عامر ملک
ڈئیر کامریڈ بھگت سنگھ!
سالگرہ مبارک…
بہتر سال پہلے برطانیہ سے آزادی مل گئی تھی مگر جیسا کہ آپ نے کہا تھا گورا صاحب کی جگہ براؤن صاحب کے آ جانے سے آزادی نہیں ملے گی۔ نہیں ملی۔ آپ کی شہادت کے تقریباًنوے بعد، تا دمِ تحریر براؤن صاحب کی جگہ ہندوستان میں اب زعفرانی لوگوں کی حکومت آ گئی ہے۔ بتاتا چلوں کہ زعفران ہندوستان کی موجودہ دائیں بازو کی کٹر ہندو حکومت کا رنگ ہے۔
انتہائی دائیں بازو کی بی جے پی حکومت کے اِس دور میں آپ کے نظریات کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔
آپ کی شہادت رائیگاں نہیں گئی۔ برطانوی راج نے آپ کے شریر کو پھانسی لگایا تھا، آپ کے نظریات کو وہ پھانسی نہیں چڑھا سکے۔ آپ نے ہمیں سکھایا کہ وقار کے ساتھ جان قربان کر دینا بے وقار زندگی گزارنے سے بدرجہا بہتر ہے۔ آپ نے ہی ہمیں سکھایا تھا: ”بہرے کو سنانے کے لئے زور سے بولنا پڑتا ہے“۔ آپ نے ہی ہمیں ”سرخ پمفلٹ“ سے روشناس کرایا تھا۔
اس”سرخ پمفلٹ“میں آپ نے کہا تھا کہ برطانوی راج آپ پر ”نئے جابرانہ قوانین“ مسلط کر رہی ہے۔ آپ کا اشارہ ”پبلک سیفٹی ایکٹ، دی ٹریڈ ڈ سپیوٹس اینڈ پریس سیڈیشن ایکٹ“ کی طرف تھا۔
آپ نے ان قوانین کو ”شرمناک مذاق“ قرار دیا تھا۔ گوروں کی طرح، بھارت پر حکومت کرنے والے موجودہ گروہ نے 5 اگست کو کشمیر میں آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر دیا اور 82 سالہ کشمیری رہنما فاروق عبداللہ کے خلاف ”پبلک سیفٹی ایکٹ“ کے تحت کاروائی کی۔ ہندوستان ابھی برطانوی غلامی کے چنگل سے بھی نہیں نکلا تھا جب فاروق عبداللہ کا جنم ہوا۔ مقصد یہ تھا کہ ان کی ہتک کی جائے۔
اپنے کتابچے ”نوکر شاہی! ہشیار باش“ میں آپ نے لکھا تھا کہ ”برطانوی حکومت دنیا کی آمرانہ ترین حکومت ہے“۔ بی جے پی طالع آزمائی کا سبق برطانوی راج سے ہی لے رہی ہے۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں آپ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ بی جے پی کی موجودہ فار رائٹ حکومت لیبر قوانین میں تبدیلی لانے کے لئے بھی تیار بیٹھی ہے۔ 44 لیبر قوانین کو ضم کر کے چار لیبر کوڈز بنائے جا رہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ کارپوریٹ بزنس دل کھول کر لاکھوں مزدوروں کا استحصال کر سکے۔
1926ء کے”ٹریڈ ڈسپیوٹ بلز“کے تحت برطانوی راج نے ہڑتال پر پابندی لگا دی تھی۔ ہڑتال کو حکومت ِوقت کے خلاف بغاوت قرار دیدیا گیا تھا۔ مزدوروں کو بغیر مقدمہ سنے قید با مشقت میں ڈال دیا گیا۔ ہندوستان پر مسلط فاشسٹوں نے اب یہ فیصلہ سنایا ہے کہ مزدور ہڑتال کرنے سے 42 دن پہلے ہڑتال کا نوٹس دیں۔ پہلے نوٹس پیریڈ 14 دن کا تھا۔ گویا اس حساب سے تو موجودہ زعفرانی راج برطانوی راج سے تین گنا زیادہ جابرانہ ہے۔
جس ملک کا خواب آپ نے دیکھا تھا اسے خاموش کر دیا گیا ہے۔ اس کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ جو لب کھولتا ہے، آپ کے نقش قدم پر چلتا ہے، اس پر بغاوت کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے۔ پہلے سے موجود ”انسدادِ دہشت گردی“ قوانین میں بھی ترمیم کر دی گئی ہے۔ یو اے پی اے (Unlawful Activities Prevention Act) میں ترمیم کے بعد تو دہشت گردی کی تعریف ہی بدل دی گئی ہے۔
انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ الزام ثابت ہونے تک ملزم بے قصور تصور کیا جاتا ہے۔ پھر یہ کہ الزام ثابت کرنا حکام کا کام ہے۔ حزبِ اختلاف میں شامل کانگریس اور بھوجن سماج پارٹی کی مدد سے حکومت نے جو ترمیم کی ہے اس کے مطابق اب کسی پر بھی ایف آئی آر کاٹے بغیر، اسے دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے۔
کامریڈ! کیا دنیا بھر میں کہیں ایسا ہوتا ہے؟ جب تاجِ برطانیہ نے آپ کو دہشت گرد قرار دیا تھا، یہ الزام انتہائی لغو تھا مگر انہوں نے آپ پر جھوٹا سچا مقدمہ تو چلایا تھا۔ آج کے بھگت سنگھ کو یہ موقع بھی نہیں ملے گا کہ وہ اس حکومت کو ننگا کر سکے۔
ہندوستان میں بغاوت بھی کیسی ستم ظریفی ہے؟
ڈئیر کامریڈ! مجھے آپ کے کزن جگموہن سے بات کرنے کا موقع ملا۔ وہ اس ملک کے معروف پروفیسر ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا:”بغاوت کا مطلب ہے کہ حکمران اور محکوم ایک دوسرے کے دشمن ہیں“۔
بی جے پی یا مودی سرکار پر تنقید کے الزام مین ان گنت لوگ گرفتار ہو چکے ہیں۔ سیاسی کارکن اور صحافی جیل میں بیٹھے ہیں۔
حکومت پر تنقید بغاوت کب سے بن گئی؟ سپریم کورٹ کے ایک سینیئر جج نے ایک مرتبہ مجھے بتایا تھا کہ 1947ء میں بغاوت بارے سارے قوانین ختم کئے جا سکتے تھے۔ ایک ہندوستانی بھلا ہندوستانیوں کے خلاف بغاوت کیسے کر سکتا ہے؟
ڈئیر کامریڈ! ہندوستانی حکومتوں نے نہ صرف برطانیہ کے چھوڑے ہوئے ورثے کی حفاظت کی بلکہ اس ورثے کو پروان چڑھایا۔ پروفیسر جگموہن کے بیان کی طرز پر میں کہنا چاہتا ہوں کہ حاکم محکوموں کا دشمن ہوتا ہے نہ کہ محکوم حاکموں کا۔
ملک کو آپ کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ شایدوقت آ گیا ہے کہ آپ پھر سامنے آئیں کیونکہ ”بہرے کو سنانے کے لئے زور سے بولنا پڑتا ہے“
مخلص،
عامر ملک