رام ہائی سکول (موجودہ لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی)، ہیلے کالج آف کامرس، راوی روڈ ہاؤس برائے معذور افراد، دی مال پر گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ، اور لیڈی مینارڈ انڈسٹریل سکول بنائے۔

خاص طور پر، گنگا رام نے اپنی زندگی کے سب سے مشکل اور اہم پروجیکٹوں میں سے ایک پروجیکٹ، لاہور کی تعمیر نو کا کام اپنے ذمے لیا۔ لاہور وہ شہر تھا جو کبھی دہلی سلطنت اور مغل سلطنت کا صوبائی دار الحکومت اور سکھ بادشاہت کا مرکز تھا اور 1849ء میں انگریزوں کے ہاتھوں سکھ بادشاہت کے زوال کے بعد یتیم ہو گیا تھا۔ شہر میں موجود عمارتیں، یادگاریں، اور باغات زوال کا شکار ہو گئے تھے۔ لاہور معاشی سرگرمیوں اور خوشحالی میں دہلی اور امرتسر جیسے شہروں سے بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ 1880ء کی دہائی کے وسط میں انگریزوں نے گنگا رام کو لاہور کا ایگزیکٹو انجینئر مقرر کر کے شہر کی تعمیر نو کا کام سونپا۔ اپنی بارہ سالہ خدمات (1891ء-1903ء) کے دوران اُنھوں نے لاہور کے فنِ تعمیر پر اَنمٹ نقوش چھوڑے۔ روزگار کے مواقعوں کی تلاش کی مد میں اس شہر نے بڑی تعداد میں تارکین وطن کو اپنی طرف متوجہ کیا اور بعد میں برطانوی ہندوستان کے بڑے اور جدید ترین شہروں میں سے ایک بن گیا۔

لاہور کی تعمیرِ نو اور جدید کاری کے علاوہ، سر گنگا رام نے لائل پور ضلع (موجودہ فیصل آباد) کی تحصیل جڑانوالہ میں ایک منفرد سفری سہولت، گھوڑوں سے چلنے والی ٹرین ایجاد کی۔ یہ ایک منفرد سفری سہولت تھی: اس میں دو ٹرالیوں کو ایک تنگ ریل کی پٹڑی پر ایک ریل انجن کی بجائے گھوڑے کھینچتے تھے۔ اس ٹریک نے گنگا پور گاؤں کو بچیانہ ریلوے اسٹیشن کے ذریعے لاہور سے جوڑا، جس سے گاؤں میں معاشی خوشحالی آئی۔ یہ ٹریک 1980ء کی دہائی میں حکام کی عدم توجہی کے باعث بیکار ہو گیا۔ تاہم، اسے 2010ء میں فیصل آباد کی ضلعی حکومت نے ثقافتی ورثے کا درجہ دے کر اس کی تنظیمِ نو کا اعلان کیا۔

گنگا پور کا گاؤں گنگا رام نے اس وقت قائم کیا تھا جب 1903ء میں انہیں چناب کینال کالونی (موجودہ ضلع فیصل آباد) میں 500 ایکڑ اراضی ان کی ریٹائرمنٹ پر الاٹ کی گئی تھی۔ وہاں انھوں نے ایک ایسا فارم ہاؤس قائم کیا جس میں ایک مکینیکل ریپر، ریز، ہیرو، سکی تھس، اور کاشتکاری کرنے والے دوسرے جدیدزرعی آلات موجود تھے۔ یہ فارم ہاؤس برطانوی ہندوستان میں اپنی نوعیت کا پہلا زرعی فارم تھا۔

انہوں نے منٹگمری (موجودہ ساہیوال ضلع) اور رینالہ خورد میں برطانوی حکومت سے لیز پر لی ہوئی 30,000 ایکڑ زمین میں جدید زرعی آلات بھی متعارف کرائے تھے۔ انھوں نے بنجر زمین کو بجلی کے پمپوں سے سیراب کرنا شروع کیا اور اس بنجر زمین کو قابل کاشت زمین میں تبدیل کر دیا۔ انھوں نے 25,000 روپے کے وقف کے ساتھ 3,000 روپے کا مینارڈ گنگا رام ایوارڈ قائم کیا۔ یہ ایوارڈ ہر تین سال بعد کسی ایسے شخص کو دیا جاتا تھا جس کی اختراع سے زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہو۔

پنجاب میں زراعت کو جدید بنانے اور لاہور، منٹگمری، اور لائل پور کی زراعت میں اپنا حصہ ڈالنے کے علاوہ، ہندوستانی پنجاب میں ریاست پٹیالہ کو دوبارہ ڈیزائن اور جدید بنانے کا سہرا بھی انہی کے سر جاتا ہے۔ موتی باغ پیلس، سیکریٹریٹ، وکٹوریہ گرلز ہائی اسکول، سٹی ہائی اسکول، لاء کورٹس، اور اجلا س خاص پٹیالہ میں ان کے سب سے قیمتی نقوش ہیں۔

اگرچہ سر گنگا رام نے بنیادی طور پر مغربی پنجاب کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا، لیکن پاکستان کے بجائے بھارتی حکومت نے ان کی خدمات کو تسلیم کیا اور انہیں اعزاز سے نوازا۔ بھارتی حکومت نے روہڑکی یونیورسٹی اور تھامسن کالج آف سول انجینئرنگ (اب آئی آئی ٹی روہڑکی) میں گنگا رام طالب علم ہاسٹل قائم کیا ہے اور ان کے اعزاز میں نئی دہلی میں سر گنگارام ہسپتال بھی بنایا ہے۔

اس کے برعکس، حکامِ پاکستان نے سر گنگا رام سے پرایوں جیسا سلوک کیا ہے:
۱) سر گنگا رام ہائی اسکول کا نام بدل کر لاہور کالج برائے خواتین (اب یونیورسٹی) رکھ دیا)
۲) ان کی سمادھی خستہ حالی کا شکار ہے، جس کی مرمت اور تزئین و آرائش کی اشد ضرورت ہے؛ اور
۳) 1947ء کے فسادات کے دوران مال روڈ پر ان کے مجسمے پر مشتعل ہجوم نے حملہ کیا تھا (جس پر سعادت حسن منٹو نے اپنے مخصوص انداز میں ایک یاد گار افسانہ بھی تحریر کیا تھا)۔

Dr. Mazhar Abbas
mazharabbasgondal87@gmail.com | + posts

مصنف نے شنگھائی یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں لیکچرار ہیں۔